تجاوزات کے خلاف آپریشن: خدشات اور گذارشات


یوں تو تجاوزات کے خلاف آپریشن ملک کے مختلف حصوں میں ہونا تھا مگر ان کارروائیوں کی شدت پنجاب اور سندھ کے بڑے شہر کراچی میں کچھ زیادہ نظر آرہی ہیں۔ کراچی کی تاریخی عمارات کے ارد گرد تجاوزات ہٹانے کے عمل کے عمل کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ ناقابل یقین بات یہ ہوئی کہ کوئی خاص مزاحمت بھی نظر نہیں آئی۔ ایمپریس مارکیٹ کے آس پاس ڈیڑہ سو کے لگ بھگ دکانیں گرائی گئیں اور کوئی ردعمل نظر نہیں آیا، جبکہ اس شہر کے ماضی پر نظر ڈالیں تو اس میں کئی جانیں جاسکتی تھیں۔

شہر کے کاروباری مرکز صدر کے آس پاس کی گلیوں سے تجاوزات ہٹانے کے لئے بلڈوزرس نکلے تو ناجائز قرار دی گئے دکانوں کے مالکان نے خود ہی سامان نکال کر گویا آپریشن پر رضامندی ظاہر کردی۔ آپریشن کے بعد کراچی کے میئر نے علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد جس فاتحانہ انداز میں آپریشن کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی اس سے بھی کئی سوالات جنم لے رہے تھے، کیونکہ اس بات کو بھی کوئی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ کراچی میں پاکستان کوارٹرز خالی کرانے کی کوشش پر سخت مزاحمت نظر آئی اور میئر کراچی کی جماعت متحدہ پاکستان کے رہنماؤں نے علاقہ مکینوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئی کاررائیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا اور متنبہ کیا کہ آئندہ ایسی کوشش ہوئی تو سخت مزاحمت کی جائے گی۔

ویسے تو شہر کے ننانوے فیصد علاقوں میں تجاوزات کو ہاتھ نہیں لگایا گیا، مختلف اوقات میں نمائشی آپریشنس کے باوجود کئی علاقوں میں تجاوزات منہ چڑاتی نظر آرہی ہیں مگر اب لگتا ہے کہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، کیونکہ ان کا رخ رہائشی علاقوں کی طرف اس انداز میں موڑا گیا ہے کہ کہیں نہ کہیں سے مزاحمت کا پہلو نکل آئے اور تجاوزات کے خلاف آپریشن کو نفرت کی سیاست کا ایندھن بنایا جاسکے۔

ایک طرف توچائنا کٹنگ کے ذریعے پارکس اور دیگر رفاہی پلاٹس پر بنائے گئے گھروں سمیت کئی ناجائز تجاوزات کو ہاتھ نہیں لگایا گیا جبکہ دوسری جانب ایسے علاقوں کو غیرقانونی قرار دے کر گرائے جانی کی تیاری کی جارہی ہے، جن کو حکومت نے باقاعدہ لیز دی ہوئی ہے۔ مختلف علاقوں میں کثیرالمنزلہ عمارات کی بالائی منزلیں گرانے کے بھی شوشے چھوڑے جارہے ہیں جس سے شہریوں میں بے چینی پھیل گئی ہے، کیونکہ جن لوگوں نے عمر بھر کی کمائی سے ایک چھت بنائی ہے اور وہ بھی چھن جانے کا خدشہ ہے تو ان کی پریشانی جائز ہے۔

اس گو مہ گو کی کیفیت میں بلڈرز اور بروکرز نے افواہوں کا ایک طوفان برپا کر دیا ہے، مختلف علاقوں میں گھر مسمار ہونے کی جھوٹی خبریں پھیلا کر لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ان کی املاک اونے پونے خریدنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور شہریوں کو کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ ان افواہوں میں کتنی صداقت ہے۔

تجاوزات کے خلاف آپریشن بلاشبہ ایک مستحسن قدم ہے جس سے شہریوں کی غالب اکثریت خوش ہے مگر ان کے اذہان میں کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات دینا بے حد ضروری ہے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ ان کارروائیوں کی شفافیت کیا ہوگی اور ان کو کون مانیٹر کررہا ہے؟ کیونکہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ تجاوزات کے نام پر کسی کی بھی جائز املاک کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے اور کسی سیاسی یا ادارتی دباؤ سے کسی ناجائز قابض سے رعایت نہیں ہونی چاہیے۔

دوسری بات کہ جن علاقوں میں کارروائیاں ہو رہی ہیں ان لوگوں کی بحالی کا کوئی منصوبہ بھی زیرِ غور ہے یا نہیں؟ کیونکہ متاثرہ افراد کی بحالی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے بہ صورتِ دیگر ایسے لوگ بے سروسامانی کی حالت میں میں کسی بھی منفی سرگرمی کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں۔

تیسری بات جو کہ بہت ضروری ہے کہ ان کارروائیوں کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش سے بچانے کے لئے کوئی حکمت عملی بھی بنائی گئی ہے یا نہیں؟ کیونکہ پیپلز پارٹی کے بعد ایم کیو ایم پاکستان نے بھی متاثرہ لوگوں کے حق میں آواز اٹھانے کا اعلان کردیا ہے۔ اگر ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو ان کارروائیوں کے نتیجے میں نفرت کی ایک نئی آگ بھڑک سکتی ہے؟

میرے خیال میں اگرکہیں قبضہ ہوا یا تجاوزات بنائے گئے تو اس وقت شہری انتظامیہ اور حکومت کیوں خاموش تھی، اگر انہوں نے کچھ نہیں کیا تو وہ بھی برابر کے ذمیوار ہیں۔ اگر کسی علاقے کو لیز دی گئی تھی تو اس کو ناجائز کیسے سمجھا جائے گا؟ بالفرض اس جگہ کی لیز قانونی طور پر درست نہیں تھی تو اس دور کے حکمرانوں کو قانون کی پکڑ میں لایا جائے اور متاثرین کو معاوضہ دیا جائے۔ اگر کسی علاقے میں کثیر المنزلہ عمارت بنی ہے تو اس کی اجازت کس نے دی؟ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی یا پولیس کیوں سوئی ہوئی تھی؟ اگر ایس بی سی اے نے ان عمارات کے نقشے پاس کیے تو ان کے افسران کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہیے، اگران کی رضامندی سے عمارت بنی تو اس کے مالک/ لیز یافتہ اور بلڈر سے متاثرین کو معاوضہ دلایا جائے۔

ایک آخری بات جس کا رکارڈ پر رہنا ضروری ہے وہ یہ کہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں تاریخی پکا قلعہ کے اندر گھر آباد ہیں، جن کی سیوریج کے پانی سے اس تاریخی مقام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ میرے خیال میں تاریخی عمارات کے ساتھ ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا، اس قلعہ کو خالی کرانے کے لئے ماضی میں جو کچھ ہوا وہ بہت غلط ہوا، اب افہام و تفہیم سے اس مسئلے کو حل نکالا جائے۔ کیونکہ سندھ میں آباد لوگ زبان کی بنیاد پر مزید نفرت کے متحمل نہیں ہو سکتے، اس لیے وہاں پرآباد لوگوں کو متبادل گھر فراہم کر کے ماضی کے تالپور حکمرانوں کے بنائے ہوئے اس قلعہ کی تاریخی اہمیت بحال کی جائے۔ یہ سب کا مشترکہ ورثہ ہے اس کی اہمیت بھی سب کے لئے یکساں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).