آرام طلب لوگوں کے لیے ایک کالم


آج صبح ساڑھے سات بجے میری آنکھ کھلی تو حسب عادت میں نے سوچا کہ ابھی کچھ دیر مزید سو لیا جائے۔ دوسری مرتبہ ساڑھے آٹھ بجے گھڑی پر نظر پڑی، دماغ نے مشورہ دیا کہ اب اٹھ جانا چاہیے، ویسے بھی تمام موٹیویشنل سپیکر صبح سویرے اٹھ کر ورزش کا مشورہ دیتے ہیں، مگر دل نے کہا کہ جو مزا نیند کے اِس اضافی آدھ گھنٹے میں آئے گا وہ کسی اور کام میں نہیں آسکتا، ورزش میں تو بالکل نہیں۔ ظاہر ہے کہ میں نے دل کی بات مان لی۔ تیسری مرتبہ موبائل فون کا الارم بجا تو اُس وقت ساڑھے نو ہو چکے تھے۔ اِس مرتبہ میں نے دل کو ڈانٹ ڈپٹ کر سلا دیا اور بستر سےتقریباً چھلانگ مار کر اٹھ گیا۔ منہ ہاتھ دھو کر اخبارات نکالے، سب کی سُرخیاں کم و بیش ایک جیسی تھیں، خبریں بھی وہی تھیں جو شام کو ٹی وی پر نشر ہو چکی تھیں، بیزار ہو کر اخبارات پرے رکھ دیے اور موبائل فون اٹھا لیا۔ سوشل میڈیا کے کھاتے دیکھے، دوستوں کومزاحیہ پیغامات فارورڈ کیے، غیر ضروری چیزیں ڈیلیٹ کیں، اِس ’ذہنی مشقت‘ میں مزید ایک گھنٹہ نکل گیا۔ اب ساڑھے دس بجے چکے تھے۔ رمضان میں کالم بھیجنے کا وقت بارہ بجے تک ہے، میں آدھ گھنٹے کی رعایت لے کر ساڑھے بارہ تک بھیج دیتا ہوں، اِس حساب سےاب بھی دو اڑھائی گھنٹے باقی تھے۔ یہی سوچ کر پورے گھر کا ایک چکر لگایا، باہر لان میں کام ہو رہا تھا، وہاں ایک دو لوگوں کو خواہ مخواہ ہدایات جاری کیں، واپس اپنے سٹدی روم میں آیا، چند کتابیں غلط جگہ رکھی تھیں انہیں صاف کر کے ترتیب سے رکھا، کونے میں پڑا ہوا لیمپ مجھے ٹھیک نہیں لگا، اُس کی جگہ تبدیل کی، مگر وہاں بھی بات نہیں بنی، میں نے لیمپ واپس اسی جگہ رکھ دیا۔ اِن تمام ضروری نوعیت کے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد میں نےگھڑی پر نظر ڈالی تو اُس کی سوئیاں گیارہ بجا رہی تھیں۔ دل کو تسلیٰ دی کہ ڈیڑھ دو گھنٹوں میں کالم ’کھینچ‘ لوں گا۔ لیکن اس کے بعد مجھے دوبارہ نیند آگئی اور میں یہ سوچ کر لیٹ گیا کہ دس منٹ میں فریش ہوکر اٹھوں گا۔ جب اٹھا تو بارہ بج چکےتھے۔

اصولاً ایک کالم نگار کواپنے قارئین کو یہ باتیں نہیں بتانی چاہئیں کیونکہ کالم نگار اپنے تئیں ایک مثالی انسان ہوتا ہے، اس کی زندگی ڈسپلن سے عبارت ہوتی ہے، نہ وہ وقت ضائع کرتا ہے اور نہ ہی اسے فضول کاموں سے دلچسپی ہوتی ہے، جونہی اسے وقت ملتا ہے وہ کوئی نہ کوئی کتاب کھول لیتا ہے اور پڑھنا شروع کردیتا ہے اور یہ بتانے کی ضرورت تو بالکل نہیں کہ وہ دن میں دو گھنٹے ورزش بھی کرتا ہے۔ سچی بات ہے کہ آج میرا ارادہ یہی تھا کہ قارئین کو بتاؤں کہ زندگی میں ڈسپلن کی کیا اہمیت ہے، کامیاب لوگ کس طرح خود پر جبر کرکے صبح پانچ بجے اٹھتے ہیں اور ناکام لوگ کی کون سی عادات انہیں ناکام بناتی ہیں مگر میری نیند نے آج کے کالم میں بھانڈا ہی پھوڑ دیا۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ فی زمانہ لوگ قول و فعل کے تضاد کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے چنانچہ آپ بھی میری آج کی بیان کردہ روٹین کو نظر انداز کردیں اور صرف اُن مشوروں پر توجہ دیں جو میں نے سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔ میری خواہش ہے کہ کاش میں خودبھی اِن مشوروں پر عمل کروں۔

پہلا مشورہ تو بالکل صاف ہے کہ زندگی میں ڈسپلن پیدا کریں، وارن بوفے کہتا ہے کہ زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ چالاک ہوں بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ آپ زیادہ ڈسپلن سے کام لیں۔ اگر آپ اپنے دن کا آغاز صبح جلدی اٹھ کر کریں گے تو آپ کے پاس زیادہ وقت ہوگا۔ چند سال پہلے میں صبح سات بجے اٹھ کر جِم جایا کرتا تھا اور آٹھ بجے جب واپس آتا تھا تو خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت شخص سمجھتا تھا، مجھے لگتا تھا کہ میرے پاس وقت ہی وقت ہے۔ یہ روٹین میرے اُس جِم ٹرینر کی وجہ سے خراب ہوئی جو شاید مجھے سو میٹر کی دوڑ میں اولمپک کا طلائی تمغہ دلوانا چاہتا تھا۔ شاید ہم سب کو اپنی ناکامی کے لیے ایک ولن چاہیے ہوتا ہے، اُس ٹرینر کو آپ میرا ولن سمجھ لیں۔ ورزش سب سے مشکل کام ہے اور اگریہ کام صبح سویرے ہی نمٹ جائے تو باقی کا دن ہشاش بشاش گذرتا ہے، اِس پورے کام کا سب سے مشکل مرحلہ صبح چھ بج کر پچاس منٹ پر اٹھنا ہے، ہم صرف پانچ منٹ کی نیند کی خاطر پورا دن برباد کر دیتے ہیں۔ اگر آپ اپنے کمرے سے ہی باہر نہیں نکلتے یا ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے وقت ضائع کرتے رہتے ہیں تو آپ میں اوراُس جیل کے قیدی میں کوئی فرق نہیں جس کے پاؤں میں بیڑیاں ہیں۔ امریکی اداکار ڈینزل واشنگٹن نے بہترین اداکار کا ایوارڈ لیتے ہوئے ایک تقریر کی اور اُس میں وہ تمام باتیں کیں جو شاید نئی نہیں تھیں مگر اُس کا انداز مختلف تھا، اس نے کہاکہ’’ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ آرام طلبی ہے، ناکامی کی صورت میں پیدا ہونے والی مشکلات اور تکالیف انسان کو کم نقصان پہنچاتی ہیں، زیادہ نقصان آرام طلبی سے پہنچتا ہے، زندگی میں انسان کو خواب ضرور دیکھنے چاہئیں مگر خالی خولی خواب کسی کام کے نہیں ہوتے، انہیں پانے کے لیے اہداف مقرر کرنے پڑتے ہیں، اگر ایسا نہ کیا جائے تو انسان مایوسی میں گر جاتا ہے، لہذا اپنے اہداف مقرر کریں، سالانہ، ماہانہ بلکہ روزانہ کے اہداف، میں کوشش کرتا ہوں کہ روزانہ اپنا کوئی ہدف مقرر کروں اور پھر اسے حاصل کروں، یہ آسان کام نہیں، اِس کام کے لیے مستقل مزاجی اور ڈسپلن درکار ہے، اس کے لیے آپ کو روزانہ منصوبہ بندی کرنی ہوگی، انتھک محنت کرنی ہوگی، کامیاب لوگ یہی کرتے ہیں، اِس میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ ۔ ۔ ‘‘

دوسرا مشورہ ہے زندگی میں فوکس کرنا، ہم زندگی میں جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اسے فوکس کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے، روزانہ دس کاموں پر تھوڑی تھوڑی توجہ دینے کی بجائے ایک کام پر سو فیصد توجہ دینا زیادہ سود مند ہے۔ جب بندہ تازہ تازہ موٹیویٹ ہوتا ہے تو وہ اپنے لیے بڑے بڑے اہداف مقرر کر لیتا ہے، جیسے میں روزانہ کسی کتاب کے سو صفحے پڑھوں گا، ایک گھنٹہ جِم کروں گا، کسی بچے کو پڑھاؤں گا، نیا ہنر سیکھوں گا، مگر پھر اِن میں سے کچھ بھی نہیں ہو پاتا۔ اِس کا طریقہ علما نے یہ بتایا ہے کہ لالچ کرنے کی بجائے تھوڑے پر اکتفا کریں، روزانہ کتاب کا صرف ایک صفحہ پڑھنے سے شروعات کریں مگر وہ ایک صفحہ ضرور پڑھیں، اس کے بعد اُس میں اضافہ کرتے چلے جائیں تاوتیکہ وہ آپ کی عادت بن جائے۔ آخری مشورہ۔ زیادہ موٹیویٹ ہونے کی ضرورت نہیں۔ بس زندگی میں ڈسپلن رکھیں، جو ہدف اپنے لیے مقرر کریں اسے اسی وقت میں حاصل کرنے کی کوشش کریں جو وقت خود آپ نے مقرر کیا ہے، مستقل مزاج رہیں، اپنے جیسا کوئی دوسرا بندہ تلاش کریں جسے آپ کی زندگی کے اہداف کا علم ہو اور وہ اُن کی بنیاد پر آپ کا احتساب کرسکے۔ وزن کم کرنے میں یہ بات بہت فائدہ دیتی ہے، میں آزما چکا ہوں۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود کو ایمانداری سے احتساب کے لیے پیش کریں، یہ ممکن نہیں کہ آپ اپنے محتسب دوست سے بھی جھوٹ بولیں اور پھر یہ امید رکھیں کہ کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ جو مرد حضرات اب بھی یہ کالم پڑھ کر موٹیویٹ نہیں ہوئے اُن کے لیے آخری ٹِپ یہ ہے کہ احتساب کے لیے کوئی مناسب سی خاتون تلاش کریں، احتساب بھی ہوجائے گا اور دل بھی لگا رہے گا۔

کالم کی دُم: اِن تمام مشوروں پر عمل کرنے کے باوجود اگر کوئی شخص کامیاب نہیں ہوتا تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کا ’آڈٹ‘ کرے، اِس آڈٹ کا طریقہ کیا ہے، انشا اللہ پھر کبھی یہ بات ہوگی۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments