رجنی کانت کے پرستار۔۔۔ بے شمار۔۔۔!


رجنی کانت

انڈیا کے سپر سٹار رجنی کانت اور بالی وڈ کے سٹار اکشے کمار کی فلم ‘2.0’ دنیا بھر میں جمعرات کو ریلیز کر دی گئی ہے۔ یہ فلم بیک وقت تمل، تیلگو، ہندی اور بہت سی دوسری زبانوں میں ریلیز کی گئی ہے۔

خبر ہے کہ یہ فلم دنیا کے مختلف حصوں میں تقریباً 10،000 سکرینوں پر دکھائی جائے گی۔

گذشتہ چند دنوں کے دوران فلم کے بارے میں لوگ آپس میں زیادہ باتیں کر رہے ہیں۔ شاید اسی مناسبت سے اس فلم سے یہ توقعات وابستہ کی جانے لگی ہیں کہ شاید یہ انڈیا کی سب بڑی باکس آفس ہٹ فلم ثابت ہو۔

جنوبی ہند اور بطور خاص تمل ناڈو میں تو رجنی کانت کے پرستار ہیں ہی اب شمالی ہند، جاپان اور امریکہ کے علاقوں میں بھی ان کی فلموں کو پزیرائی مل رہی ہے۔

تمل فلم انڈسٹری میں 30 سال سے زائد عرصے تک راج کرنے والے رجنی کانت نے اپنے پرستاروں اور فلموں کی تعداد سے شمالی ہند یا بالی وڈ کو بھی حیرت زدہ کر رکھا ہے۔ ان کی فلمیں مختلف عمر کے لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہیں۔

رجنی کانت

رجنی کانت کو ان کے بعض پرستار بھگوان کی طرح پوجتے ہیں

آخر انھوں نے لوگوں کو کس طرح مسحور کیا؟

معروف فلمی ناقد سارہ سبرامنیم نے وضاحت کی کہ سنہ ‘1980 اور 1990 کی دہائیوں کے دوران ہندوستانی نوجوانوں کو سینیما اور کرکٹ کے علاوہ تفریح کے کم ہی مواقع میسر تھے۔ رجنی کانت نے انڈین سینیما میں ایک سپر ہیرو کے خلا کو پُر کیا۔

سارہ سبرامنیم نے کہا: ‘تھیئٹر میں رجنی کی فلم کا پہلے دن پہلا شو دیکھنا ولولہ انگیز ہوتا ہے۔ وہ ماحول بہت جوشیلا ہوتا ہے۔

‘ان کے ڈائیلاگ بولنے کا انداز بہت سے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ کسی بھی دوسرے ہیرو کے ڈائیلاگ بولنے میں وہ اثر نہیں ہے جو رجنی کے کچھ پنچ ڈائیلاگز میں ہوتا ہے۔’

سارہ سبرامنیم کہتی ہیں رجنی کے منفرد اور غیر معمولی انداز نے تمل ناڈو میں بہت سے لوگوں کو ان کا پرستار بنایا ہے۔ مختلف زبان ہونے کے باوجود ان کے انداز کے سبب ملک کے دیگر حصوں میں بھی بڑی تعداد میں لوگ رجنی کے مداح ہیں۔

رجنی کانت

‘اگرچہ کچھ فلموں میں ان کے چند سٹنٹس ناقابل یقین ہوتے ہیں لیکن لوگ اس خیال سے ان کی پذیرائی کرتے ہیں کہ یہ رجنی کانت نے کیا ہے۔ سارہ کا کہنا ہے کہ وہ ‘ہیروز کے ہیرو’ کے اپنے لقب کی مقبولیت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔’

بالی وڈ اور ٹالی وڈ کے بہت سے مشہور اداکاروں نے رجنی کو اپنا پسندیدہ ہیرو کہا ہے۔ شاہ رخ خان نے اپنی فلم کا گانا ‘لنگی ڈانس’ رجنی کی نذر کیا۔ اسے صرف کاروباری چال کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ سارہ سبر منیم کے خیال میں اس کی وجہ عوام کے درمیان ان کی مقبولیت ہے۔

سارہ نے کہا کہ’ اگرچہ ہندوستان کے دوسرے حصوں میں رجنی کے پرستاروں کی بڑی تعداد ہے اور ان کی مقبولیت برقرار رکھی ہے لیکن یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ سیاست میں ان کی شمولیت کے اعلان اور کچھ بیانات کے بعد بھی انھیں اسی رجنی کے طور پر دیکھا جائے گا۔

رجنی کی نئی فلم کے بارے میں سارہ نے کہا: ‘ملک کے دوسرے حصوں اور دنیا بھر میں فلم کے متعلق باتیں ہو رہی ہیں اوراس سےاچھی توقعات وابستہ ہیں لیکن تمل ناڈو میں 0۔2 کے لیے فلم کی ریلیز سے پہلے کی جانے والی بکنگ رجنی کی دوسری فلموں کی بکنگز سے کافی کم ہے۔ اس فلم کے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ چرچے نہیں ہیں۔’

‘اکلوتا اداکار’

رجنی کانت کی اگلی فلم کی ہدایتکاری کرنے والے نوجوان ہدایتکار کارتھک سبباراج کا کہنا ہے کہ ‘رجنی کے ساتھ فلم بنانا میرا خواب ہے۔ میں باقی لوگوں کی طرح رجنی کی فلمیں دیکھ کر بڑا ہوا ہوں۔’

