روپے کو ایک اور بڑا جھٹکا لگے ہی لگے!


کئی برسوں سے عمران خان صاحب کی بطور ایک دیدہ ور سیاست دان مارکیٹنگ کرنے والے بہت شدت وتواتر کے ساتھ ہمیں یہ بتاتے رہے کہ ذاتی طورپر بہت ایماندار ہونے کے علاوہ وہ منہ پھٹ ہونے کی حد تک صاف گو بھی ہیں۔ وہ حکومت میں آگئے تو سرکاری پالیسیاں شفاف فیصلہ سازی کے عمل کے ذریعے بنائی جائیں گی۔

عوام کو سبز باغ دکھاکرگمراہ نہیں کیا جائے گا۔ سخت فیصلے اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو حکومت ان کی وجوہات بتاتے ہوئے ذمہ داری اپنے سرلے گی۔ کسی اور کو ان فیصلوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔

گزشتہ جمعہ کی صبح کاروبار شروع ہوتے ہی پاکستانی روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں ’’اچانک‘‘ تیزی سے گرنا شروع ہوگئی۔چند ہی لمحوں میں مارکیٹ کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ ایک ہی دن میں معاملہ شاید 145سے 150روپے کے درمیان جاکر رُکے گا۔

خوف وہراس کے ان لمحات میں وزیر خزانہ اسد عمر خاموشی کی چادر اوڑھ کر کسی کونے میں دبک کر بیٹھے رہے۔ عوام کو تسلی دینے کے لئے کراچی سے ابھرے فیصل واڈا صاحب نے ایک بیان جاری کیا۔ کپتان نے انہیں پانی کا وزیر بنارکھا ہے۔ اپنی وزارت سنبھالنے کے علاوہ مگر وہ ہتھیار بند ہوکر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے سڑکوں پر بھی نکل آتے ہیں۔اگرچہ تعلق ان کا امن پسند کاروباری کمیونٹی سے ہے۔

اپنے بیان کے ذریعے انہوں نے یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی کہ حکومت کے سازشی مخالفین نے روپے کی قدر گرائی ہے۔ جلد ہی اسے سنبھال لیا جائے گا۔

واڈا صاحب کے مذکورہ بیان کے بعد تحریک انصاف کے انٹرنیٹ فدائین سوشل میڈیا پر غول کی صورت یہ دہائی مچانے لگے کہ کھلی مارکیٹ میں کرنسی کا دھندا کرنے والوں نے کوئی گھنائونا چکر چلاکر پاکستانی روپے کو بے قدر بنایا ہے۔کرنسی ڈیلروں کو دوش دینے کا سلسلہ جمعہ کی رات بھی ہمارے آزاد و بے باک میڈیا کے ٹاک شوز میں جاری رہا۔

کرنسی ڈیلروں کو جمعہ کے روز ہوئے ’’حادثے‘‘ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کسی ایک صاحب نظر صحافی نے عوام کو یہ بتانے کی جرأت نہیں دکھائی کہ پاکستان میں اوسطاََ کھلی مارکیٹ میں کتنے امریکی ڈالر خریدے اور بیچے جاتے ہیں۔عموماََ یہ قصہ تقریباََ ایک کروڑ ڈالر تک محدود رہتا ہے۔

گزشتہ جمعہ کے روز لیکن معاملہ 20لاکھ ڈالر تک ہی محدود رہا تھا۔ اوسط کے تقریباََ پانچویں حصے کا لین دین روپے کی قدر کا تعین نہیں کرسکتا تھا۔ ذمہ دار اس ضمن میں یقینا حکومت پاکستان ہی تھی۔ بالآخر اس نے مداخلت کی۔ شام ہونے تک ایک ڈالر 138پاکستانی روپے کے عوض فروخت ہونے لگا اور یہ حکومتی مداخلت کے بعد ہوا۔

میں یا میرا دور پرے کا کوئی رشتے دار یا جان پہچان والا کرنسی کے کاروبار سے وابستہ نہیں۔ معاشی امور کے بارے میں علم میرا بہت ناقص ہے۔ ان باتوں کے اعتراف کے باوجود بہت اعتماد سے اس کالم کے ذریعے میں آج یہ دعوی کر رہا ہوں کہ جنوری کے دوسرے ہفتے میں IMF سے رجوع کرنے سے قبل حکومتِ پاکستان ہمارے روپے کی قدر کو ایک اور بڑا جھٹکا دے گی۔

IMF سے 6 سے 8ارب ڈالر کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر ایک ڈالر کے مقابلے میں 145تک لائی جائے۔ ایسا نہ ہوا تو IMF سے ایک دھیلا بھی نہیں ملے گا۔

ریاست کے معاشی اور مالیاتی مسائل کی تھوڑی بہت شدید رکھنے والوں کو عام انتخابات سے قبل قائم ہوئی نگران حکومت کی تیار کردہ ایک رپورٹ آنے کے بعد ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ جولائی 2018کے بعد آئی حکومت کو پاکستان کے مالیاتی بحران پر قابو پانے کے لئے ہر صورت IMFسے رجوع کرنا ہوگا۔

امریکی وزیر خارجہ نے عمران خان صاحب کی حکومت بنتے ہی اس ضمن میں شک کی گنجائش باقی رہنے نہ دی۔ایک انٹرویو میں واضح الفاظ میں اعلان کردیا کہ پاکستان جب IMFسے مدد لینے آئے گا تو اسے CPECکے تحت چلائے منصوبوں کا حساب بھی دینا ہوگا۔

امریکہ کے Tax Dollarsوہ ’’چینی قرضوں کی ادائیگی‘‘ کے لئے پاکستان کو دینے کے لئے تیار نظر نہیں آیا۔ امریکی وزیر خارجہ کا بیان حیران کن تھا۔ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے سے قبل عمران خان صاحب کئی برسوں سے کہتے چلے آئے تھے کہ وہ پاکستان کے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے IMFسے کوئی مدد طلب کرنے پر خودکشی کوترجیح دیں گے۔

ہمیں گمان تھا کہ شاید وہ IMFسے رجوع ہی نہ کریں۔امریکی وزیر خارجہ کو مگر نجانے کیوں پورا یقین تھا کہ عمران حکومت ہر صورت IMFکے دروازے پر کشکول اٹھائے دستک دے گی۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے چند روز بعد ہی وزیر اعظم بھی احساس ہوگیا تھا کہ IMFسے رجوع کئے بغیر کوئی راستہ موجود نہیں۔

معاشی ماہرین پر مشتمل انہوں نے ایک مشاورتی بورڈ بنارکھا ہے۔اس کے پہلے اجلاس میں ڈاکٹر اشفاق حسن خان واحد شخص تھے جو IMFسے رجوع کرنے کی مخالفت کرتے رہے۔ بورڈ کے کسی اور رکن نے اس ضمن میں ان کا ساتھ نہیں دیا۔

وزیر اعظم اکثریتی رائے کے سامنے بے بس ہوئے نظر آئے۔ ان کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے اشفاق حسن خان نے بلند آواز میں وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ IMFسے رجوع کرنے کے بعد وہ بھول جائیں کہ تحریک انصاف 2023ء کا انتخاب بھی جیت سکے گی۔ IMF سے قرضہ لیا تو غریبوں کے لئے لاکھوں کی تعداد میں مکانات بھی تعمیر نہیں ہو پائیں گے۔ ایک کروڑ نوکریوں کا بندوبست بھی نہیں ہوگا۔

اسد عمر وزیر اعظم کو اشفاق حسن خان کی بتائی باتوں کی وجہ سے نظر آتی بے بسی سے پریشان ہو گئے۔ ان کی کاوشوں سے چند ہفتوں کے بعد معاشی ماہرین پر مشتمل بورڈ کا ایک اور اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں شرکت کے لئے ڈاکٹر حفیظ پاشا اور کاردار صاحب کو بھی خصوصی طورپر مدعو کیا گیا۔

اس اجلاس میں بھی اشفاق حسن خان کے علاوہ ہر شخص نے IMF سے رجوع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مختصر الفاظ میں یہ کہہ لیجئے کہ فیصلہ ہوگیا۔ IMF سے رجوع کریں تو وہ پاکستان سے سنجیدہ مذاکرات کا آغاز ہوتے ہی شدت سے تقاضہ کرتا ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر کم کی جائے اور بجلی اور گیس کی قیمتوں کو بڑھایا جائے۔

اسد عمر کی چالاکی یہ ہے کہ IMF کی جانب سے متوقع تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہوں نے ان دونوں کی قیمتیں ’’ازخود‘‘بڑھا دی ہیں۔ پاکستانی روپے کی قدر کو بھی آج سے چند ہفتے قبل ڈالر کے مقابلے میں دس روپے کم کیا گیا تھا۔ گزشتہ جمعہ مزید “Correction” ہوگئی ہے۔ جنوری 2019 سے قبل ایسی ایک اور قسط آئے گی۔

عمران حکومت کے معاشی ارسطو یہ دعویٰ کریں گے کہ نام نہاد Fundamentals نے روپے کی قدر میں کمی کی ہے۔ یہ واقعہ حکومت پاکستان کا IMF سے رجوع کرنے کی وجہ سے نہیں ہوا۔ یہ دعویٰ فقط جھوٹ پر مبنی ہوگا اور عمران خان صاحب کی قیادت میں قائم ہوئی حکومت سے ایسے جھوٹ کی توقع نہیں تھی۔

شاعر مگر کہہ چکا ہے کہ ’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘ اور فارسی کا وہ محاورہ بھی جو نمک کی کان میں جانے کے بعد ہر شخص کے نمک ہو جانے کی حقیقت بیان کرتا ہے۔ بے تحاشہ آبادی اور کم تر وسائل والے ملکوں میں حکومت فارسی محاورے والی کانِ نمک ہی ہوتی ہے۔

ہم ہوئے تم ہوئے یا میرؔ اس میں گھسنے کے بعد ’’نمک‘‘ ہونے سے بچ نہیں سکتے اور استثنیٰ اس ضمن میں ذاتی طور پر انتہائی ایمان داری اور ہمیشہ سچ بولے کے دعوے دار عمران خان کے نصیب میں بھی نہیں ہے۔

خدا را ٹھوس حقائق کا اعتراف کیجئے۔ فیصل واڈا کی سلطان راہی جیسی حرکات اس ضمن میں کام نہیں آئیں گی۔ گورنر ہائوس لاہور کی دیوار گراکر بھی پاکستانی روپے کی موجودہ قدر برقرار نہیں رکھی جا سکے گی۔

اس حکومت کی فراہم کردہ مرغیاں جب تک انڈے دینا شروع کریں گی پاکستانی روپے کی قدر ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں کم از کم 145کی سطح تک گر چکی ہوگی۔ پاکستان میں دئیے انڈوں کی قیمت ویسے بھی ہمارے بازاروں میں ڈالر میں نہیں روپے ہی میں وصول ہوگی۔

اب تو یہ انڈے افغانستان میں بھی نہیں بکیں گے جہاں پولٹری کے کاروبار پر بھارت نے اپنا اجارہ مستحکم کرلیا ہے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).