مرغ باد نما اور مرغبانی کا خیالی منصوبہ!


پاکستانی وزیراعظم نے ملک کی معیشت کی بحالی اور قرضوں کی واپسی کا انڈے،مرغیوں اور کٹوں والا فارمولہ دیا تو انہیں شدت سے تمسخر اور تماشےکا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے جواب میں انہوں نے ولیم ہنری گیٹس کے ایسے ہی ایک منصوبے کا سرسری حوالہ دے کر تنقید کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں نو آبادیاتی ذہنیت کا غلام کہہ کر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ دراصل عمران خان اور ان کے حامیوں کا مسئلہ یہ ہےکہ وہ بغیر کسی مطالعے،غور و خوض اور منصوبہ بندی کے کوئی متنازع بیان داغ دیتے ہیں اور جب اس پر بھد اڑتی ہے تو یوٹرن لے کر نادم ہوتے ہیں۔ اب عمران خان نے انڈے مرغیوں والے بیان پر مائکرو سافٹ کے بانی اور دنیا کے امیرترین شخص بل گیٹس کے ایک متنازعہ، مبہم اور ادھورے منصوبے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر کے اپنی ساکھ اور بھی بگاڑ لی۔

ولیم ہنری گیٹس امریکہ(واشنگٹن) کا شہری ہے۔ مائکرو سافٹ ٹیکنالوجی کا بانی اور گذشتہ کئی برس سے دنیا کا امیر ترین آدمی چلا آ رہاہے۔ اسے صدارتی تمغہ آزادی، آرڈر آف دی برٹش ایمپائر، لیجین آف اونر، نائٹ کمانڈر آف دی آرڈرآف دی برٹش ایمپائر اور پدم بھوشن سمیت دنیا کے بے شمار اعزازات مل چکے ہیں۔ بے انتہا دولت و ثروت نے اس کی شخصیت میں قارونیت پیدا کرنے کے بجائے انسان دوستی،غریب پروری اور دردمندی جیسی صفات پیدا کیں اور اس نے اپنی دولت کا بیشتر حصہ دنیا سے غربت ختم کرنے کے لیے وقف کر لیا۔ اس حوالے سے اس نے خاص طور پر تیسری دنیا کے غریب اور پسماندہ ترین لوگوں کے لیے بے شمار فلاحی منصوبے شروع کر رکھے ہیں جن پر وہ ہر سال ایک خطیر رقم خرچ کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں بل گیٹس نے 2016 میں مستحق گھرانوں کو لائو سٹاک کا عطیہ فراہم کرنے والی فلاحی تنظیم گلوبل ڈویلپمنٹ گروپ ہیفر انٹرنیشنل سے معاہدہ کیا۔ اس منصوبے کا مقصد صحارا ممالک کے غریب خاندانوں کو فی گھرانہ 5 مرغیاں فراہم کر کے ان کی غربت کا خاتمہ کرنا تھا۔ ان مرغیوں کو بیماریوں سے بچاؤ کے انجیکشن بھی دیے جانے تھے۔

شمالی امریکہ کے ایک ملک بولیویا کے ایک وزیر کیسر کوکاریکو نے اس منصوبے پر شدید تنقید کی اور کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کے امرا ایسے کمزورمنصوبے اس لیے بناتے ہیں تاکہ غریب اور مفلس ملکوں کومفلسی کی دلدل میں مسلسل دھنسا کر رکھا جائے۔ اس کے علاوہ بی بی سی افریقہ کے بزنس ایڈیٹر میتھیو ڈیوس نے بھی سوال اٹھائے تھے کہ اس طرح غربت ختم کرنا ممکن نہیں کیونکہ مرغیوں کی تعداد بڑھنے سے خوراک کی فراہمی کا مسئلہ آئے گاجس کے لیے قابل کاشت رقبے کو چکن فیڈ کے لیے استعمال کرنا پڑے گا۔ پھرمارکیٹ میں اضافی چکن سے پولٹری کی قیمت میں کمی ہو گی۔ ڈھائی برس گزرنے کے باوجود تا حال یہ منصوبے ان ممالک خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکے۔

افریقہ کے ان دور افتادہ، پس ماندہ اور مفلوک الحال ممالک کے حالات کے تناظر میں تو شاید ایسے منصوبے کسی حد تک کارآمد ہو بھی سکتے ہیں مگر پاکستان جیسے ایٹمی اور زرعی ملک کے لیے اس سے کہیں زیادہ اور قابل عمل و ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ دوسرا وہ منصوبہ کسی ایٹمی طاقت کے وزیراعظم نے نہیں ایک فلاحی تنظیم کے سربراہ نے دیا تھا۔ مغربی اور یورپی ملک وقت کے حالات کے مطابق چلتے ہیں یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔ بل گیٹس نے خود اپنی ترقی اور اپنے ملک کی معاشی ترقی کے لیے مرغیاں پالنے اور انڈے بیچنے کا کوئی پروگرام اس لیے نہیں بنایا کہ وہاں اس کا مذاق اڑایا جاتا۔

ہمارے وزیراعظم جب بھی فی البدیہ تقریر کے نام پر انٹ شنٹ کہتے ہیں بعد میں ان کو اور ان کی پارٹی کو نادم ہونا پڑتا ہے۔ انہیں معلوم نہیں کب یقین آئے گا کہ وہ اپوزیشن میں نہیں بلکہ اب ملک کے وزیراعظم ہیں۔ انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ ہماری معاشی حالت میں بہتری اس طرح کے خام اور بے معنی منصوبوں سے نہیں سنور سکتی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی اناڑی ڈاکٹر کینسر کا علاج ڈسپرن سے کرے۔ جب ٹھوس حکمت عملی اور قابل عمل منصوبہ بندی کے بغیردیرینہ مسائل کے حل کے لیے اس طرح کی بچگانہ اور طفلانہ تجاویز دی جائیں گی تو اس کا ردعمل ایسا ہی آئے گا۔ اہل وطن منتظر ہیں کہ “مرغ باد نما”کا مرغبانی کا مجوزہ بھی نہیں خیالی منصوبہ کب تک کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).