افغانستان میں نجی سکیورٹی کمپنیوں کی تعداد کتنی ہے اور وہ وہاں کیا کر رہی ہیں؟


طالبان نے کہا ہے کہ انھوں نے برطانوی سکیورٹی فرم جی فور ایس (جی4ایس) کے اڈے پر حملہ کیا ہے۔

مسلح بندوق برداروں نے فرم کے کمپاؤنڈ میں گھس کر پانچ افراد کو ہلاک کر دیا جن میں ایک برطانوی شہری بھی شامل تھا۔

جی فور ایس دنیا کی سب سے بڑی سکیورٹی فرمز میں سے ایک ہے، جو کہ کابل میں برطانوی سفارتخانے کے ارد گرد سکیورٹی مہیا کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیئے

دو افغان سیکورٹی افسران ہلاک، امریکی کمانڈر بال بال بچ گئے

’دولتِ اسلامیہ افغانستان میں کیسے مضبوط ہوئی‘

افغانستان کے مختلف حصوں میں حملے، 25 فوجی ہلاک

سنہ 2001 میں امریکی سربراہی والے اتحاد کی افغانستان میں کارروائی کے بعد سے وہاں نجی سکیورٹی فرمز کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا۔

لیکن حالیہ برسوں میں غیر ملکیوں فوجیوں کے انخلا کے بعد پرائیوٹ کانٹریکٹرز کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی۔ تاہم ابھی بھی افغانستان میں سکیورٹی کی صورتِ حال بہت خراب ہے، نیٹو کے ہزاروں فوجی تو موجود ہیں لیکن غیر ملکی سفارت خانوں، فوجی اڈوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے دفاتر پر مسلح سکیورٹی کی مانگ پھر بھی زیادہ ہے۔

جی فور ایس

جی فور ایس پر حملے کے بعد ایک سکیورٹی اہلکار ڈیوٹی دیتے ہوئے

سو افغانستان میں کتنی سکیورٹی فرمز کام کر رہی ہیں؟

افغان وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ حکومت کی افغان پبلک پروٹیکشن فورس (اے پی پی ایف) افغانستان میں زیادہ تر سکیورٹی کا انتظام سنبھال رہی ہے۔ اس میں غیر ملکی فوجیوں کو حفاظت سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا، اور غیر سرکاری تنظیموں اور سفارتی اور تجارتی کلائنٹس کو دیگر سکیورٹی سروسز مہیا کرنا شامل ہے۔

اسے سنہ 2010 میں بنایا گیا تھا جب چند سکینڈلز کے بعد ایک صدارتی فرمان کے ذریعے نجی سکیورٹی کمپنیوں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

افغان پبلک پروٹیکشن فورس (اے پی پی ایف)

افغان پبلک پروٹیکشن فورس (اے پی پی ایف) افغانستان میں زیادہ تر سکیورٹی کا انتظام سنبھال رہی ہے

اسے سے پہلے سکیورٹی کی ذمہ داری زیادہ تر نجی سکیورٹی فرمز کے پاس ہی ہوتی تھی۔

تاہم اس کے بعد بین الاقوامی برادری نے حکومت کے سکیورٹی پلان کے بارے میں تشویش ظاہر کی اور اس پر پابندی کو ماننے سے انکار کیا۔ غیر ملکی سفارتی مشن، سفارتی درجہ رکھنے والی بین الاقوامی تنظیمیں اور فوجی اڈے واپس اپنی نجی سکیورٹی رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ پولیس کو ٹریننگ دینے والی کمپنیوں کو بھی استثنیٰ مل گیا۔ غیر ملکی کمپنیوں کو کہا گیا کہ وہ دوبارہ رسک مینجمنٹ کمپنیوں کے نام سے رجسٹر ہوں۔

فیبریزیو فوشینی نے 2014 میں ’افغانستان اینیلسٹز نیٹ‘ ورک میں لکھا کہ اس سے متعدد کمپنیوں کو سکیورٹی کے کاروبار میں جمے رہنے کا موقع مل گیا۔

افغان حکومت کی طرف سے رکھے گئے گارڈز کو پرکھنے، ٹریننگ دینے اور ان کے انتظام کے لیے ایک پرائیویٹ کمپنی کو ٹھیکہ دیا جا سکتا ہے۔ سو اس لیے افغانستان میں ابھی بھی غیر ملکی سکیورٹی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔

