موسمیاتی تبدیلی ’ایک بہت بڑا خطرہ ہے، تہذیبیں تباہ ہو سکتی ہیں‘
فطرت اور ماحولیات پر پروگرام کرنے والے دنیا کے مشہور براڈکاسٹر سر ڈیوڈ ایٹنبرا نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ہزاروں سال میں دنیا کو درپیش ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
انھوں نے تنبیہ کی کہ اس کی وجہ سے تہذیبیں تباہ اور زیادہ تر قدرتی دنیا فنا ہو سکتی ہے۔
وہ پولینڈ کے شہر کاٹوویس میں اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی ہونے والی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
2015 میں ہونے والے پیرس معاہدے کے بعد سے پولینڈ کے شہر کاٹوویس میں ہونے والا یہ اجلاس سب سے اہم ہے۔
سر ڈیوڈ نے کہا کہ ’اس وقت ہمیں انسان کے بنائے ہوئے عالمی درجے کے بحران کا سامنا ہے۔ ہزاروں سالوں میں ہمیں سب سے بڑا خطرہ موسمیاتی تبدیلی سے ہے۔‘
’اگر ہم نے ایکشن نہ لیا تو ہماری تہذیب اور کافی زیادہ قدرتی دنیا فنا کے دہانے پہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دنیا کے لوگوں نے کہہ دیا ہے۔ پیغام بہت صاف ہے۔ وقت تیزی سے گذر رہا ہے۔ وہ آپ جیسے فیصلہ سازوں کے انتظار میں ہیں کہ اب عمل کریں۔‘
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گتریس نے کہا کہ کئی ممالک کے لیے پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ دنیا کم کاربن والی معیشت کی طرف منتقلی کے کہیں قریب بھی نہیں پہنچی جہاں ہمیں ہونا چاہیئے تھا۔
اس سے قبل پولینڈ میں ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں کانفرنس کے آغاز پر ماحولیاتی تپش کو روکنے کے لیے سرگرم چار سرکردہ ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ زمین ‘نازک موڑ پر پہنچ گئی ہے۔’
ایک شاذ و نادر ہونے والے واقعے میں اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی ہونے والی کانفرنس میں چار سابق صدور نے موثر فیصلہ سازی پر زور دیا۔
اسی بارے میں مزید پڑھیے
پیرس معاہدے پر چین اور یورپی یونین ایک ساتھ
عالمی ماحولیاتی معاہدے پر عملدرآمد شروع
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دنیا پیرس معاہدے میں طے پانے والے اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے خطرناک گیسوں کے اخراج میں فوری کمی لانا ہو گی۔
اس اجلاس میں مختلف کیا ہے؟
اس سال اکتوبر میں ماحولیات کے عالمی ادارے آئی پی سی سی نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ بڑھتے ہوئے عالمی درجۂ حرارت کو 1.5 سیلسیئس تک محدود رکھا جائے۔
آئی پی سی سی کے مطابق اس مقصد کے حصول کے لیے حکومتوں کو 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 45 فیصد تک کمی لانا ہو گی۔
تاہم ایک حالیہ تحقیق کے مطابق گذشتہ چار سال سے گرنے کے بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے۔
ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ ماحول پر اقوامِ متحدہ کے اجلاسوں کے چار سابقہ صدور نے بیان جاری کیا ہے۔ اتوار کو ایسے ہی ایک بیان میں انھوں نے فوری اقدام کی تاکید کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘اگلے دو برسوں میں فیصلہ کن اقدام بےحد ضروری ہے۔
کیا دنیا تاخیر کی متحمل ہو سکتی ہے؟
‘کاٹوویس میں ہونے والے اجلاس میں عالمی رہنما جو فیصلہ کریں گے اس کے اثرات آنے والے برسوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے اور اس سے پیرس معاہدے کے اہداف پورے کرنے میں مدد ملے گی۔
‘کسی بھی قسم کی تاخیر سے ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنا زیادہ مشکل اور زیادہ مہنگا ہو جائے گا۔’
یہ بیان فجی کے فرینک بینیمارمرا، مراکش کے صلاح الدین مزوار، فرانس کے لوراں فبیوس اور پرو کے مینوئل پلگر ویڈال نے جاری کیا۔
اسی دوران ملک جو کہتے ہیں اور جو کرتے ہیں اس کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔
غریب ملکوں کے گروپ کے سربراہ گیبرو جیمبر نے کہا: ‘آئی پی سی سی کی رپورٹ سے یہ واضح ہے کہ ہر قسم کی تپش قابلِ لحاظ ہے، خاص طور پر غریب ملکوں کے لیے۔
‘اس سے یہ امید بھی بیدار ہوتی ہے کہ 1.5 سیلسیئس کی حد اب بھی ممکن ہے۔ یہاں کاٹوویٹسا میں ہمیں مل کر تعمیری انداز میں کام کرنا چاہیے تاکہ یہ ہدف حقیقت بن سکے۔’
کیا صدر ٹرمپ کے دور میں بین الاقوامی تعاون ممکن ہے؟
صدر ٹرمپ امریکہ کو پہلے ہی پیرس معاہدے سے الگ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ البتہ امریکہ 2020 تک اس معاہدے کا رکن رہے گا، اور اس کے مذاکرات کار اجلاسوں میں حصہ لیتے رہیں گے۔
تاہم صدر ٹرمپ کی کوئلے سے محبت کے پیش نظر کہا جا رہا ہے کہ وائٹ ہاؤس ایک بار پھر کوئلے اور دوسرے فاسل ایندھن کو فروغ دینے کے لیے ایک ایونٹ کا انعقاد کرے گا۔
وہ اس سے قبل بھی اس قسم کا اجلاس منعقد کروا چکے ہیں جس پر بڑے پیمانے پر تنقید ہوئی تھی۔
لیکن دوسری طرف اس کانفرنس میں 29 ملکوں کے سربراہ شریک ہیں۔ البتہ یہ تعداد پیرس کانفرنس سے خاصی کم ہے۔
تاہم چین اور یورپی یونین کے یہ اجلاس بےحد اہم ہے۔ انھیں یہ دکھانا ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور میں بھی بین الاقوامی تعاون ممکن ہے۔
- مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات - 18/04/2024
- یوکرین جنگ میں 50 ہزار روسی فوجیوں کی ہلاکت: وہ محاذِ جنگ جہاں روسی فوجی اوسطاً دو ماہ بھی زندہ نہیں رہ پا رہے - 18/04/2024
- دنیا کے دوسرے مصروف ترین دبئی ایئرپورٹ کی کہانی: ’یہاں حالات بدترین نہیں بلکہ خطرناک ہیں، ہمیں جانوروں کی طرح رکھا گیا ہے‘ - 18/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).