ساہیوال میں ادب و ثقافت، شاہ محمد مری کی محبت اور رانا اظہر کے فنی نقوش


کہا گیا: محبت ایک عالمگیر جذبہ ہے، جب اڑان بھرتا ہے تو رستے سے گزرنے والے ہر مسافر کو اپنا آپ دان کرتا چلا جاتا ہے، اور پھر بھی اِس کا دامن کبھی خالی نہیں ہوتا، بس بھرتا ہی چلا جاتا ہے۔

پوچھا گیا: محبتیں کامل کہاں ہوا کرتی ہیں؟ ان کی تشنگی تو ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔ ہمارے دلوں کے خالی ، بنجر اور ویران صحراؤں سے بڑھ کراِ س کا ثبوت اور کیا ہوگا؟

کہا گیا: کیونکہ ”تم نے اپنے دل صحراؤں کے لیے بڑھا دئیے اور محبتوں کے لیے گھٹا دیے۔۔“

اس بات پر یقین تب آیا جب ہم نے آرٹس کونسل ساہیوال کی دو روزہ ادبی و ثقافتی کانفرنس میں، پاکستانی ثقافتوں اور اردو ادب کے حوالے سے عالمگیریت کے ثمرات اور مضمرات کو جانچنے کی سعی کی۔

ساہیوال ادبی و فکری حوالے سے ایک زرخیز شہر ہے۔ مجید امجد اور منیر نیازی جیسے شاندار ادبی حوالوں نے اس شہر کو شناخت دی ، ہڑپہ جیسی قدیم تہذیب کے یہاں متصل ہونے کے سبب اس شہر کی تاریخی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ آرٹس کونسل ساہیوال نے 26 اور 27 نومبر کو ’اردو ادب، پاکستانی ثقافتیں اور عالمگیریت ‘جیسے وقیع موضوع پر، بارانی یونیورسٹی ساہیوال کیمپس کے تعاون سے ،دو روزہ ادبی و ثقافتی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ جس میں مہمانوں اور طلباء کی دلچسپی کی خاطر مشاعرہ، شامِ غزل، کتب کے اسٹال اور ہڑپہ کا تاریخی دورہ اور ثقافتی رقص بھی شامل کیا گیا۔ ادیبوں اور دانشوروں کی کانفرنس میں کثیر تعداد میں شرکت ، موضوع پر اپنی بہترین فکری ذہانت کے اظہار اور ڈائریکٹر آرٹس کونسل ریاض ہمدانی صاحب کی عمدہ انتظامی صلاحیتوں کے سبب یہ دو روزہ کانفرنس، کسی بھی حوالے سے ایک بھرپور اور کامیاب کانفرنس رہی۔

زکریا خان کتاب اور ادب دوستی کا ایک بے لوث حوالہ ہیں۔ اگلے روز، بلوچستان سے کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے امن اور محبت کے سفیر شاہ محمد مری صاحب کے ہمراہ، انھوں نے اوکاڑہ اور ستگھرہ کا سفر باندھا جس میں ہمیں مروتاَ پوچھا گیا اور ہم سچ میں ساتھ ہو لیے۔ راستے بھر میں زکریا خاں صاحب نے اپنی بے تحاشا باتوں سے مجال ہے جو شاہ محمد مری صاحب کو ذرا سا بھی بور ہونے دیا ہو۔

آخر ہم نے بڑی دیر سے دماغ میں گھومتے ایک تلخ سوال کو پوچھنے کی جرات کی: ’مری صاحب ! آپ سب سے ایسی محبت سے ملتے ہیں کیا بلوچستان میں رہنے والے اور بہت سے لوگوں کی مانند آپ کو ہم سے کبھی کوئی شکایت محسوس نہیں ہوتی؟ یا کوئی اور ایسا ہی تلخ جذبہ کبھی دل میں بیدار نہیں ہوتا ؟‘ (نفرت کا لفظ ہم نے دانستہ حذف کیا تھا) وہ خاموش ہوگئے۔ پھر بڑی صاف گوئی سے بولے،’ہوتا تھا۔۔ پہلے پہل مجھے، بلوچستان کے حالات کے سبب بہت برا محسوس ہوتا تھا۔ پھر ایک دن جب مجھے بلوچستان سے اِدھر کا سفر کرنا پڑا، تب ایک جگہ ہماری ٹرین خراب ہو گئی۔ میں نیچے اترا اور کافی دیر یونہی آس پاس چہل قدمی کرنے لگا اور ایک کسان کے پاس سے گزرا۔ اس سادہ آدمی نے مجھے دیکھا، سلام کیا اور پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ میں نے کہا بلوچستان سے، وہ بڑی دیر سوچ کر بولا: وہ کہاں ہے؟ مجھے اُس کی سادگی پر بہت پیار آیا۔ میں نے سوچا میں ایک ایسے شخص سے نفرت کیسے کروں جو مجھے جانتا بھی نہیں؟ تو وہ لوگ جنھیں ہمارے مسائل کا علم ہی نہیں ہم اُن سے نفرت کیسے کر سکتے ہیں؟ پھر اب تو ویسے بھی ہم محبت بانٹنے نکلے ہیں۔‘ سفر کٹتا گیا اور ہم بلوچ سردارر میر چاکر رند کے مزار پر ستگھرہ جا پہنچے۔

