حکمران بھاگ دوڑ کر تو رہے ہیں


اتفاق سے ایک بندر جنگل کا بادشاہ بن گیا جنگل کے تمام جانور دن رات اس کی خدمت پر مامور رہتے تازہ پھلوں سے بادشاہ سلامت کی سیوا کی جاتی، کئی جانور تو بادشاہ سلامت کی مالش پر مامور تھے، بادشاہ سلامت زیادہ دیر سوئے رہتے ترنگ میں آتے تو درختوں کی ٹہنیوں پر لٹکنا شروع کر دیتے اقتدار ملنے کے بعد بادشاہ سلامت ابھی تک کسی آزمائش میں نہیں پڑے تھے۔

ہوا کچھ یوں کہ ایک روز بادشاہ سلامت دھوپ سینک رہے تھے کہ ہانپتی کانپتی خرگوشنی دربار میں پیش ہوئی بادشاہ نے رعب سے پوچھا بتایا جائے کیوں حاضری دی؟ خرگوشنی روتے ہوئے مدعا بیان کیا کہ حضور سلامت رہیں میرے خاوند یعنی خرگوش کو قریبی جنگل کا بھیڑیا اُٹھا کر لے گیا بادشاہ سلامت نے یہ سننا تھا کہ درختوں کی ٹہنیوں پھلانگنا شروع کر دی کبھی ایک درخت سے دوسرے پر اور دوسرے سے تیسرے پر، بولے کہ تم جاؤ سب ٹھیک ہو گا گبھرانا مت مشکل وقت ہے گزر جائے گا، تھوڑی دیر بعد خرگوشنی پھر بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضر ہوئی اور روتے ہوئے بولی حضور بھیڑیا نے تو میرے میاں کو چٹ کر دیا بادشاہ سلامت بولے کہ میری ساری بھاگ دوڑ تو اپ کے میاں کو بچانے کے لیے تھی۔

مملکت خداداد پاکستان میں بھی آج کل کچھ ایسی ہی صورتحال ہے، عوام التجاء کر رہے ہیں کہ بھوک سے نڈھال ہیں، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا نہیں، جواب ملتا ہے حوصلہ رکھیں گورنر ہاوس کی دیواریں گرائی جا رہی ہیں، روزگار نہیں مل رہا، سر چھپانے کے لیے چھت نہیں، دکانیں اور مکانات ناجائز تجاوزات ڈکلیئر کر کے گرائی جا رہی ہیں برسرِ روزگار کو بے روزگار کیا جا رہا ہے۔ بوڑھی بیمار ماں کے لیے دوا نہیں۔ جواب ملتا ہے مری گورنر ہاؤس کو عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے بچوں کے لیے فیس نہیں جواب ملتا ہے مشکل وقت ہے گزر جائے گا بھاگ دوڑ جاری ہے صبر کریں۔

پرلے روز ایک بوڑھی ماں دانش کی باتیں کر رہی تھی بتا رہی تھی کہ بیٹا میرے بچوں نے مجبور کیا کہ اب کی بار عمران کو ووٹ دیں تبدیلی آئے گی ملک کے حالات سدھریں گے آس پرووٹ دیا اب پرلے درجے کی ذلالت کاٹ رہے ہیں۔ مہنگائی نے کچومر نکال دیا، گیس، بجلی مہنگی کر دی گئی سوال کیا جائے حکمرانوں سے تو جواب ملتا ہے چوروں کو پکڑ کے جیل میں ڈال دوں گا بھلا ان کو جیل میں ڈالنے سے عوام کو کیا فائدہ ہو گا ملک کے مفاد یہ ہے کہ ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے اب تک حکومت کی طرف سے جتنے بھی اقدامات اُٹھائے گئے سب کا نتیجہ صفر، کوئی ایسا قدم نہیں جو عوامی مفاد میں ہو۔

کہا گیا تھا کہ میرٹ پر کام ہو گا ابھی پرلے روز خبر ملی کہ پی ٹی وی ورلڈ کا ایک ایسے بندے کو سربراہی سونپی گئی جسے پچھلی حکومت میں ایگزیکٹو پروڈیوسر سے تنزلی کر کے پروڈیوسر لگا دیا گیا کہ وہ اہلیت نہیں رکھتا تھا۔ الزام لگایا جا رہا ہے کہ اب سربراہی اس لیے دی گئی کہ اینکر فریحہ ادریس کا شوہر ہے۔ مضحکہ خیز دعویٰ، پھر اس پر یوٹرن، پھر کہنا کہ دنیا میں جتنی بھی عظیم شخصیات گزری ہیں انھوں نے یوٹرن ہی تو لیا تھا۔

اکانومی تباہ حال ہو گئی پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے پچھلی حکومتوں نے ملک کو لوٹا ہے بھئی آپ نے کوئی تدبیر تو بنائی ہو گی کہ ملک کو بھنور سے کیسے نکالا جائے، ترجمان حکومت روز عوام کو خوشخبری سناتے ہیں کہ چوروں کا پیچھا کریں نہیں چھوڑیں گے ابھی تک جاگتی آنکھوں سے کچھ دیکھا نہیں، صرف کانوں سے سنتے ہیں سلطان راہی کے ڈائلاگ کی طرح، بس بھاگ دوڑ جاری ہے عوام کے آنسو خشک ہو گئے۔ دہائی دے رہی ہے اور حکمران کہہ رہے ہیں صبر کریں بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui