سونے کا سکہ اور حقیقی خوشی


آپ اگر زندگی کے نشیب و فراز میں حوصلہ ہار چکے ہیں، آپ اگر خود کو صبح شام کوستے رہتے ہیں اور آپ اگر بیٹھے بٹھائے زندگی کے بارے میں ایک عجیب و غریب فلسفے پر کچھ اس انداز سے بولنا اور سوچنا شروع کردیتے ہیں کہ جس سے لمحے بھر کی مایوسی زندگی بھر کے لئے ایک روگ بن جاتی ہے۔ آپ اگر دوسروں سے توقعات وابستہ کرکے اپنی حقیقی زندگی کی حقیقی خوشی بھول جاتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ نے جینا چھوڑ دیا ہے اور آپ کو یقیناً علاج کے ساتھ ساتھ میرے ایک دوست کی کہانی سننے کی اشد ضرورت ہے۔ میرا یہ دوست ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرچکا ہے اور آج کل سرکاری ٹھیکوں میں مصروف فکر معاش سے آزادی حاصل کرنے کے درپے ہے۔

موصوف نے زندگی کا ایک پورا حصہ یاد ماضی کے زیر عتاب گزارا۔ میں جب بھی ان سے ملا ان کو پریشانی کے بحر عمیق ہی میں پایا۔ یہ کبھی بھی کھل کر نہیں مسکرایا اس نے ہمیشہ ان تمام چیزوں میں کنجوسی کی جو زندگی میں رونق، حقیقی خوشی، سکون اور ہریالی کا سبب بنتی ہیں۔ جب بھی کسی جگہ پر دل کھول کر خوشی حاصل کرنے کا موقع ہوتا موصوف زندگی کے کسی پرانے بُرے تجربے یا واقعہ کو بیچ میں لے آتے اور وہ خوشی ماتم میں بدل جاتی۔ اس نے کبھی بھی کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ ہمیشہ بُخل اور تنگ نظری سے کام لیا۔ دوسروں کو خوش دیکھ کر اس کی رنگت بدل جاتی اور وہ غصّے سے آگ بگولہ ہوجاتے۔

اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش کے مصداق وہ ہمیشہ یہی سوچتا رہا کہ میں دھرتی کے سینے پر وہ بوجھ ہوں جو اگر بیچ میں سے ہٹ جائے تو شاید نظام کائنات میں ایک بہترین تسلسل آجائے۔ احساس کمتری، مایوسی، کٹھورپن اور بُرے خیالات کے اس مجموعے کو میں نے کبھی بھی ایسا کہتے ہوئے نہیں سنا کہ میں خوش ہوں یا خوشی بھی دنیا کی کوئی انمول شے ہے۔

پچھلے دنوں میں پورے دس سال بعد اُن سے ملا اور یہ دیکھ کر مجھے انتہائی حیرت ہوئی کہ جس انسان کو بدلنے کی خاطر ہمارے فطین اساتذہ اور ملنسار دوستوں نے ایک پورا عرصہ لگایا اور وہ ٹس سے مس نہ ہوا آج بالکل ایک بدلا ہوا میچور انسان تھا۔ میری حیرانی کی انتہا اور بھرپور استفساردیکھ کر اس نے ایک کہانی سنائی جس نے بمطابق اُس کے اُس میں اتنا بڑا تغیّر پیدا کرکے اس کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ وہ بولنے لگا۔

ایک دفعہ ایک نہایت ہی پریشان شخص گم سم اور بے زار بیٹھا زمین پر رینگتی چیونیٹیاں گن رہا تھا جس سے پاس گزرتے ہر شخص کو یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگتی کہ وہ حد سے زیادہ پریشان ہے۔ اُس نے زندگی سے فرار کی خاطر ایک دو دفعہ خود کشی کی کوشش بھی کی تھی لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اس نے ایک دفعہ ایک بزرگ شخص سے اپنی پریشانی کا تذکرہ کیا۔ اس بزرگ نے اس کو شہر کے جنوب میں ایک جنگل میں جانے کا کہا جہاں ایک پیر ہر وقت لوگوں کو پریشانیوں سے آسان نجات کا طریقہ بتاتا۔

پریشان شخص نے جیسے ہی بزرگ کی بات سنی سیدھا شہر سے باہر جنوب کی طرف چلنے لگا اور گھنٹوں کے سفر کے بعد جنگل کی ویرانیوں میں پہنچ گیا۔ وہاں کافی تلاش کے بعد اس کی ملاقات پیر صاحب سے ہوگئی۔ وہ جیسے ہی پیر صاحب کے سامنے بیٹھا حالات کا پول کھول دیا۔

پیر صاحب نے پہلی ہی فرصت میں اس سے ایک سوال پوچھا۔
”پریشان تو تم ویسے بھی ہو لیکن یہ بتاؤ تمہاری زندگی میں وہ کون سی چیز ہے جسے دیکھ کر تم زندگی کا ہر غم بھول جاتے ہو اور جس کی موجودگی سکون کا باعث بنتی ہو۔

اُس نے سوال سنتے ہی اپنی پگڑی اتاری، اس سے سونے کا ایک سکّہ نکالا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد گویا ہوا۔

” یہ سونے کا سکّہ میری زندگی کی پوری جمع پونجی ہے۔ میں نے اپنی پوری دولت اس سکّے میں تبدیل کی ہے اور میں اس بات پر کافی مطمئن ہوں کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں اپنی یہ کل کائنات اپنے ساتھ لے کر جاتا ہوں۔“