 میر چاکر رند یا چاکرِ اعظم ، تاریخ میں بلوچ قبائل کے وہ بہادرجنگجو سردار گزرے ہیں، جنھوں نے 1555 میں ہمایوں کے ہمراہ دہلی پر حملہ کیا اور ہمایوں کو شیر شاہ سوری کے جا نشینو ں سے ہندوستان کی حکومت واپس لینے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1565 میں اس بہادر بلوچ سردار کا انتقال ہوااور ان کی خدمات کے عوض ان کا مقبرہ شہنشاہ اکبر نے ستگھرہ کے مقام پر موجود، تاریخی قلعے کے اندر بنوایا۔ جو اب خود حوادثِ زمانہ کی نذر ہو چلا ہے۔ اگرچہ اس مقبرے اور قلعے کی بعد میں بھی خبر گیری کی گئی لیکن گزرتے وقت کے ساتھ منہدم ہوتے قلعے کے آثار اب آپ اپنی حالت پر نوحہ کناں ہیں۔ فصیل کے ارد گرد کثرت سے بنائے گئے لوگوں کے گھروں نے قلعے کی شکل کو یکسر بدل ڈالا ہے۔ گمنام قلعہ اور ویران مزار اب بھی صدیوں پرانی تاریخ کا فسانہ سناتے ہیں۔ اپنے ثقافتی ورثے کی اِس زبوں حالی نے دل کو اداس کر دیا تھا۔

اگلا سفر اب اوکاڑہ میں معروف معمر سیاسی و سماجی کارکن رانا محمد اظہر صاحب کے گھر کا تھا۔ رانا صاحب اپنی معروف کتاب ’ایک سیاسی کارکن کی یاداشتیں ‘ کے علاوہ اپنی اعلیٰ پائے کی مصوری اورعمدہ سنگ تراشی کے نمونوں کی بدولت اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ وہ ایک صاف ستھرے گھر میں اپنی دو نفیس بیٹیوں اور ایک داماد کے ہمراہ ہمیں بڑ ی محبت سے ملے اورعمدہ کھانے کا اہتمام کیا۔ عمر کے اِس حصے میں جب اُن کے شاندار فن کے یہ نادر نمونے کسی بہترین آرٹ گیلری کا حصہ ہونے چاہیں تھے، یہ گھر کی مختلف جگہوں پر گرد آلود پڑے ہیں۔ گھر والے ہمیں دکھانے کو، بڑی محبت سے ایک ایک تصویر اٹھا لاتے اور جھاڑ پونچھ کر ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیتے اور ہم حیرت سے فن کے ان نادر نمونوں کو تکتے رہ جاتے۔ دل اب مزید اداس ہو گیا تھا۔

مصوری اورسنگ تراشی کے اِن شاندار نمونوں میں قدیم مذہبی واساطیری کردار بھی ملے جن میں مہاتما بدھ، یسوح مسیح اور گنیش وغیرہ بھی شامل تھے۔ گنیش کا سنگی مجسمہ دیکھتے ہوئے شاہ محمد مری صاحب نے ازراہِ تفنن اُن کی بیٹی سے پوچھا، کیا گنیش کی مورتی سے گھر کی دولت میں اضافہ بھی ہوا؟ (واضح رہے ہندو مائتھالوجی میں علم اور دولت کے حصول کے لیے گنیش کی پوچا کی جاتی ہے) وہ مسکرائیں اور بڑی متانت سے بولیں،’جس گھر میں پہلے ہی تین تین لکشمیاں موجود ہوں، وہاں اور کیا چاہئے۔ خدا کا شکر ہے اپنا کھاتے ہیں اور اُس کا شکر ادا کرتے ہیں۔‘

شاہ محمد مری صاحب کی عقیدت سے سرشار کئی لوگ وہاں جوق در جوق اُن سے ملنے آتے رہے۔ اور وہ ایسی محبت سے اُن سے ملتے رہے گویا برسوں کی شناسائی ہو۔ واپسی پر میں سوچتی رہی کیا واقعی محبت بانٹنے کا عمل ایسا ہی سہل ہے؟ کیا عالمگیریت کے مضمرات سے نمٹنے سے قبل ہم اپنے مقامی مسائل سے نمٹ پائیں گے؟کیا نفرت کے صحراؤں کو شاداب کرنا کبھی ممکن ہو پائے گا؟ کیا محبت سے منور دل ،ہماری ظلمتوں اور باہمی رنجشوں کا ازالہ کر سکتے ہیں؟ اب ان سوالوں کا جواب تو آپ خود ہی دے سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).