وزیر اعظم کے انڈے اور لکھنے والے کا ہاتھ



قصہ، کہانی، رسالے، کتابیں ہمیشہ سے ہمارا اوڑھنا بچھونا رہے ہیں۔ وہ عمر جس میں بچے جیب خرچ سے “ٹافیاں اور بلے(لالی پاپ)” کھایا کرتے ہیں ہم نے وہ عمر اس جیب خرچ سےعمروعیار اور ٹارزن کی کہانیاں خرید کر پڑھنے میں گزار دی۔ والدین کو ہمیشہ گلہ ہی رہا کہ کبھی “ڈھنگ” کی کوئی شے نہیں خریدی۔ کہانیوں کا چسکہ ایسا کہ کبھی سکون سے کھانا بھی نہ کھایا کہ جتنا وقت کھانے پہ ضائع ہوتا اس میں کہانی مکمل کی جا سکتی تھی۔ جس کسی نے ہمیں ہماری غلطی، گستاخی یا بد تمیزی کی سزا دینی ہوتی، ہماری کہانیوں کی کتابیں “پھاڑ” کر ہمارے “جگر کا خون” کرتا۔ اب تو ہمارے بچے بھی اس بات سے واقف ہو گئے ہیں کہ ماں کی جان کس “طوطے” میں بند ہے۔ ہم نے ذرہ دیر کی نہیں ان کی بات ماننے میں اور ہمارے رسالوں کی شامت آئی نہیں۔ یہ لمبی داستان ہے، کہاں تک سنیں گے؟کہاں تک سناؤں؟
بچپن کی یہ عادت بہت پختہ ہےاور ابھی تک ہم اس “نشے” سے چھٹکارا پانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اللہ بھلا کرے سمارٹ فون کے موجد کا، ہم کتاب نہ بھی اٹھا سکیں تو موبائل پہ ہی ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھ لیتے ہیں۔ اخبار، رسالے، ٹوئٹر جہاں سے بھی کچھ پڑھنے کو مل جائے ہم “بصد احترام” پورے ذوق وشوق سے پڑھتے ہیں۔ اب اس دوران کھانا دھواں ہو یا چائے برف ہماری صحت پہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ابھی ابھی استاد محترم جناب عدنان خان کاکڑ صاحب کا ایک کالم پڑھا ہے، ڈھائی ہزار کی سرمایہ کاری سے لاکھوں کمائیں۔ (سر ہمارے غیر رسمی استاد ہیں، جتنی اصلاح وہ ہماری اردو کی کرتے ہیں اگر کسی رسمی استاد نے کی ہوتی تو ہماری اردو اتنی خراب نہ ہوتی)۔ اس کالم کو پڑھ کے ہمیں ایک کہانی یاد آگئی ہے، وہی “شیخ چلی” والی۔ گو کہ آجکل ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری یادداشت کمزور ہو رہی ہےلیکن یہ کہانی بھی کوئی بھول سکتا ہے بھلا؟
آپ کو بھی مختصر کر کے سنائے دیتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شیخ چلی کو انڈوں کی ایک ٹوکری ملی۔ وہ بہت خوش ہوا اور انڈوں کی ٹوکری سر پہ رکھ کے چل پڑا۔ (خدا معلوم انڈے دیسی تھے یا انگریزی، کہانی میں اس کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی تھی)۔ وہ بے حد خوش تھا اور اسی خوشی میں اس نے بہت سارے خواب بن لئے۔ اس نے سوچا میں ان انڈوں پہ مرغی پہ بٹھاؤں گا۔ بائیس دن بعد اس میں سے چوزے نکلیں گے۔ وہ بڑے ہوں گے۔ میرے پاس بہت ساری مرغیاں ہو جائیں گی۔ وہ بہت سارے انڈےدیں گی۔ ان کو پھر انڈوں پہ بٹھا دوں گا۔ پھر میرے پاس بہت ساری مرغیاں ہو جائیں گی۔ یوں میں ایک پولٹری فارم بنا لوں گا۔ کچھ مرغے بھی ہوں گے۔ ایک آدھ مرغا رکھ کے باقی مرغے بیچ دوں گا۔ تاکہ مرغیاں انڈے دیتی رہیں اور میں بہت امیر ہو جاؤں۔ اگر کوئی مجھ سے ادھار مانگے گا تو بالکل نہیں دوں گا۔ جوش سے اس نے انکار میں سر ہلایا اور انڈے نیچے گر کے ٹوٹ گئے۔ اس کے ساتھ اس کے سارے خواب بھی چکنا چور ہو گئے۔