وہ یقینی طور پر ملک کے سب سے بڑے سٹارز میں سے ایک ہیں اور کئی سالوں سے ان کے مداحوں پر ان کا جادو چھایا ہوا ہے۔ کئی سالوں سے ان کا منفرد انداز، ان کا حسن اخلاق، ڈائیلاگ بولنے کا طریقہ ان کے پرستاروں کو مسحور کیے ہوئے ہے۔

کارتھک سبباراج نے مزید کہا کہ ‘رجنی کے تیز ایکشن اور ڈائیلاگ ادا کرنے کا انداز یقیناً بےمثال ہے۔ ایسا اداکار تلاش کرنا مشکل ہے جس کی شہرت اتنے سالوں تک بر قرار رہے۔ ان کی شخصیت کا ایک اور شاندار پہلو یہ ہے کہ ان کی شہرت اور انفرادیت کے باوجود وہ بہت سادہ مزاج اور منکسر المزاج انسان ہیں۔

رجنی کانت

‘آندھراپردیش میں بھی مقبول’

آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں بھی رجنی کے بہت سارے پرستار ہیں۔ ان کی بہت سی تمل فلموں اور تیلگو میں ڈب کی ہوئي فلموں کو تیلگو شائقین نے وسیع پیمانے پر پسند کیا ہے۔

رجنی کے ساتھ ‘کتھانیا کوڈو’ اور ‘کوسیلن’ بنانے والے تیلگو فلم ساز اشونی کہتے ہیں کہ ‘رجنی ایک ورسٹائل اداکار ہیں۔ ان کی اداکاری کی صلاحیتیں اور باڈی لینگویج منفرد ہیں۔ یہی چیزیں رجنی کے سامعین کو مشترک کرتی ہیں۔ وہ واحد اداکار ہیں جو ہر عمر کے لوگوں کو آپس میں جوڑتے ہیں۔

اشونی کا کہنا ہے کہ رجنی کے اسلوب کا سب پر اثر ہوتا ہے خواہ وہ سکرین پر ہوں یا شوٹنگ پر۔ وہ سکرین پر صرف اپنی موجودگی سے جادو بکھیر دیتے ہیں۔

رجنی کی تعریف کرتے ہوئے اشونی نے کہا: ‘اچھی اداکاری کی صلاحیتوں کے علاوہ رجنی کانتھ کا ایک اہم پہلو ان کی سادگی ہے۔ انھی خصوصیات نے رجنی کو انڈیا کے مختلف حصوں میں عوام کے درمیان مقبولیت دلائی ہے۔ جس طرح ہندوستان کے دیگر حصوں میں ان کے پرستار ہیں اسی طرح آندھرا پردیش میں ان کے بہت زیادہ پرستار موجود ہیں۔

رجنی کانت

کیا تمل ناڈو کے باہر بھی رجنی کے لاتعداد چاہنے والے موجود ہیں؟

فلم کریٹک پروفیسر راما سوامی کا کہنا ہے کہ ‘انڈیا اور تمل ناڈو میں رجنی کے بڑی تعداد میں پرستار ہیں جبکہ دوسرے ممالک میں بھی وہ مقبول ہیں اور ان کی مقبولیت کی وجہ شاید ملائیشیا اور دیگر ممالک میں رہنے والے تمل باشندے ہیں۔’

جب رجنی کانت سے ان کی فلم ‘موتھو’ کی جاپان جیسے ملک میں مقبولیت کی وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے جواب دیا: ‘شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ موتھو میں ایک کردار کی تصویرکشی کئی صدیوں پہلے مشرقی ایشیا میں رہنے والے ایک بادشاہ کی طرح کی گئی ہے۔ فلم کی ریلیز سے قبل اس بارے میں رپورٹس وہاں کے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرسکتی ہیں۔ ثقافتی مشابہت اور کردار کو نبھانے کے انداز کی وجہ سے اس فلم نے جاپانی ناظرین میں دلچسپی پیدا کی ہے۔’

رجنی کانت

رجنی اور ان کا منفرد انداز

راما سوامی کا کہنا ہے کہ ‘فلموں میں رجنی کی باڈی لینگوج اور سٹائل کی اچھی طرح سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ وہ بایو میکانیزم کے عمل کی پیروی کرتے ہیں جس میں باڈی لینگوج کا بہت استعمال ہوتا ہے کہ جسم کے حصے کیسے حرکت کریں گے۔ رجنی کے پرستاروں کے لیے سب سے پرکشش پہلو ان کا سٹائل ہے۔ زیادہ تر فلموں میں ان کے منفرد انداز اور باڈی لینگوج کو شعوری طور پر پیش کیا جاتا ہے۔’

انھوں نے کہا: ‘یہاں تک کہ بچے بھی منفردیت کی وجہ سے ان کے سٹائل اور باڈی لینگوج کی نقل کرتے ہیں۔ اور یوں رجنی کانتھ کا منفرد سٹائل وجود میں آیا۔’

راماسوامی نے مزید کہا: ‘اس کے علاوہ سیاسی اعلانات یا دیگر تقریروں میں بھی وہ باڈی لینگوج کا شعوری طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اب یہ ان کی شخصیت کا حصہ بن گیا ہے۔ فلموں کے ڈائیلاگ خاص طور پر ان کی باڈی لینگوج اور انداز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لکھے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp