پاکستان سیکولریا نظریاتی؟



ہمارے سماج میں بہت سے لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اس ملک میں اگر اسلامک سسٹم نافذ کردیا جائے تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ سوشل میڈیا پر اکثر نوجوان یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اسلامک سسٹم لے آئیں بے روزگاری، غربت، ناانصافی، استحصال،جبر اور ظلم وغیرہ سے ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے گی۔ یہ ایک اہم سوال ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب اسلامک انقلاب مکہ سے پھیلنا شروع ہوا تو اس کے نتیجے میں ایسی ریاستیں اور سلطنت قائم ہوئی جنہوں نے ہر شعبے میں بے تحاشا ترقی کی۔ سائنس، فلاسفی، اسٹیٹ کرافٹ وغیرہ تمام شعبوں میں ترقی ہوئی۔ عرب کے ساتھ باقی اسلامک تہذیبوں نے بھی بہت ترقی کی۔
اسلامی تہذیبوں کا دنیا میں لیڈنگ کردار رہا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک ایسا دور آیا جب اسلامی دنیا میں ترقی رک گئی۔ جب اسلامک دنیا میں ترقی کا پہیہ رک گیا تو اسی دور میں یورپ میں بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوچکی تھی۔ یورپ میں ترقی اور تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ وہاں پر قدیمی فیوڈل سسٹم کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام لے چکا تھا۔ یہ 15 ویں اور 16 ویں صدی کی داستان ہے۔ اس دور میں تاجر طبقے نے اقتدار حاصل کر لیا تھا۔ یورپ میں جب یہ تاجر طبقہ سرمایہ دارنہ طبقے میں تبدیل ہوا تو اس دور میں یورپ میں بے تحاشا ترقی ہوئی۔ اس دور میں یورپ نے سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے باقی تمام دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اب یورپ نے اس ترقی کو اس مقصد کے لئے استعمال کرناشروع کر دیا جس مقصد کے لئے اس سے پہلے باقی تہذیبیں استعمال کرتی تھی۔ انہوں نے دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کا مقصد پورا کیا۔ دنیا کے بہت سے علاقوں میں ان کی حکومتیں قائم ہوگئی۔ یورپ نے نوآبادیاتی نظام قائم کیا۔ اب اس نظام کو بھی تو جیسٹیفائی کرنے تھا اس کے لئے انہوں نے ایک بیانیہ تعمیر کیا۔ اس تمام بیانیہ کو orientalist لٹریچر کہا گیا۔ جس میں انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یورپ کی تہذیب، کلچر، ثقافت اور روایات دنیا کی باقی تہذیبوں سے بہتر، ترقی یافتہ اور جمہوریت پسند ہے۔
یورپ کا کہنا تھا کہ ان کی تہذیب و ثقافت کے مقابلے میں باقی تمام تہذیبیں بیکار ہیں۔ یہ بھی کہا کہ اگر باقی تمام ریاستوں پر یورپ کی حاکمیت قائم ہوگئی تو اس سے وہ یورپ سے بہت کچھ سیکھ سکیں گی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر تہذیب دوسری تہذیب سے کچھ نہ کچھ سیکھتی ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ یورپ نے اپنی ترقی کی بدولت دوسری ملکوں اور علاقوں پر قبضہ کیا۔ ان ملکوں کا استحصال کیا گیا۔ اس سب کا مقصد واضح تھا کہ یورپ کو مزید ترقی دی جائے۔ یورپ نے یہی کچھ متحدہ ہندوستان کے ساتھ کیا۔ جب برطانوی سامراجی حکومت کا ہندوستان میں آغاز ہوا تو اس وقت ہندوستان عالمی دنیا کا ایک چوتھائی حصہ پیداوار پیدا کرتا تھا۔ جب برطانوی سامراج ختم ہوا تو معاملہ ایک چوتھائی سے چار فیصد پر آگیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یورپ نے جن ملکوں پر حکومت کی ان کا بھرپور استحصال کیا۔ اس استحصال کی وجہ سے یورپ کی ترقی ہوئی۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یورپ نے نوآبادیاتی دور میں جن ملکوں پر حکومت کی وہ پسماندہ رہ گئے اور یورپ بہت آگے نکل گیا۔
یورپ کے اس رویئے کی وجہ سے یعنی یورپ کے نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے باقی تہذیبوں میں یہ خیال یا سوچ پیدا ہوئی کہ ان کی تہذیب اچھی ہے یا بری اس کا دفاع کیا جانا چاہیئے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی خیال پیدا ہوا کہ ان کی اچھی یا بری تہذیب پر جو تنقید کررہے ہیں حقیقت میں وہ یورپ کا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ، امریکا اور چین وغیرہ نے دنیا پر غلبہ پانے کے لئے اپنی ترقی کا استعمال کیا ہے اور یہ کام اب بھی جاری ہے۔ اب بیچارے کچھ دانشور اپنی تہذیب، روایات پر تنقید کرتے ہیں، فوری یہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ یہ تنقید کیوں کی جارہی ہے۔ یہ بھی شک کیا جاتا ہے کہ کیا اس کا مقصد یہ تو نہیں کہ دوبارہ یورپ یا امریکا کی حاکمیت قائم کی جائے؟ اپنی تہذیب پر سوال اٹھانے والے کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہوتا کہ وہ کسی اور تہذیب کواہمیت دے رہا ہے۔ اگر ہم اپنی تہذیب پر تنقید نہیں کریں گے تو اس سے اپنی تہذیب کی روایات کو تبدیل نہیں کر پائیں گے۔ یا تو ہم ہمیشہ کے لئے یہ سمجھ لیں کے جو ہمارے بزرگوں نے کردیا وہ بہت ہےاور اب مزید تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ اس طرح ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تقلید کے پیروکار بن جائیں۔ تنقیدی نگاہ سے اپنی تہذیب کو دیکھنے اور پرکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تہذیب و ثقافت،روایات اور خیالات میں جدید سوچ لائی جائے تاکہ ہمارا سماج بہتر ہو اور اس کے تمام مسائل حل ہوجائیں۔

یاد رکھیں ہمیشہ کھلے ذہن سے بات سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں اپنی تہذیب پر فخر ہے اور اگر تنقید بھی کی جائے تو اسے باعث شرمندگی نہ سمجھا جائے۔ کوئی بھی تہذیب ہمیشہ کے لئے بہتر اور اعلی ارفع نہیں ہوتی۔ ہر تہذیب میں اچھی بری چیزیں ہوتی ہیں۔ وہ جو تنقید کرتے ہیں وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ اچھی روایات کو آگے بڑھاجائے اور ناقص روایات کو جدید دور کے تناظر میں بہتر کیا جائے۔ بحث و مباحثہ تہذیب و ثقافت کا ہمیشہ ایک مرکزی حصہ رہا ہے۔ ہندوستان میں اس حوالے سے یہ بحث و مباحثہ تین سو سالوں سے ہورہا ہے۔ اس debate کے دو بڑے بڑے کیمپ ہیں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو جدیدیت پسند کہلاتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو روایت پسند کہلاتے ہیں۔ جدیدیت پسند وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یورپ نے اپنا معاشی، سیاسی اور سماجی نظام نے تبدیل کیا جس کے نتیجے میں انہوں نے ترقی کی جبکہ ہم مسلمانوں نے اپنے آپ کو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل نہیں کیا جس کی وجہ سے ہم پیچھے رہ گئے۔

روایات پسند وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی روایات کو فراموش کرچکے ہیں،اگر وہ قدیمی روایات بحال ہوجائیں تو سنہری دور وآپس آسکتا ہے۔ جدیدیت پسندوں میں وہ دانشور اور لوگ شامل ہیں جو ڈیموکریٹس، سیکولر، لبرل،سوشلسٹ، ترقی پسند، مارکسٹ اور کمیونسٹ وغیرہ کہلاتے ہیں۔ اسلامک سسٹم اور سیکولر نظام کے حوالے سے جدیدیت پسندوں اور روایات پسندوں کے بحث و مباحثے کو معروضی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شریعت کیا ہے؟ جب شریعت کی بات کی جاتی ہے تو خدا کے قانون کی بات کی جاتی ہے، خدا کے احکامات کی بات کی جاتی ہے۔ خدا کے احکامات کو سمجھنے کے لئے ان کی تشریح کی جاتی ہے، تشریح کے بعد جب یہ احکامات قانون میں تبدیل ہوتے ہیں تو انہیں فقہ کہا جاتا ہے۔ سنی اسکول آف تھاٹ میں حنفی، مالکی، شافعی اور حمبلی سکولز ہیں اور اہل تشیع میں فقہ جعفریہ اسکول آف تھاٹ ہے۔ یہ پانچ بڑے اسکولز ہیں جو اسلامک اسکولز کہلاتے ہیں۔ جب مولوی، مذہبی اسکالرز، علما یہ بات کرتے ہیں کہ شریعت نافذ کی جائے تو ان کی مراد یہ پانچ اسکولز ہیں۔ شریعت کے یہ جو پانچ اسکولز ہیں یہ اسلامی انقلاب کے شروع کے دور میں قائم نہیں کئے گئے تھے۔ اسلامی انقلاب کے تین سے چار سو سال بعد ان پر غور و فکر شروع ہوا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2