’لگتا ہے میاں صاحب جے آئی ٹی سے گھبراتے ہیں‘


نواز شریف

جے آئی ٹی کے علاوہ کچھ اور بنائیں، جے ائی ٹی کا میرا تجربہ اچھا نہیں ہے: نواز شریف

پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف منگل کو محکمہ اوقاف کی زمین کے مقدمے میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پر الزام ہے کہ انھوں نے 1986 میں بطور وزیر اعلیٰ پنجاب غیرقانونی طور پر پاکپتن کے قریب محمکہ اوقاف کی زمین دیوان غلام قطب کو آلاٹ کی تھی۔

یہ 1400 کنال کی زمین محکمہ اوقاف کی تھی جو کہ دیوان گروپ نے لوگوں کو فروخت کی۔

یہ بھی پڑھیے

نواز شریف چپ تو مریم نواز کا ٹوئٹر خاموش کیوں؟

نواز شریف اور عدالتیں

میاں صاحب کی محبت میں ایک لاکھ کی بھینس تین لاکھ میں

اس پر محکمہ اوقاف نے مقدمہ کیا جو کہ سیشنز کورٹ گیا۔ وہاں پر فیصلہ ان کے حق میں آیا جس کے بعد دیوان گروپ نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی۔ اس اپیل کا بھی فیصلہ محکمہ اوقاف کے ہی حق میں آیا۔

اس فیصلے کے خلاف دیوان گروپ ایک بار پھر اپیل کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں گیا۔

عدالت میں سوال اٹھا کہ جب زمین محکمہ اوقاف کی ملکیت میں تھی تو یہ نوٹیفیکشن کیسے جاری ہوا کہ یہ زمین کسی گروپ کو بیچ دی جائے۔ ان قوانین میں نرمی کون لایا اور کس نے اس کی اجازت دی؟

میاں نواز شریف منگل کو کمرہ عدالت کے کورٹ روم نمبر ون میں پہنچے۔

آدھے گھنٹے کے بعد پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو روسٹم پر آنے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس نے میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں اتنے لوگ اپنے ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی جس پر نواز شریف نے جواب دیا کہ اُنھوں نے تو لوگوں کو آنے سے منع کیا تھا لیکن یہ لوگ خود اپنی مرضی سے آئے ہیں۔

عدالت کے حکم پر میاں نواز شریف روسٹم پر آئے تو عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ کیا اُنھوں نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب پاکپتن کے قریب محمکہ اوقاف کی زمین کو فروخت کرنے کا حکم دیا تھا جس پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ 32 سال پرانا مقدمہ ہے لہذا اُنھیں ٹھیک طرح یاد نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے سابق وزیر اعظم کو اس مقدمے کے پس منظر کے بارے میں آگاہ کیا۔

میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کسی ایسی فائل پر دستخط نہیں کیے جس میں ایسی کوئی زمین فروخت کرنے کا حکم دیا گیا ہو جو محکمہ اوقاف کی ہے۔

چیف جسٹس نے میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے پاس ان کے بطور وزیر اعظم کے ایسے مقدمات بھی آئے جس میں ان کے دستخط تو نہیں ہیں لیکن آپ کے پرنسپل سیکرٹری کہتے ہیں کہ یہ کام وزیر اعظم یعنی آپ کی منظوری سے ہوا ہے اور اس میں سب سے بڑی مثال عطا الحق قاسمی کو بطور ایم ڈی پی ٹی وی تعینات کرنا تھا۔

چیف جسٹس نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکپتن میں صوفی بزرگ بابا فرید کے مزار کے قریب واقع محمکہ اوقاف کی زمین اُنھوں نے فروخت نہیں کی تو عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ محکمہ اوقاف کی طرف سے کوئی فراڈ ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے پر کوئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم یعنی جے آئی ٹی بناتے ہیں جس پر نواز شریف نے کہا کہ اگر بنانا ہے تو جے آئی ٹی کے علاوہ کچھ اور بنائیں کیونکہ جے آئی ٹی کا ان کا تجربہ اچھا نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’لگتا ہے کہ میاں صاحب جے آئی ٹی سے گھبراتے ہیں‘ جس پر کمرہ عدالت میں ایک زور کا قہقہ بلند ہوا۔

اس پر چیف جسٹس نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ہی منصف نہ بنا دیں کیونکہ انصاف کرنا صرف عدالتوں کا کام نہیں آپ خود تحقیقات کر کے بتا دیں۔ جس پر نواز شریف نے بڑے معنی خیز انداز میں کہا کہ ’بہت اچھا بھائی بہت اچھا‘۔ اس پر کمرہ عدالت میں قہقہ بلند ہوا۔

عدالت نے نواز شریف سے کہا کہ وہ خود ہی ایسا کوئی محکمہ بتائیں جو اس کی تحقیقات کرے لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ ایسا محمکہ ہو جس پر عدالت کو بھی اعتماد ہو۔

مقدمے کی اگلی سماعت 12 دسمبر کو ہوگی۔ عدالت نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو عدالت میں پیش ہونے سے استثنا کی درخواست منظور کر لی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp