کیا علم مابعد الطبعیات سے مراد ماوراء الطبعیات ہی ہوتے ہیں؟


یہ عجیب المیہ ہے کہ اوہام اور بے بنیاد خیالات سے سائنس کی مدد سے چھٹکارا پانے کے بعد انسان اب جاکر اس حدتک دوسرے انتہا پر کھڑا ہوگیا کہ اب اس کی تجربیت پسند مزاج کے نزدیک کل موجودات کے درمیان ایک ہی تقسیم پائی جاتی ہے۔ دنیا کے تمام اشیا اور علوم یا تو وہ ہیں جو قابل تجربہ ہیں یا پھر وہ جو محض پوچ خیالات اور قوت واہمہ کے پیدوار ہیں۔ سائنس کو ہر چیز اور ہر چیز کو سائنس سمجھنے کی اس مبالغہ آمیزی کی بنیاد ہمارے ہاں شاید اس وجہ سے بھی پڑ گئی کہ اس انتہا کے مقابل جانب بھی اسی قسم کا ایک دوسرا مغالطہ کھڑا ہے یعنی کہ سائنس کی ہر ایجاد کو بھی مذہب سے ثابت کرنا یا مذہبی متون سے ہٹ کر ہونے والی ہر سائنسی پیشرفت کے وقوع سے ہی انکار کر دینا، فرق صرف یہ ہے کہ مذکورہ بالا مذہبی رویہ تو صدیوں پر محیط دیرینہ روایت ہے جبکہ سائنس پرستی کے داعی حضرات کا طرز عمل ایک جدید فیشن، لیکن بہر صورت ان رویوں کا بنیاد مذہب، سائنس اور خود ان امور اور چیزوں سے متعلق ہمارے بنیادی تصورات کی کجی ہی ہے۔

سائنس پرستی کے اس رجحان نے انسانوں کے مزاج، اپنے شناخت کے بارے میں انسان کے بنیادی تصورات اور دنیا کے بارے میں انسان کے زاویہ نگاہ میں بڑی گہری تبدیلی عمل میں لای ہے لیکن یہ رجحان کچھ تجاوزات کا بھی سبب بنا ہے۔ سائنس کی آڑ لے کر کچھ ایسے امور کے ساتھ بھی چھیڑ خانی شروع کردی گئی جو امور نفیا یا اثباتا سائنس کا موضوع ہے ہی نہیں بلکہ علم کی وہ شاخیں بھی جو سائنس کے لیے ماں کی حیثیت رکھتے ہیں خصوصا ”مابعد الطبعیات“ کی اصطلاح تو اب شرم کے مارے منہ چھپاتی پھر رہی ہے۔

اگر ایک مذہبی شخص رایٹیسٹ اور لفٹیسٹ یعنی سیاسی فلسفے میں دائیں اور بائیں بازو کی اصطلاح سے یہ نتیجہ اخذ کردے کہ دائیں طرف کو تو خدا نے ہی بائیں جانب پر فضیلت عطا کردی ہے لہذا اس میں مزید دلائل کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے تو یہ بات ایک احمقانہ معصومیت کے علاوہ کیا ہوسکتی ہے یہ بعینہ ایساہی ہوگا جیسا کہ ہم مابعد الطبعیات کو علم الطبعیات کی ضد اور اس کے مدمقابل کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ اگر وہاں انہوں نے دائیں اور بائیں بازو کی اصطلاحات کی ان ناموں سے موسوم ہونے کی سادہ سی وجہ کو نظر انداز کرکے اس سے اپنے ذہنی کینوس کے مطابق ایک مرغوب سا نتیجہ نکالا ہوگا تو یہاں ہم بھی طبعیات اور مابعد الطبعیات کے بارے میں ایسی ہی تکنیک استعمال کررہے ہیں۔

مابعدالطبعیات سے متعلق اگر جان بوجھ کر مغالطہ اندازی سے کام نہیں کیا جاتا تو پھر اس اصطلاح کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمی کے ممکنہ طور پر تین وجوہات ہوسکتے ہیں۔

پہلی وجہ کا تعلق مابعدالطبعیات کی اصطلاح کی تاریخی پس منظر سے ہے۔ وہ پس منظر یہ ہے کہ سب سے پہلے ارسطو وہ شخص تھے جنہوں نے کچھ ایسے مسائل کو زیربحث لایا جنہیں اس زمانے میں معروف اور متداول علوم میں سے کسی کے بھی کیٹیگری میں نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ یہ سوالات براہ راست وجود سے متعلق فلسفیانہ تفکر پر مبنی تھے، اس سے قطع نظر کہ وجود خدا کی ہو یامادے کی ہو یا پھر ایک ذرے کی، اس سے بھی قطع نظر کہ یہ وجود خارجی ہو یا انتزاعی، بالفاظ دیگر ذہنی ہو یاعینی۔

ارسطو نے خود بھی ان مباحث کے لیے کوئی بھی عنوان اور ٹایٹل وضع نہیں کیا۔ لیکن ارسطو کے انتقال کے بعد جب ان کے تمام افکار کو ایک دائرة المعارف ( انسائیکلوپیڈیا ) کے شکل میں مدون کیاگیا تو ان مباحث کو ترتیب کے لحاظ سے طبعیات کے بعد شامل کردیاگیا اور یہاں بھی ان مباحث کے لیے کوئی ٹایٹل نہیں رکھا گیا اور اسی ترتیب کے وجہ سے کتاب کا یہ حصہ میتافیزیک Metaphysic کے نام سے مشہور ہوگیا۔ پھر جب عربی میں ارسطو کے تراجم ہونے لگے تو میتافیزیک کو مابعد الطبعیات کا نام دیا گیا۔

اس کے بعد جب انگریزی زبان کی فلسفہ سے شناسائی ہوئی تو اسی مابعدالطبعیات کی اصطلاح کی تعبیر ماوراء الطبعیات سے کی جانے لگی یعنی علم کی وہ شاخ جو طبعیات سے پرے کچھ غیبی، اساطیری اور آسمانی امور سے سروکار رکھتاہے۔ بالخصوص طبعیات، فلکیات اور ریاضیات وغیرہ کو مستقل سائنسی اور تجربیاتی حیثیت ملنے کے بعد تو صرف مابعد الطبعیات ہی نہیں بلکہ پورے علم فلسفہ کوہی گویا جادو جنات والی کہانیوں کے متراف سمجھا جانے لگا، اگرچہ طبعیات اور ریاضیات سے متعلق وہ مباحث جو ایک ہزار سال پہلے جس طرح علم مابعدالطبعیات کی موضوع تھے آج بھی اسی علم کے ہی دائرہ کار میں آتے ہیں مثلا عمانوئیل کانٹ نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے ”میٹافیزیکل فاونڈیشنز آف نیچرل سائنسز“ اسی طرح ایڈوین برٹ نے بھی اسی موضوع پر میٹافیزیکل فاونڈینشنز آف ماڈرن سائنسز کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ گویا کہ طبعیات اور ریاضیات سے مربوط مسائل کا ایک مابعد الطبعیاتی اساس اور تناظر بھی ہوتاہے اور ہر چند پیشرفت کے باوجود اس حیثیت کے ساتھ مابعدالطبعیات کے ساتھ طبعیاتی علوم کا ایک گونہ رشتہ اور رابطہ بہرحال قائم رہتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2