ان پڑھ ماں باپ کا ان پڑھ بیٹا


ذرا ذرا سا یاد ہے جب میں اپنے آبائی گاؤں چیرمنگ کے ایک پرائمری سکول میں ادنٰی جماعت کا سٹوڈنٹ تھا۔ ایک آنٹی ہمیں پڑھاتی تھیں، شفقت بھی فرماتیں اور حوصلہ افزائی بھی ، والدہ ماجدہ بھی (اللہ تعالی اُن کاسایہ صحت و عافیت کے ساتھ تا دیر ہمارے سروں پر قائم رکھے) چونکہ والد صاحب (اللہ تعالی اُن کو غریقِ رحمت کرے) کی طرح ان پڑھ ہیں اس لئے جیسے ہی ادنٰی پاس کرکے پہلی جماعت میں چلا گیا دونوں نے علم و دانش کی درسگاہ سے نکال کر جہالت کی ایک چھوٹی سی فیکٹری میں ڈال دیا ، چلتے گرتے لڑکھتے سنبھلتے اللہ اللہ کرکے دس گیارہ سال کی عمر میں حفظِ قرآن مکمل کیا ، والد مرحوم کی یہ تمنا پوری ہوتے ہی دنیا سے رخصت ہوئے۔ پھر دور کر کے منزل پکی کی ، تجوید پڑھی ، جہالت کے چھوٹے موٹے مختلف کالجزز میں وفاق المدارس کے تحت رائج درسِ نظامی پڑھتے پڑھتے جہالت کی کافی بڑی یونیورسٹی جامعہ دار العلوم کراچی سے (2005 ) میں دورہ حدیث کی تکمیل کرکے سند فراغت حاصل کی ، جہالت کی پیاس بجھاتے بجھاتے کراچی ہی میں ایک سالہ تخصص(افتاء کورس ) بھی کیا۔ 1994 سے لیکر اب تک ہرسال رمضان میں قرآن سناتا آ رہا ہوں ، دو اور تین بار بھی سنایا ، چار بار فرض نماز (فجر ، عشاء) میں بھی سنایا۔ 2008 سے اب تک امامت و خطابت کے فرائض اللہ جل شانہ کی توفیق سے انجام دے رہا ہوں
پرویزی ستم سے محفوظ ہوں اس لئے لاوڈ سپیکر پانچ وقت کے لئے میسر ہے ، مؤذن اذان بھی اُسی میں دیتا ہے ، میں نماز بھی اُسی میں پڑھاتا ہوں
لوگوں تک خطبہ جمعہ و عیدین کا ابلاغ بھی بذریعہ لاؤڈ سپیکر ہے ۔
پشتو میری مادری زبان ہے ، عربی ، اردو سے گہری محبت ہے ۔ فارسی سے معمولی واقفیت اور انگریزی سے بہت دور کاتعلق ۔ داڑھی بھی رکھی ہے ، مونچھیں بھی بد معاشوں والی نہیں ، ٹوپی بھی سر پر ، لباس بھی قدامت پرستوں والا ، گو کبھی روشن خیالوں والا بھی پہن لیتا ہوں ایکسرسائز یا بچوں کے ساتھ تفریح کے وقت۔
مسواک کو محبوبِ خدا کی محبوب سنت مانتاہوں اور ٹوتھ پیسٹ اینڈ برش کے جواز کا بھی قائل ہوں ،
موت کا منظر بھی آنکھوں کے سامنے ہے ، قبر کی وحشت کا بھی خوف ہے ، منکر ، نکیر کے جوابات سے بھی لرزاں ہوں ، مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کا بھی پختہ اعتقاد ہے ، حساب کتاب پر بھی ایمان ہے ، وہاں ہر مظلوم کو ملنے والے انصاف کا بھی یقین ہے ، (ہَل مِن مَّزید ہَل مِن مَّزید) کی صدائیں بلند کرنے والے جہنم کی ہولناکی کا بھی ڈر ہے ۔ جہنم سے پناہ بھی مانگتا ہوں اور جنت میں اعلی درجات کے حصول کےلئے دست بدعاء بھی رہتا ہوں ۔ جہنم پر بنائے گئے تلوار جیسی تیز دھار والے ، بال سے زیادہ باریک پلِ صراط پر آنکھ جھپکنے کے بقدر تیزی سےگزر جانے کا شوقین بھی ہوں ظاہر باطن سے اور باطن ظاہر سے نظر آنے والے جنت کے بالا خانوں کے لئے پُر اُمید بھی ، محبوبِ خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا اُمید وار بھی ہوں ، آپ کے محبوب حوض (کوثر) سے پانی پینے کاخواہش مند بھی ہوں اور دیدار الہی کےلئے بے تاب بھی