مثال کے طور پر جی فور ایس کا کہنا ہے کہ اس کا افغانستان میں تقریباً 1200 کا عملہ ہے اور وہ وہاں سنہ 2003 سے موجود ہے۔ اس میں سے آدھا عملہ افغان ہے جبکہ باقی آدھی تعداد غیر ملکیوں کی ہے جن میں برطانوی شہر بھی شامل ہیں۔

برطانوی سفارتخانے کو سکیورٹی فراہم کرنے کے علاوہ اس کمپنی کے پاس غیر سرکاری تنظیموں اور کارپوریٹ کلائنٹس کو پرائیویٹ سکیورٹی فراہم کرنے کے ٹھیکے بھی ہیں۔ کمپنی پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز کو ملازمت اور ٹریننگ دیتی ہے اور افغان نیشنل فورسز کی ٹریننگ اور مینٹرنگ کرتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ کے سورچا مکلیوڈ کہتے ہیں کہ افغانستان میں نجی سکیورٹی فرمز کی درست تعداد بتانا ایک مشکل کام ہے۔ معلومات تک رسائی مشکل ہے کیونکہ کلائنٹ کی حکومت اسے قومی سلامتی کا کہہ کر روک سکتی ہے۔ یہ اس صنعت کی پیچیدگی کی وجہ سے بھی ہے، کیونکہ اس میں پرینٹ کمپنیاں، سب کانٹریکٹرز اور جوائنٹ وینچرز شامل ہوتے ہیں۔

ایسے مطالبات بھی سامنے ائے ہیں کہ افغان جنگ میں نجی کمپنیوں کو بڑا کردار دیا جائے۔ نجی سکیورٹی فرم بلیک واٹر کے بانی ایرک پرنس کہتے ہیں کہ لمبی جنگ ختم کرنے میں کانٹریکٹرز بہت کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں نے افغانستان میں کام کیا ہے انہیں دوبارہ وہاں جنگ کے لیے استعمال کیا جائے۔

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے اس تجویز کو ‘افغانستان کی قومی خود مختاری کی کھلم کھلا خلاف ورزی’ کہا ہے۔

مثال کے طور پر سنہ 2012 میں امریکی وزارتِ دفاع نے ایک لاکھ سے زیادہ مسلح اور غیر مسلح کانٹریکٹرز رکھے ہوئے تھے۔ ان میں 20000 سے زیادہ نجی سکیورٹی کانٹریکٹرز بھی شامل تھے۔

سنہ 2016 میں نجی سکیورٹی کانٹریکٹرز کی تعداد 1000 سے بھی کم ہو گئی لیکن اس کے بعد سے اس میں تھوڑا سا اضافہ بھی ہوا ہے۔

امریکی وزارتِ دفاع کے مطابق اکتوبر 2018 میں افغانستان میں 2500 مسلح نجی سکیورٹی کانٹریکٹرز تھے۔ ان میں سے اکثر کسی تیسرے ملک کے شہری ہیں یعنی کہ نہ تو وہ امریکی ہیں اور نہ افغان۔

یونیورسٹی آف لیورپول کے بین الاقوامی سیاست کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ایسوسی ایٹ پروفیسر الرچ پیٹرسن کہتے ہیں کہ افغانستان میں مسلح کانٹریکٹرز ہمیشہ سے کم رہے ہیں۔ کانٹریکٹرز کی زیادہ تر تعداد غیر مسلح ہوتی ہے اور وہ دیکھ بھال اور نقل و حمل کا کام کرتے ہیں۔

سب کانٹریکٹنگ کمپنیوں کو اپنی سکیورٹی کا خود انتظام کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے فوجی موجودگی کے عروج پر افغانستان میں سکیورٹی فرمز کی مجموعی تعداد بڑھ گئی تھی۔

اب افغانستان میں موجود 25000 امریکی دفاعی کانٹریکٹرز میں سے تقریباً 10000 امریکی شہری ہیں۔

سکیورٹی سروسز کے علاوہ جن کے پاس تقریباً 16 فیصد کانٹریکٹنگ نوکریاں ہیں، دیگر ملازمتوں میں لاجسٹکس، ترجمہ، بیس سپورٹ، تعمیرات اور نقل و حمل شامل ہیں۔

ریلٹی چیک


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp