ہیروز کی تلاش


پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہرسال تین دسمبر کو خصوصی افراد کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، آج راقم اسی حوالے سے آپ سے مخاطب ہوکر کچھ گوش گزار کرنا چاہتا ہے، تاکہ ہم خصوصی افراد کے حوالے سے کچھ نہ کچھ مثبت اور مفید کردار اداکرسکیں۔ معزز خواتین و حضرات! ہر قوم کے اپنے ہیروز ہوتے ہیں، جن کے نقش قدم پر چلنا، قوموں کا افتخار ہوا کرتا ہے، ان کی پیروی قوموں کو عظمت اور بلندیوں کی طرف لے جایاکرتی ہے، قوموں کی آن، ورثہ، تہذیبی نقوش اور سربلندی اپنے ہیروز کی قدر اور احترام میں مضمر ہے، جو قوم اپنے ہیروز کو فراموش کردیتی ہے، وہ صفحہ عزت و وقار سے فراموش کردی جاتی ہے۔

ہیروز کے ساتھ ایک نا انصافی یہ بھی ہے کہ جیتے جی ان کی خدمات کا اعتراف کم ہی کیا جاتا ہے، جب وہ موت کے اسپ سیاہ پر سوار ہوکر ابدیت کے سفر پر چل پڑتے ہیں، پھر احساس ہوتا ہے کہ وہ تو ہمارا ہیرو تھا، اس کے نام سے ایوارڈز جاری ہوتے ہیں، تعزیتی ریفرنس ہوتے ہیں، مقامات اس کے نام سے موسوم کیے جاتے ہیں، اس کی بیاد طرح طرح کے فلاحی منصوبہ جات جاری کیے جاتے ہیں، احمد ندیم قاسمی کو اللہ اعلیٰ علیّن میں جگہ دے، کیا خوب فرماگئے ہیں،

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں کے اعزاز کے ساتھ

میں آج آپ کی ملاقات ایک ایسے ہیرو سے کروانا چاہتا ہوں، یا تو ہمیں ہیرو بعد از وفات کتابوں میں ملتے ہیں یا پھر فلموں، ٹی وی ڈراموں، افسانوں وغیرہ میں نظر آتے ہیں، کیا ہم نے کبھی کوشش کی؟ کہ ہمارے معاشرے میں ہمارے اردگرد، جیتے جاگتے ہیروز موجود ہوں، جو معاشرے اور انسانیت کو بہت کچھ دے رہے ہوں، جن کی معاونت، پیروی، تعارف معاشرے کے حسن میں اضافے کا باعث ہے۔ آئیے تین دسمبر کے عالمی دن برائے خصوصی افراد کے تناظر میں کچھ ہیرو تلاش کرتے ہیں۔

اس کوشش میں مجھے سب سے پہلے ایک سانولے رنگ کا معمولی خدوخال والا نوجوان نظر آتا ہے، جس کا نام عبدالقدوس ہے، وہ برصغیر کی تاریخی درسگاہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور کے شعبہ خصوصی تعلیم میں رابطہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دے رہا ہے، اس نوجوان نے اپنی زیست کے شب و روز خصوصی تعلیم و خصوصی افراد کے نام کررکھے ہیں، عبدالقدوس کو میں نے جب بھی دیکھا کسی خاص فرد کی معیت میں دیکھا، پوچھا توپتہ چلا کہ محکمہ سماجی بہبود جارہے ہیں، اس دوست کا فلاں کام ہے، امتحان دینے جارہے ہیں، انٹرویو ہے، میڈیکل چیک اپ ہے وغیرہ وغیرہ۔

ابھی حال ہی میں اس نے ایشین پیسفک انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس ریسرچ، ایڈیلیڈ، آسٹریلیاکے تحت خصوصی افراد کے لیے منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں تحقیقی مقالہ پیش کیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں خصوصی افراد کے لیے خصوصی واش رومزموجود نہیں یعنی ان کی ساخت اس نوع کی نہیں کی وہیل چئیر پر موجود خصوصی افراد اپنی مدد آپ کے تحت ان واش رومز کو استعمال کرسکیں، اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ میں ایسا کوئی نظام نہیں کہ وہیل چئیر پر بیٹھا شخص اپنی مد د آپ کے تحت گاڑی میں سوار ہوسکے۔

پبلک ٹرانسپورٹ تو دور کی بات خصوصی افراد کے تعلیمی اداروں کے لیے مخصوص ٹرانسپورٹ میں بھی ایسا کوئی انتظام نہ ہے، حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں گاڑیوں میں سوار ہونے کے لیے خودکار ریمپ گاڑیوں میں موجود ہوتے ہیں، جن کی مد د سے خصوصی افراد خود ہی گاڑی میں سوار ہوسکتے ہیں اور اتر سکتے ہیں، اسی طرح ریلوے سٹیشنز پر بھی ایسا کوئی بندو بست نہ ہے کہ جس کی مدد سے خصوصی افراد کو سہولت کے ساتھ ٹرین میں سوار کرایا جاسکے۔ مثال کے طور پر گاڑی پلیٹ فارم نمبر چار پر لگی ہو، تو ایسے والدین کی بے بسی کا اندازہ کریں جن کی بیٹی کسی جسمانی معذوری میں مبتلا ہواور اسے اٹھاکر پلیٹ فارم نمبر چار پر لے جانا پڑے، بیٹے کو لے جانا بھی اتنا آسان نہیں لیکن وہاں آپ کسی سے بھی مدد لے سکتے ہیں لیکن جوان بیٹی کو کیسے کسی کی مدد سے اٹھا کر لے جایا جا سکتا ہے؟

میرے خیال میں اس تحقیق کو سراہے جانے سے زیادہ اپنائے جانے کی ضرورت ہے، اس حوالے سے حکومتی سطح اور مخیر حضرات کی سطح پر عملی کام کی ضرورت ہے۔ اسی رجل رشید کے ذریعے مجھے مزید کئی ہیروز سے شناسائی حاصل ہوئی، جگر مراد آبادی کے بقول: جو طوفانوں میں پلتے جارہے ہیں، وہی دنیا بدلتے جارہے ہیں۔ میری ملاقات ایک ایسے ہیرو سے ہوئی جس کا نام سلمان خالد ہے، سلمان خالد، لاہور کے متمول اور کاروباری گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ایک مہنگے مشنری سکول میں زیرتعلیم تھے، ایک دن دوران کھیل کچھ اس انداز میں گرے کہ اعصاب بصارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور وہ بینا سے نابینا ہوگئے۔

گھر والوں کے لیے قیامت تھی، مشورے ہونے لگے کہ اب پڑھائی لکھائی ختم، ان کے گھروالے اس بچے کے لیے زندگی کا محدود اور محصور تصور پیش کررہے تھے لیکن وہ بچہ کچھ کرنا چاہتا تھا اور اس نے کیا، میٹرک کے بعد وہ بچہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، میں آیا، اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد آفتاب سے ملاقات کی اور اس عظیم جامعہ میں خصوصی افراد کے لیے ایک علیحدہ سے شعبہ قائم کیے جانے کی خواہش کی، چنانچہ ان کی خواہش کو مانا گیا، اس بچے نے اپنے زرائع سے اس شعبے کے لیے عطیات جمع کیے۔

پندرہ طالب علموں سے اس شعبے کی بنیاد رکھی گئی، اس وقت 250 طالب علم ہر سیشن میں زیر تعلیم رہتے ہیں اور 2008 سے لے کر اب تک ہزاروں خصوصی طالب علم، معاشرے کے اہم ترین فرد بن کر معاشرے کی خدمت میں مصروف ہیں، خود سلمان خالد، انگریزی زبان و ادب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس میں مصروف ہیں، ان کی شریک حیات بھی بینائی سے محروم ہیں اور وہ بھی انگریزی زبان وادب کی استاد ہیں، سلمان خالد کو اقوام متحدہ کی طرف سے شمولیاتی نظام تعلیم کا عالمی سفیر بھی مقرر کیا گیا اور وہ جنوبی کوریا میں اس حوالے سے تربیت بھی کروا آئے ہیں۔

عبدالقدوس کے حوالے سے ہی میری ملاقات ایک ایسے نوجوان سے ہوئی جسے پاکستان کے سب سے پہلے نابینا سول جج کا اعزاز حاصل ہے، گذشتہ برس ایک روز وہ مجھے ملے تو خوشی سے نہال اور جوش سے بے حال تھے میں نے اس کا سبب پوچھا تو بتایا کہ ہمارا ایک نابینا طالبعلم، سول جج کے تحریری امتحان میں کامیاب ہوگیا ہے، بعد میں پتہ چلا کہ کہ پنجاب پبلک سروس کمشن نے اس بچے کا انٹرویو لینے سے انکار کردیا ہے کہ کیوں کہ بچہ نابینا ہے۔ عبدالقدوس پھر میرے پاس بھاگا بھاگا آیا کہ آپ کا تعلق میڈیا سے ہے آپ اس بارے میں آواز اٹھائیں، سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس حوالے سے کوئی بھی کردار ادا نہ کرسکا لیکن عبدالقدوس کے دوستوں نے پرنٹ، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس حوالے سے بھرپور آواز اٹھائی، جس کے نتیجے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب ثاقب نثار نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا۔

انہوں نے کمشن کو اس بچے کا انٹرویو لینے کا حکم دیا اور کہا کہ اس انٹرویو کی مکمل ریکارڈنگ کی جائے، یوسف سلیم انٹرویو میں کامیاب ٹھہرا اور آج وہ پاکستان کا پہلا نابینا سول جج ہے، اس حوالے سے مزید بھی بیان کرتا چلوں کہ یوسف سلیم، پاکستان کی پہلی نابینا سفیر صائمہ سلیم کے برادر اصغر ہیں، صائمہ سلیم نے عدم بینائی کے باوجود سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور آج کل وہ جنیوا میں اقوام متحدہ کے اہم مشن پر کام کررہی ہیں۔

ایک اور باہمت شخصیت سے ملاقات کی وجہ بھی عبدالقدوس ہیں، اس نوجوان کا نام وقاص احمد ہے، یہ بالا کوٹ سے تعلق رکھتے ہیں، جی سی یونیورسٹی لاہور سے ایم فل اردو کررہے ہیں، انہوں نے پچاس روپوں سے ایک فلاحی تنظیم پیس ٹو لائف کی بنیاد رکھی تھی، جس کے تحت آج کل لاہور میں ایک ایمبولینس، ایک فل ٹائم ڈسپنسری اور گوجرہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ میں دس مرلہ اراضی پر قائم خصوصی افراد کے لیے فنی تعلیم اور بحالی برائے خصوصی افراد کے مشن کے تحت ایک ادارہ کام کررہا ہے۔

ایک اور ساتھی ملے جن کا نام وقاص بشیر ہے، یہ بھی نابینا ہیں، انہوں نے بھی جی سی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، انہوں نے برٹش سول سروس کے امتحان میں ٹاپ کیا، کچھ عرصہ برطانوی حکومت کی وزارت خارجہ میں کام کیا، آج کل برطانیہ میں خارجہ امور کی مشاورتی فرم چلا رہے ہیں، یہ رچرڈ ہالبروک کی ٹیم میں شامل تھے، جس نے افغانستان کا آئین تیار کیا، گزشتہ ہفتے ان کے ہی توسط سے ہماری ملاقات ایک باہمت خاتون، صائمہ ناصر سے ہوئی، ان کی بیٹی سیرت جب دوسال کی ہوئی تو انہیں پتہ چلا کہ وہ تو پیدائشی طور پر گونگی اور بہری ہے۔

انہوں نے بجائے حالات سے سمجھوتہ کرنے، حالات سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا، انہوں نے سپیچ تھراپی اور دوسرے ضروری کورسز کی تعلیم حاصل کی، اب سیرت آٹھ سال کی ہے، وہ مخاطب کے ہونٹوں کی جنبش سے مطلب نکال لیتی ہے اور پھر ہکلا ہکلا کر اس کا جواب بھی دے سکتی ہے، صائمہ ناصر نے جو علم اپنی بیٹی کے لیے سیکھا اب وہ معاشرے کے دوسرے اس جیسے افراد تک منتقل کرنا چاہتی ہے، اس لیے اس نے اپنی بیٹی کے نام سے قصور میں ایک ادارہ قائم کیا ہے جہاں وہ یہ سب علوم سکھا رہی ہے۔

ایک نوجوان رحمت اللہ بھی ہے جو نابینا ہونے کے باجود پنجاب پبلک سروس کمشن کے ذریعے سے مقرر ہوکر محکمہ سماجی بہبود میں اعلیٰ انتظامی عہدے پر کام کررہا ہے، میرے دانشور دوست اقبال خان منج نے اپنی آنکھیں اس نوجوان کو عطیہ کررکھی ہیں، میں ازارہ تفنن اکثر رحمت اللہ سے کہتاہوں کہ یار ہمیں ابھی منج صاحب کی بہت ضرورت ہے یہ نہ ہوکہ آنکھیں ملنے کے شوق میں الٹی پلٹی دعائیں مانگتے رہو!

خواتین و حضرات ضرورت ہے کہ ہم خصوصی افراد اور ان کے لیے کام کرنے والوں کی ہرممکن معاونت کریں، ہماری معاونت انہیں معاشرے کے مفید اور فعال رکن بناسکتی ہے، ایسی کئی مثالیں ہیں، یہ مختصر ساکالم ان تمام مثالوں کا احاطہ نہیں کرسکتا، عبدالقدوس کے دوست چوہدری عبدالعزیز نے تو ایک ضخیم کتاب، ناممکن سے ممکن تک کا سفر میں ایسی کئی مثالیں باتفصیل درج کی ہیں۔ ہمیں ایسے افراد کا احساس کرنا چاہیے، احساس نہیں تو موت ہے، بقول ادریس بابر۔
موت کی پہلی علامت صاحب
یہی احساس کا مرجانا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).