نیا پاکستان، دیسی انڈے اور انقلابی نوجوان


تبدیلی چاہے انقلاب ہو یا پھر آذادی کی صورت میں، نوجوانوں کی بھر پور حمایت اور انتھک کاوشوں کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔ تبدیلی کے پیچھے جہان مفکرین کا نظریہ، مبصرین کی بصیرت اور سیاسی لیڈروں کی رہنمائی کارفرما ہوتی ہے تو نوجوانوں کا جوش و جزبہ اور تبدیلی کی خواہش ہی تبدیلی کی تحریک کو تقویت بخشتی ہے۔ تحریک پاکستان میں بھی نوجوانوں بالخصوص طلباء نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیے تھے۔ مگر بدقسمتی سے آزادی کے بعد روایتی سیاستدانوں نے نوجوانوں کو سیاست سے دور رکھے یہاں تک کہ عمران کی شکل میں نوجوانوں کو ایک انقلابی قیادت نصیب ہوئی، جس نے تبدیلی کے لیے نیا پاکستان کا پراجیکٹ لانچ کیا۔ جس کا مقصد مملکت خداداد کو کرپٹ و جاہل سیاستدانوں کے چنگل سے آزاد کروا کر نوجوان قیادت کے سپرد کرنا تھا جو ملک کو کامیابی و کامرانی کی عروج تک پہنچا سکیں۔

تبدیلی کا یہ کھٹن سفر بظاہر ناممکن دیکھائی دیتا تھا مگر خان صاحب کی ڈکشنری میں ناممکن نام کا کوئی لفظ تھا ہی نہیں جو ان کے ولولے کو پست کر سکیں۔ خان صاحب چونکہ انقلاب کا سفر نوجوانوں کے سنگ طے کرنا چاہتے تھے لہٰذا نوجوان ہی تبدیلی کی سپاہی ٹھہرے۔ دور حاضر کے تقاضوں سے بخوبی واقف رہنما نے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو تبدیلی کے پروجیکٹ میں بروئے کار لانے کا فیصلہ کر دیا۔ لہٰذا ٹیکنالوجی بشول لیپ ٹاپس اور سمارٹ فونز نوجوانوں کے ہتھیار طے پائے جبکہ سوشل میڈیا میدان جنگ۔ چونکہ تبدیلی کا سفر کھٹن تھی اور وقت کم۔ لہٰذا انقلابیوں کے لیے فاسٹ فورڈز بشول برگرز اور انرجی ڈرنکز خوراک اور جدید دور کے ٹامی سٹائل کے جینز لباس متعین کیے گئے۔ یوں نیا پاکستان کے معمار کندھوں پر شولڈر بیگ، ایک ہاتھ میں سمارٹ فونز اور دوسرے ہاتھ میں برگر لیے صوفے پر ٹیک لگائے سوشل میڈیا پر تبدیلی کی پروجیکٹ پر لگ گئے۔

چونکہ لیڈر کا نظریہ کامل، نیت صاف اور حوصلہ بلند تھا، لہٰذا انقلابیوں کو اِدھر اُدھر دیکھنے حتیٰ کہ پڑھنے کی بھی ضرورت محسوس نہ ہوئیں۔ بس منزل تھی اور لگن۔ انقلابیوں نے سوشل میڈیا اور خان صاحب نے جلسوں میں عوام کو وہ شعور دیے کہ ڈاکو سیاستدانوں کے سارے کرتوت ایکسپوز ہو گئے۔ نتیجہ 2013 میں انقلاب کی صورت میں آنے ہی والا تھا کہ ہمیشہ کی طرح دھاندلی کے ذریعے انقلاب کو روک دیا گیا۔

اگرچہ یہ لمحہ بہت کھٹن تھا جو کسی فولادی تحریک کو بھی توڑنے کے لیے کافی تھا مگر خان صاحب کی قیادت میں انقلاب کی تحریک فولاد سے بھی زیادہ مضبوط ثابت ہوئی۔ یوں تحریک پہلے سے بھی زور و شور سے جاری رہی۔ تحریک کو دبانے کے لیے پٹواریوں نے ہر ممکن کوشش کی مگر خان کی قیادت میں انقلابیوں نے ان کی ہر چال کو ناکام بنا دیے۔ اس بار پٹواریوں کے پروپیگنڈوں کو جواب دینے کے لیے انقلابیوں نے فوٹو شاپ کے میدان میں بھی اپنی مہارتوں کا خوب استعمال کیا۔ دن رات انقلاب کی کاوشیں زور و شور سے اس طرح جاری رہیں کہ انقلاب روس نے بھی انقلابیوں کو سرخ سلام پیش کیا ہو گا۔ نتیجہ اخرکار 25 جولائی کو نیا پاکستان کے صورت میں ملا اور یوں 22 برس کی جہد مسلسل کے بعد خان صاحب مملکت خداد کے 22 ویں وزیراعظم منتخب ہوئے۔

نیا پاکستان بنانے کے بعد انقلابی حکومت نے معیشت، صحت، تعلیم اور امن و امان سمیت ہر میدان میں انقلابی اقدامات شروع کیے۔ ابتدائی 100 دن کی انتھک محنت کے بعد حکومت کے سامنے یہ بات واضح ہو گئی کہ نیا پاکستان چونکہ نوجوانوں نے بنایا ہیں لہٰذا نیا پاکستان کو وہی نوجوان اگے لے کے جائیں گے۔ اس لیے ان انقلابی نوجوانوں بالخصوص ان کی صحت پر خاص توجہ دی جائے گی۔

نیا پاکستان بنانے کی جدوجہد کے دوران انقلابیوں کو اتنا وقت ہی نہیں ملا کہ وہ اپنی صحت پر توجہ دے سکیں۔ وقت بچانے کے چکر میں برگر و کولڈ ڈرنکس اور سمارٹ فونز کے زیادہ استعمال کرنے سے انقلابیوں کی صحت پر اثر پڑا ہے۔ انقلابیوں کی صلاحیتوں کو پھر سے بروئے کار لانے کے لیے ان کی صحت پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وزیراعظم صاحب نے دیسی انڈوں اور مرغوں کا پروجیکٹ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس سے عوام بالخصوص انقلابیوں کو دیسی انڈے اور دیسی مرغی کا گوشت دستیاب ہوں گے۔ علاوہ ازیں اسی پروجیکٹ کے ذریعے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر ہوں گے۔ انقلابی نوجوان اپنی انقلابی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دیسی انڈوں سے ڈھیر سارے مرغی کے بچے نکالیں گے اور پھر یہی ڈھیر سارے مرغی کے بچے ڈھیروں دیسی انڈے دیں گے۔ یوں نیا پاکستان کے انقلابی پوری دنیا میں دیسی مرغیوں کی صنعت میں انقلاب لائیں گے۔ اسی طرح مملکت نہ صرف معاشی لحاظ سے خود کفیل ہو گی بلکہ دنیا کی معاشی پاور بھی بن جائے گی۔ انقلابی سرکار کے پاس اسی طرح کے اور بھی بہت سارے پروجیکٹس ہیں جن میں خان صاحب کے پسندیدہ پشاوری چپل اور چترالی ٹوپی کی صنعت کو پوری دنیا میں متعارف کرانے تک سب شامل ہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق خیمے والی برقوں پر بھی سرمایہ کاری کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ یہ سارے انقلابی اقدامات انقلابی نوجوانوں سے اور انہی کے ذریعے شروع کئے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).