جنت کی دودھ والی نہر (جس کا مزہ بدلتا نہیں) سے خوب سیراب بھی ہونا چاہتاہوں اور شراب کی نہر (جس میں پینے والوں کے لئے لذت ہے) سے محظوظ بھی ہونا چاہتا ہوں ، موٹی ،سیاہ ترین آنکھوں والی، جھکی نظروں والی ، بڑے بڑے بالوں والی شرمیلی اور با حیا حوروں کی آس بھی لگائے بیٹھا ہوں ، اور اپنی موجودہ جورو کی رفاقت کو وہاں چھوڑنا بھی نہیں چاہتا (کیوں کہ وہاں دلوں سے نفرت ، کینہ ، حسد جیسے امراض نکال دیئے جائیں گے اس لئے خوشگوار اجتماع ممکن ہوگا اور سب کا مِل کر بیک وقت حملہ آور ہونے کاخطرہ بھی نہیں ہوگا لیکن یہ بات فی الوقت دنیوی صنفِ نازک کی کھوپڑیوں میں بیٹھنے والی نہیں)
ایسے نظریات رکھنے والے شخص کو پرویزی سوچ کاحامل شخص جاہل ، ان پڑھ ، قدامت پسند اور بنیاد پرست تو کِہ سکتا ہے لیکن پڑھا لکھا نہیں ، پرویز رشید بے باک تھے اس لئے کھل کر بات کی ورنہ آج کل کے معاشرے میں پرویزی سوچ و فکر کے حاملین کی کوئی کمی نہیں ، اس لئے میں ان پڑھ تھا ، ان پڑھ ہوں اور ان پڑھ رہوں گا ، آیندہ تحریر بھی (ان پڑھ کالم) کے نام سے ہی لکھوں گا ۔۔۔ ان شاء اللہ،،، اپنی اِس ان پڑھ حالت پر افسوس ہوا اور نہ کبھی احساس کمتری کا شکار ہوا۔ احساس کمتری کاشکار ضرور ہوتا اگر یہ علم وثقافت کی درسگاہیں کچھ اچھے نتائج دیتیں۔
لیکن وہاں تو تعلیم سے زیادہ ہاؤ ہو، ہلا گلا، پکنک پارٹیاں، مخلوط رقص ، بے حیائی، کم لباسی، پرفارمنگ آرٹس، کے نام پر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ناچ گانے کاراج ہے ، اردو زبان پر عبور اور نہ ہی فارسی سے کچھ شناسائی ، انگریزی میں بات کرنے پر قدرت اور نہ ہی عربی سے کوئی دلچسپی ، دوقومی نظریہ دو لخت، کردار سازی ناپید اور صبر وتحمل ، احترام ، ایثار ، محبت ، محنت لگن ، یکسوئی سب عنقا نہیں تو کمیاب ضرور ہے ۔ سورہ فاتحہ ، سورہ اخلاص ، کلمہ طیبہ ، کلمہ شہادت ، خاتم النبیین اور روزِ قیامت وغیرہ ایجوکیٹڈ لوگوں کی زبان پر نہ چڑھنے کا شکوہ تو بے معنی ہے کہ یہ سب کچھ اُنہی جہالت کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتاہے جہاں میں پڑھا ہوں ، لیکن اپنی قومی زبان اردو میں اتنی سی مہارت تو حاصل کر لینی چاہیے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد دشمن پر تنقید کرنے کے لئے ڈھنگ سے ٹویٹ تو کرسکے ، تاریخ میں اتنا نالائق بچہ بھی تو نہیں بننا چاہیے کہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی کی شخصیت بھی نظروں سے اوجھل ہوجائے ۔
میں اِن علم و ثقافت کے اداروں میں نہ پڑھنے پر ضرور پچھتاتا اگر بعض تعلیم یافتہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کے بنیادی عقائد اور بہت سے احکام کے بارے میں شکوک و شبہات نے جنم نہ لیا ہوتا ، بے اطمینانی و بے اعتمادی کا شکار نہ ہو تے،
میں کفِ افسوس ضرور ملتا اگر اِن روشن خیالی کی درسگاہوں میں عفت و عصمت ، پاکیزگی وپاک دامنی کی کوئی فضیلت و اہمیت دلوں میں باقی رہتی ، عفت وعصمت کی قدروں کو پامال نہ کیا جاتا ، شرم و حیاء اور عصمت کی بات کرنے والوں کو دقیانوس ، زمانے کے حال احوال سے بے بہرہ اور تاریک خیال نہ ٹھہرایا جاتا۔ اخلاق و شرافت ، تہذیب و انسانیت کی جگہ حیوانیت و درندگی اور شیطانیت نے نہ لی ہوتی ، انسانیت و اخلاق کی توہین نہ کی جاتی اور اپنے ہی استاد و مربی کو نہ پیٹا جاتا
میں اِن دانش گاہوں میں نہ پڑھنے پر رنجیدہ خاطر ضرور ہوتا اگر تعلیم کا مقصد ، محض تن پروری ، تن آسانی، اور عیش پرستی نہ ہوتا ، وہاں کاپڑھا لکھا حرص و ہوس کا غلام نہ ہوتا ، مال و دولت کے جمع کرنے میں اندھا، بہرا ہوکر نہ لگ جاتا ، یا اگر حلال و حرام کی تمیز سے اس کو کوئی دلچسپی ہوتی ، اور انسانیت کا ہمدرد و غمخوار ہوتا ، وہاں کے پڑھے ہوئے ڈاکٹر کو مال و زرسے زیادہ بیمار کی شفایابی عزیز ہوتی۔ میں جہالت کی یونیورسٹیوں اور اُن میں پڑھنے والے طلباء کی حمایت اور حوصلہ افزائی ہرگز نہ کرتا اگر میں اپنے ہی علاقے میں روشن خیالی کے اداروں میں پڑھنے والے سٹوڈنٹس کو نقل مارتے ہوئے نہ دیکھتا ۔
میں عصری علوم و فنون کا ہرگز ہرگز مخالف نہیں، مخالف ہوتا تو اپنا بیٹا افنان سکول میں نہ ڈالتا۔

اسلام میں اگر علم کی کوئی تقسیم ہے تو مفید اور غیر مفید کی ہے نہ کہ دنیوی اور دینی تعلیم کی، تعلیم چاہے دینی ہو یا دنیوی مفید ہونی چاہیے نہ کہ ضرر رساں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے علم سے اللہ تعالی کی پناہ مانگی ہے جو انسان کو فائدے کے بجائے نقصان دے اور اللہ تعالی کے قریب کرنے کے بجائے مزید دور کردے ۔
اپنے بچوں کو تعلیم ضرور دلوائیں لیکن مذکورہ خرابیوں کو مدِّ نظر رکھ کر ، آپ کی تربیت اُن کو کسی نہ کسی درجے میں اِن خرابیوں سے بچا سکتی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا بچہ تعلیم یافتہ بننےکے ساتھ ساتھ خدا کے دین کا باغی بن کر آجائے ۔

میں نے کڑوے سچ کو اُگل دیا ، آپ سے نگلا نہیں جاتا تو اقبال کے ایک دو شعر بطور دوا پڑھ لیجیئے ، نگلنے میں آسانی ہوگی

* خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیشئہ فرہاد بھی ساتھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).