پیر صاحب کی نظر جیسے ہی سکّے پر پڑی اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔ اس نے سکّہ ہاتھ میں اٹھایا، ہاتھ پاؤں سیدھے کیے اور جھٹکے سے اٹھ کر پوری رفتار کے ساتھ جنگل میں بھاگنے لگا۔ اُس آدمی نے جیسے ہی پیر کی یہ حرکت دیکھی وہ بھی اس کے پیچھے اسی رفتار سے بھاگنے لگا۔ جنگل میں ایک عجیب طرفہ تماشا تھا پیر آگے اور پریشان حال شخص پیچھے۔

پیر صاحب کو جنگل کے چپّے چپّے کا پتہ تھا اسی لئے اس کو پکڑنا اور اس کے قریب پہنچنا مشکل تھا۔ بھاگتے بھاگتے پیر صاحب ایک اونچے درخت پر چڑھ گئے۔ پریشان آدمی اپنی ساری پریشانیاں بھول چکا تھا اور دوڑتے دوڑتے قسمیں بھی کھائی تھیں کہ آج کے بعد میں کبھی بھی پریشان نہیں رہوں گا بس اللہ کریں کہ مجھے میرا یہ سکّہ مل جائے۔

دوڑتے دوڑتے وہ بھی اس درخت کے پاس پہنچ کر زارزار رونے لگا اور پیر صاحب کی منتیں کرنے لگا کہ خدا کے لئے مجھے میرا سکّہ واپس دیجیے۔ پیر صاحب نے صاف انکار کیا کہ میں یہ سکّہ آپ کو نہیں دوں گا۔ پریشان آدمی نے لاکھ منت سماجت کی اور پیر صاحب کو چھبے کانٹوں کی وجہ سے اپنے خون آلود پیروں کا واسطہ دیا کہ خدا کے لئے میری جمع پونجی مجھے لوٹا دیجیے۔ کافی منتوں کے بعد پیر صاحب نیچے اترے اور اُس کو اُس کا سکّہ واپس کرکے ایک بہت ہی زبردست بات کہہ دی۔

” لو اپنی جمع پونجی اور یاد رکھنا تمہاری اصل خوشی یہ سکّہ ہے جس کی خاطر تم نے بھاگتے بھاگتے جنگل کے کانٹوں کی بھی پرواہ نہیں کی۔ تم نے اتنی بڑی خوشی معمولی چیزوں کے حصول کی خاطر ٹھکرا دی تھی جس کی وجہ سے تمہاری زندگی سے سکون ختم ہوچکا تھا۔ یہی ہم انسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ جو نعمتیں اور خوب صورت چیزیں ہمارے پاس ہوتی ہیں ان کا ہم بالکل خیال نہیں کرتے لیکن جو نہیں ہوتا ان کے پیچھے پاگل ہوجاتے ہیں۔ میں تمہیں صرف بس یہی ایک سبق سکھانا چاہتا تھا اسی لئے تم کو اتنا دوڑایا۔ میرے لئے یہ جنگل اور میری تنہائی ہی میری کل کائنات ہے لو اپنا سکّہ اور جاؤ اس کو اپنی طاقت بناکر اپنی زندگی خوشگوار بناؤ“

یہ کہانی سنانے کے بعد میرا دوست کہنے لگا ”میں جب بھی اس کہانی کو یاد کرتا ہوں تو میں سوچتا ہوں کیا ہے میرے پاس جس کی وجہ سے میں خوش رہ سکتا ہوں۔ میرے پاس صرف ایک سکّہ نہیں بلکہ سینکڑوں ایسے سکّے ہیں جن کی موجودگی میری زندگی میں بہت اہم ہے لیکن میں نے کبھی بھی ان بیش قیمت سکّوں پر توجہ ہی نہیں دی بس ہمیشہ ایک سراب کے پیچھے بھاگتا رہا۔ اب میں نے حقیقی خوشی کا راز پالیا ہے میں اللہ کی ہر اُس نعمت کا شکر ادا کرتا ہوں جو میرے پاس ہے۔“

”میں جب تک پریشان، مایوس اور احساس کمتری میں گرا رہا مجھے کبھی بھی اللہ کی ان نعمتوں کا احساس نہیں ہوا۔ ہم پریشان اس لئے ہوتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کے حصول پر سوچتے ہیں جو ہمارے پاس نہیں ہوتیں اور ہم ایسا نہیں سوچتے کہ جو ہمارے پاس نہیں ہیں ان کے نہ ہونے میں ہماری بہتری اور خیر ہے بلکہ ہم خود کو ان چیزوں کے حصول میں داؤ پر لگاتے ہیں۔ جب سے میں نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پرسوچنا شروع کیا ہے میں خود سے ملا ہوں اور زندگی میں ہمیشہ کامیاب رہا ہوں۔ میں اب ایسا کبھی نہیں سوچتا کہ میرے پاس کسی چیز کی کمی ہے۔ میرے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں، عزت ہے، والدین ہیں، بیوی بچے ہیں، رشتہ دار ہیں اور سب سے بڑی بات پریشانیوں سے بھری اس دنیا میں میرے پاس سکون ہے، “

میرا دوست یہ سب کچھ کہہ کر زیر لب مسکرایا اور کہنے لگا ”جو تمہارے پاس ہے وہ کسی کے پاس نہیں بس اس کو اپنی طاقت اور سکون کا ذریعہ بناؤ پھر دیکھنا تمہاری زندگی کیسی بدلتی ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).