ہمارے نانا ہم سے اس کہانی کے بعد ایک سوال پوچھا کرتے تھے کہ شیخ چلی کے سر سے ٹوکری کیسے گری؟ہم بھی شیخ چلی جتنا دماغ رکھتے تھے اس لئے سوچے بناء جواب دیتے تھے۔ کیونکہ اس نے سر ہلایا تھا۔ نانا فوری طور پہ جواب رد کر دیتےاور بتاتے کہ ٹوکری اس لئے گری کیونکہ شیخ چلی نے “جاگتے” ہوئے خواب دیکھا۔ اگر سر پہ انڈوں کی ٹوکری رکھی ہو تو احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ اور تب جاگتے ہوئےخواب نہیں دیکھا کرتے۔ اور انکار میں سر ہلانے کا تو سوچتے بھی نہیں۔
ہمارے وزیر اعظم صاحب آجکل بغیر” پرچی” کے تقریر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے پڑھے بغیر کرتے ہیں سوچتے تو ضرور ہوں گے۔ معلوم نہیں انہوں نے کتنی معاشیات پڑھ رکھی ہے۔ ہم چونکہ کالج کے “ریکارڈ توڑ” معاشیات کے سٹوڈنٹ رہ چکے ہیں تو تھوڑی بہت “سمجھ” ہم بھی رکھتے ہیں۔ ان کی “دیسی مرغیوں” والی تقریر تو آپ سب نے سنی ہو گی۔ جس میں وہ انڈے اور مرغی سے حاصل ہونے والی آمدنی کے اعدادوشمار بتاتےہیں۔ یعنی اب ہم “بھینسوں اور کٹوں” سے نکل کے “مرغیوں” پہ آ گئے ہیں۔ مگر وہ شاید یہ بھول رہے ہیں کہ مرغیاں “کھاتی” بھی ہیں اور اس کھانے پہ لاگت بھی آتی ہے۔ اس کڑاکے کی سردی میں ویسے بھی کوئی “سیانا دیہاتی” مرغیاں نہیں خریدتا۔ اس موسم میں مرغیاں “پلتی” کم اور “مرتی” زیادہ ہیں۔ یقین نہیں آتا تو ہمارے “لخت جگر” سے پوچھ لیں۔ اس نے اپنے دونوں” دیسی مرغے” حلال کرا کے ہم سے سوپ، یخنی اور قورمہ بنوا لیا ہے۔
جب سے نئی حکومت آئی ہے اپنے وزیر اعظم صاحب کی تقریریں سن کر ہمیں تو بچپن کی کہانیاں بہت یاد آنے لگی ہیں۔ نانا کی سنائی کہانیوں کے ساتھ جڑی کہاوتیں بھی۔ وہ بالکل ٹھیک کہا کرتے تھےاگر سر پہ “انڈوں” کی ٹوکری رکھی ہو تو احتیاط کیا کرتے ہیں۔ جاگتے ہوئے خواب نہیں دیکھا کرتے۔ ورنہ انڈے اور خواب دونوں کے ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
کچھ لوگ بولنے سے پہلے سوچتے ہیں اور کچھ بولنے کے بعد، اور کچھ لوگ تو بولنے کے بعد بھی نہیں سوچتے۔ اپنی نئی حکومت کا تو پتا نہیں، ہمارے بارے میں آخرالذکر بہت مشہور ہے۔ سنا ہے پرانے زمانے میں شہنشاہ اور شہزادے اپنے خلاف لکھنے والوں کا “دایاں” ہاتھ کٹوا دیا کرتے تھے۔ اب جب سے ہم نے لکھنا شروع کیا ہے ہمیں اکثر دائیں ہاتھ کی فکر رہتی ہے۔ ہمارے لئے دعا کیجئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).