نفسیات کی خورد بین اور شاعری


عنبرین منیر نے ایک خاصے مشکل اور بہت مبسوط موضوع سے نمٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس موضوع سے انصاف کرنے کے لیے ایک کتاب ناکافی ہے۔ بہرحال، ان حدود کا خیال رکھنا ہو گا، جو مصنفہ کے مدِ نظر رہیں۔ یہ تحقیقی مقالہ ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرنے کے لیے قلم بند کیا گیا تھا۔ اس اعتبار سے اسے تشفی بخش جائزہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ جن شاعروں کا یہاں ذکر ہے، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اگر دس بارہ سربرآوردہ شاعروں کے کلام کو سامنے رکھا جاتا، تو کام بہتر ہو سکتا تھا، آسان شاید پھر بھی نہ ہوتا۔ جو بھی سہی، مصنفہ کی محنت کی داد دینی چاہیے۔

پہلا باب ”نفسیات بحیثیت ایک علم“ پر مشتمل ہے۔ اس میں فرائڈ، ژنگ اور ایڈلر کے تصورات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تقریباً ستر صفحوں پر محیط یہ باب نفسیات کے بنیادی معاملات کا اچھا بھلا تعارف ہے۔ پچھلے پچاس ساٹھ برسوں میں فرائڈ اور ژنگ کے خیالات سے خاصا اختلاف کیا گیا ہے۔ اگر چند صفحے ان اختلافات کے لیے وقف کر دیے جاتے تو باب کی افادیت بڑھ سکتی تھی۔ انگریزی کے اقتباسات بہت ہیں، جن کا کسی وجہ سے ترجمہ نہیں کیا گیا۔ یہ فرض کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا کہ جو قارئین اس کتاب کو پڑھیں گے، انہیں انگریزی پر خاطر خواہ عبور ہو گا۔ ان اقتباسات میں جو زبان برتی گئی ہے وہ سہل نہیں ہے۔

دوسرے باب کا عنوان ”جدید اردو نظم کا پس منظر“ ہے۔ اس باب کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔ جب یہ طے ہو گیا کہ نفسیات ایک مسلمہ علم ہے اور اس کے دائرۂ کار سے کوئی فرد، خواہ اس کا تعلق کسی بھی دور سے ہو، باہر نہیں تو پس منظر اور پیش منظر کی بحث بے سود ہے۔ اُردو ادب کے منظر نامے میں، غزل کی برتری کے باوجود، نظم ابتدا سے موجود رہی ہے۔ پرانے شاعروں کے کلام میں بھی نفسیات کی دخل اندازی کی نشان دہی کی جا سکتی ہے۔ در حقیقت اس نقطۂ نظر سے ایک اور کتاب لکھنا ممکن ہے۔ کیا اچھا ہو اگر عنبرین منیر خود کو مزید محنت کرنے پر آمادہ کر سکیں۔ ڈاکٹر بن جانا تو معرکہ آرائی کا آغاز ہے۔ علاوہ ازیں، اس سلسلے کو آگے بڑھاتے وقت کوئی حد یا معیاد سامنے نہ ہو گی۔ وہ ان نئی انگریزی تصانیف سے بھی مدد لے سکتی ہیں، جن میں نفسیاتی امور کو مختلف اور معنی آفرین زاویوں سے دیکھا گیا ہے۔

تیسرے باب سے پانچویں باب تک 1936 ء سے تاحال کے شعرا کو نفسیات کی ترازو میں تولا اور ٹٹولا گیا ہے۔ چھٹا باب اُردو شاعرات کے نفسیاتی عناصر کے مخصوص مطالعے کے لیے مختص ہے۔ مردوں اور عورتوں کو الگ الگ خانوں میں رکھنا ٹھیک معلوم نہیں ہوا۔ اس طرح کے امتیاز کو قائم رکھنے پر خود خواتین معترض ہو سکتی ہیں۔

زیادہ توجہ بجا طور پر میراجی، ن م راشد، مجید امجد اور اختر الایمان پز ذی گئی ہے۔ یہ بات پیش نظر نہیں رہی کہ ن م راشد ایک وقت میں خاکسار تحریک کے سرگرم رکن تھے۔ اس طرح ان کی نفسیات کو سمجھنے کا ایک اور رخ ہاتھ آ جاتا۔ شعرا خود جو اپنے کلام پر اظہار خیال یا نفسیاتی یا دوسری الجھنوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں، اس پر تکیہ نہ کرنا چاہیے۔ ان اعترافات یا توضیحات کی حیثیت مشتبہ ہے۔ ان کا ادھورا ہونا ممکن ہے۔ اکثر ان سے گمراہ کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ نقادوں کے اقتباسات سے کتاب بھری پڑی ہے۔ عنبرین منیر کو اپنے طور پر شاعروں کے کلام میں نفسیاتی مسائل کا سراغ لگانا چاہیے تھا۔ اس طرح تصنیف کا رنگ چوکھا ہو جاتا۔ اس میں ایک دقت ضرور ہے۔ شاعر کی مستند سوانح عمری سامنے ہونی چاہیے۔ اس کے ذریعے سے شاعر کے نفسیاتی رجحانات، مذہبی یا سیاسی عقائد در پیش عائلی اور سماجی مخمصوں کا پتا چل سکتا ہے۔ اُردو میں اس طرح کی سوانح عمریوں کا فقدان ہے۔

سوال یہ باقی ہے کہ آخر وہ کیا نفسیاتی پیچ و خم اور عوامل ہیں، جو کسی فرد کو شعر کہنے یا فکشن لکھنے پر اُکساتے ہیں۔ کیا اسے ذات کی تکمیل یا توسیع کی کوشش گردانا جائے۔ بقول شخصے، ہر آدمی مرد ہو یا عورت، اپنی زندگی کا سب سے مستند گواہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ہر کوئی کم از کم ایک سوانحی ناول لکھ سکتا ہے۔ ایسا ہوتا نہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ یہ آگہی، کتنی ہی گہری اور کھری سہی، ہوتی نا مکمل ہے۔ کوئی فرد اپنی ذات سے پوری طرح آشنا نہیں ہوتا نہ ہو سکتا ہے۔ یہ مصرع ”اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے“ حقیقت کا اظہار ہے، انکسار نہیں۔ اس سوال کا جواب کتاب میں نہیں ملے گا۔ فرائڈ اورژنگ بھی اس معاملے میں اپنی ہار تسلیم کر چکے ہیں۔ مصنفہ نے ص 167 پر لکھا ہے : ”انسان کو اپنے حالات زندگی اور معاشرتی معاملات سے مفر نہیں، لیکن یہ حالات اس پر یکساں نقوش مرتب نہیں کرتے۔ وہ کس روپ میں اس کی شاعری میں وارد ہوتے ہیں، ان راستوں کو متعین نہیں کیا جا سکتا۔ “ یہ بالکل درست ہے۔ تخلیقی عمل معما ہے اور معما ہی رہے گا۔

کتاب کی ایک افادیت اور ہے، گو یہ مصنفہ کے خیال میں نہ ہو گی۔ یہاں اُردو کے کتنے ہی نقادوں کی آرا ایک جگہ مل سکتی ہیں، جن کا مجموعی اثر کوئی خوشگوار نہیں۔

جدید اُردو نظم میں نفسیاتی عناصر از ڈاکٹر عنبرین منیر
ناشر: مثال پبلشرز، فیصل آباد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).