شاد عارفی کا ایک مصرع اور عمران حکومت


ارادہ تو یہی تھا کہ شاد عارفی کا مصرع ابتدا ہی میں لکھ دیا جائے۔ خدشہ مگر یہ ہے کہ فیاض الحسن چوہان، فواد چوہدری اور فیصل واڈا جیسے فاضل وزرا شاد عارفی کی سطر میں الجھ کر جائیں گے۔ اتنی دھول اڑے گی کہ گرد کی موٹی تہہ میں دب کر اصل بات کھاد بن جائے گی۔ آج صبح خبر آئی ہے کہ کنونشن سینٹر میں عمران خان کی دیسی مرغیوں، انڈوں اور دیگر مال مویشی کے ذکر سے مرصع تقریر سن کر ڈالر خبیث ایسا بھونچکا ہوا کہ ایک ہی رات میں چھلانگ لگا کر 144 روپے کی ٹہنی پر جا بیٹھا۔

مئی 1998 میں ہم نے ایٹمی دھماکے کیے تو ڈالر کی قیمت پچاس روپے سے کچھ کم تھی۔ ہمارے جرات ایمانی سے بوکھلا کر ڈالر دیکھتے ہی دیکھتے 67 روپے کی خبر لایا۔ دنیا بھی عجیب کینہ پرور قبیلہ ہے۔ ہم دفاعی طور پہ ناقابل تسخیر ہوئے تو ڈالر نے منہ پھلا لیا۔ انڈوں کا کاروبار کرنا چاہا تو ڈالر کے مزاج پھر سے بگڑ گئے۔ محترم انصار عباسی نے پوری تحقیق کر کے ہمیں مطلع کیا ہے کہ خبر کی کھیتی پامال کرنے کا اصل ذمہ دار سہیل وڑائچ ہے۔ خدا لگتی بات ہے کہ ربع صدی میں انصار عباسی کے قلم سے دل کو چھونے والی یہ پہلی تحریر نظر سے گزری۔ ما را از ایں گیاہ ضعیف ایں گماں نبود۔ اب کسی کو ٹویٹ، ٹیلیفون اور فواد چوہدری سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ رات کے اندھیرے میں ڈھاٹا باندھے گلیوں میں نکلنے والا خوفناک بھوت تو اپنا ہی ’برادران یوسف‘ نکلا۔ ذمہ دار کوئی بھی ہو، عقلمندی اسی میں ہے کہ چار گلیاں چھوڑ کر دور دیس کی حکایت لکھی جائے۔ بھلے دن آئیں گے تو اپنی زمین کا شہر آشوب بھی لکھ لیں گے۔

چین میں انقلاب آ گیا تھا۔ چئیرمین ماؤ نے بھی پیکنگ کے شہر ممنوع تک پہنچنے کے لیے ادھر ادھر سے بھان متی کا کنبہ جوڑا تھا۔ اب شاید ہی کسی کو یاد ہو کہ اکتوبر 1949 میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے بہت سی جماعتوں اور گروہوں سے اتحاد کر کے حکومت بنائی تھی۔ چند برس گزرے تو ماؤزے تنگ کی عظمت نے سر اٹھایا۔ احساس ہوا کہ 65 کروڑ چینیوں کو بلاشرکت غیرے چئیرمین ماؤ کی فکر سے مستفید ہونے کا موقع ملنا چاہیے۔ فروری 1956 میں چیئر مین ماؤ نے نعرہ دیا کہ سو طرح کے پھولوں کو کھلنے دو۔

ہر مکتب فکر کو کھل کر اپنی رائے دینی چاہیے۔ کمیونسٹ پارٹی کی کارکردگی پر بے روک ٹوک تنقید کی جائے۔ چئیرمین ماؤ کے نقارچیوں نے آسمان سر پہ اٹھا لیا، واہ واہ کے ڈونگرے برسائے گئے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے صدر محترم عارف علوی نے قوم کو مطلع کیا ہے کہ وہ خود کئی بار یوٹرن لے چکے ہیں۔ مفرح قلب ہے۔ خوش ذائقہ ہے۔ نفخ اس سے دور ہوتا ہے۔ مفتی عبدالقوی نے یوٹرن کا شرعی جواز بیان کیا ہے، اسد عمر نے اپنی تقریر دلپذیر میں یوٹرن کو قومی مفاد سے تعبیر کیا ہے۔

چین میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ پیکنگ یونیورسٹی میں دیواری اخبار شروع ہوئے۔ دانشوروں نے طول و طویل مقالے لکھے جن میں حکومت کے عمائدین اور اہلکاروں پر کڑی تنقید کی گئی۔ فیکٹریوں کے مزدور چوراہوں میں جمع ہو کر انقلابی حکومت کے بخیے ادھیڑنے لگے۔ کوئی سال بھر یہ معاملہ چلتا رہا۔ 1957 کے وسط میں چئیرمین ماؤ نے سو رنگ کے پھولوں کی فصل کاٹنے کا ارادہ کر لیا۔ حکومت کے مخالفین اپنی تنقید کی وجہ سے گویا اعتراف جرم کر چکے تھے۔

جولائی 1957 سے تطہیر کا عمل شروع ہوا۔ حکومت کے مخالفین اورناقدین کو ایک ایک کر کے انجام تک پہنچایا گیا۔ اقتدار پر چئیرمین ماؤ کی گرفت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئی۔ اس کے بعد 1958 کا خوفناک قحط پیدا ہوا جس میں کروڑوں انسان مارے گئے۔ کسی کو نشاندہی کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس تطہیری عمل کا نقطہ عروج 1966 کا ثقافتی انقلاب تھا۔ چین سے ہماری دوستی ہمالہ سے بلند ہے۔ سمندر سے گہری ہے اور شہد سے میٹھی ہے۔ چین کا ذکر یہاں یہ واضح کرنے کے لئے آیا کہ یوٹرن واقعتاً عظیم قیادت کی نشانی ہے۔

پاکستان میں کرپشن سے پاک نئی حکومت کے سو دن مکمل ہونے پر کنونشن سنٹر میں ایک تاریخی اجتماع منعقد ہوا۔ مقررین کا جوش و خروش دیکھ کر بھٹو دور کی یاد تازہ ہو گئی۔ دو پہلو البتہ ایسے تھے جہاں کچھ کمی محسوس ہوئی۔ چئیرمین بھٹونے اپنے وزیروں کو دھاری دار کالر والی وردی پہنا دی تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ابھی تک وزرائے کرام کو ایسے لباس فاخرہ سے محروم رکھا ہے۔

دوسرا یہ کہ بھٹو صاحب کے نورتنوں میں مولوی محمد حیات خان عرف کوثر نیازی شامل تھے۔ عمران خان اس نعمت سے محروم ہیں۔ یوں تو ممتاز عالم دین ڈاکٹر عامر لیاقت حسین بھی موجود ہیں، مفتی عبدالقوی بھی ہجوم عاشقاں کا حصہ ہیں، آنکھیں بند کر کے توسن طبع کو بے طرح ایڑ لگانا ہو تو فیاض الحسن چوہان موجود ہیں مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ مولانا کوثر نیازی جیسے رجل رشید تو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی سو دن کی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے داخلہ، خارجہ اور معاشی میدان میں اپنی بے مثال کارکردگی کا دعوی کیا۔ مشکل یہ ہے کہ ان تینوں شعبوں میں ایک بھی قابل تصدیق کامیابی کی نشاندہی نہیں کر سکے۔ اپنی ہی قائم کردہ توقعات کا نشان نیچے لا کر یہ دعوی کیا گیا کہ ترقی کی سمت طے کر لی گئی ہے۔ سمت کے حوالے سے یوٹرن کا ذکر کثرت استعمال سے پامال ہو چکا۔ یہ کہنا البتہ مناسب ہو گا کہ حکومت نے جس سمت کا تعین کیا ہے اسے سادہ لفظوں میں بے سمتی کہنا چاہیے۔

وزیر اعظم نے تو کسی ناکامی کا اعتراف نہیں کیا، درویش بے نشاں البتہ بتانا چاہے گا کہ گذشتہ تین ماہ میں حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ جس دستور کی بنیاد پر منتخب ہوئی ہے اس دستور کی توقیر اور بالا دستی کا کہیں ذکر نہیں۔ جس پارلیمینٹ نے انہیں وزیر اعظم منتخب کیا، وہ پارلیمینٹ ہی عضو معطل ہو گئی ہے۔ تین ماہ میں ایک فنانس بل کے سوا کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی۔ پارلیمینٹ میں سٹینڈنگ کمیٹیاں تک قائم نہیں ہو سکیں۔

لکھ رکھیے کہ احتساب کا عمل پاکستان میں پہلی بار نہیں ہو رہا۔ یہ وہ سقیم و عقیم دیسی مرغی ہے جو ہمیشہ تفرقے، بحران اور بدحالی کے انڈے دیتی ہے۔ احتساب کا نعرہ ہماری تاریخ میں سیاسی عمل کی ساکھ ختم کرنے کا ہتھیار رہا ہے۔ اس سے کوئی معاشی بہتری پیدا نہیں ہو گی، الٹا سیاسی منظر پر غیر ضروری تلخی اور نقصان دہ قطبیت جنم لے گی۔ پچھلے سو دن میں وزیر اعظم اور ان کے رفقا نے اداروں کے ایک پیج پہ ہونے کا بار بار ذکر کیا ہے، بدقسمتی سے جس صفحے پہ ادارے یکجا ہوئے ہیں وہاں پارلیمینٹ نامی ادارے کا کوئی ذکر نہیں۔ تو لیجیے اب شاد عارفی کا مصرع سن لیجیے اور اگر مفہوم جاننے میں کوئی دقت ہو تو مفتی عبدالقوی سے رجوع فرمائیے۔

سالی اور سلہج پہ لٹو، بیوی سے حمام نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).