وزیر اعظم کا نفرت آمیز رویہ، غیرمحتاط زبان اور آمریت پسندی


چھٹی کا دن تھا- گھر والوں کی اجازت سے چچا زاد بھائی سید حسن محمود کے ساتھ نیشنل اسٹیڈیم ٹیسٹ میچ دیکھنے پہنچے- میچ کے دوران ایک بچہ فرط مسرت سے بے حال ہو کر کھیل کے میدان میں بھاگتا ہوا، عمران خان سے ملنے پہنچا تو عمران خان نے اس کو لات مار دی- کرکٹ کے معصوم تماش بیں اور شیدائی کو لات مارتے ہوئے سیکڑوں افراد نے دیکھا، معصوم بچے کے ساتھ عمران خان کے نفرت آمیز رویے سے اسٹیڈیم میں موجود افراد میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی- ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور تماشائی اسٹیڈیم سے بھاگ کھڑے ہوئے، لڑکپن کا دور تھا، ہم خود ڈر کے مارے حسن اسکوائر تک بھاگتے چلے گئے- وہ دن اور آج کا دن اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے سے توبہ کرلی-

عمران خان نے جب سے سیاست میں قدم رکھا ہے، سیاست میں کامیابی کے لیے کامیابی سے یو ٹرن لینے کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے- تبدیلی و شفافیت کا دعوی کرنے والے قائد تحریک انصاف نے سب سے بڑا یو ٹرن تو اس وقت لیا، جب ان سیاست دانوں کے ساتھ اتحاد کیا اور اپنی جماعت کا حصہ بنایا، جن کے خلاف ماضی میں نفرت آمیز رویہ اختیار اور نفرت انگیز زبان استعمال کرتے ہوئے، ان کی زبان نہ تھکتی تھی- اقتدار کے حصول کے بعد بھی سیاسی مخالفین کے ساتھ نفرت آمیز رویے کے اظہار کا یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے- ٹی وی اینکرز کے ساتھ تازہ ترین ملاقات میں جب ایک اینکر نے قائد جمیعت علمائے اسلام کے متعلق سوال کیا تو وزیر اعظم نے حسب معمول قائد جے یو آئی کے لیے نفرت انگیز زبان استعمال کی اور دینی و سیاسی جماعت جے یو آئی کو سیاسی دکان سے تشبیہ دی- حالانکہ جے یو آئی نے اقتدار کے حصول کے لیے اس طرح سودے بازی اور آزاد اراکین اسمبلی کی خریداری دکان سجا کر کبھی نہیں کی، جس کا مظاہرہ تحریک انصاف کی قیادت نے اقتدار کے حصول کے لیے دکان سجا کر کیا- وزیر اعظم بننے کے بعد بھی سیاسی مخالفین کے ساتھ نفرت آمیز رویہ اختیار کرنا اور نفرت انگیز زبان استعمال کرنا، وزیر اعظم کے منصب کو ہرگز زیب نہیں دیتا- وزیر اعظم بھی مجبور ہیں، کیوں کہ ان میں ابھی تک اسی کرکٹر اور حزب اختلاف کے رہنما کی روح سمائی ہوئی ہے، جس نے معصوم بچے سے ہاتھ ملانے کی بجائے، اسے لات مارنے کو ترجیح دی اور جس نے ہمیشہ سیاسی مخالفین کے ساتھ نفرت آمیز رویہ اختیار کیا اور نفرت انگیز زبان استعمال کی-

وزیر اعظم عمران خان کسی حد تک آمریت پسند بھی واقع ہوئے ہیں- جس کی سب سے بڑی مثال صدارتی ریفرنڈم میں سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے لیے بطور پولنگ ایجنٹ خدمات انجام دینا ہے- ٹی وی اینکر شاہد کامران نے وزیر اعظم سے سوال کیا کہ آپ وزیر داخلہ بھی ہیں اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف عدالت عظمی میں مقدمہ بھی زیر سماعت ہے، اس ضمن میں بطور وزیر داخلہ آپ کی کیا کارکردگی ہے اور موُقف ہے؟ تو وزیر اعظم سوال کا جواب گول کر گئے اور لگے بتانے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملک پر کتنا قرضہ تھا اور گزشتہ جمہوری ادوار میں کتنا قرضہ لیا گیا- ان کے اس جواب کا سیدھا سادھا مطلب یہی نکلتا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو جنرل پرویز مشرف کا دور آمریت پسند ہے-

اسی طرح جب وزیر اعظم نے قوم سے ڈیم کے لیے چندے کی اپیل کی تو جنرل ایوب خان کے دور میں تعمیر کیے جانے والے ڈیموں کا تذکرہ کرنا نہیں بھولے- بدعنوانی کے مرتکب افراد کو سزا دینے کے حوالے سے وزیر اعظم کو عوامی جمہوریہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کا آمرانہ و سفاکانہ طریقہ کار پسند آتا ہے- وزیر اعظم کے ماڈل حکمراں بھی وہی آمر ہیں، جنہوں نے ایک طویل عرصے اپنے ملک میں کُلّی آمریت کا مظاہرہ کیا ہے- مہاتیر محمد بھی وزیر اعظم کے رول ماڈل ہیں- مہاتیر محمد نے اپنی حکومت کے پہلے سو دن کے لیے جو اہداف مقرر کے تھے، پورا کرنے میں ناکامی کے بعد قوم سے معافی بھی مانگ لی- وزیر اعظم عمران خان حکومت کے پہلے سو دن بہت مصروف رہے، اس لیے جو اہداف انہوں نے حکومت کے پہلے سو دنوں کے لیے مقرر کیے تھے، ان کو پورا کرنے کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں گیا اور نہ ہی فرصت ملی- نتیجتاً، اخبارات میں پورے اخباری صفحے پر مختصراً اشتہار شائع کروانا پڑا کہ، ‘ ہم مصروف تھے- ‘ پہلے سو دن کی حکومتی کارکردگی عوام کے سامنے بیان کرتے وقت غالبا اپنے آئیڈیل حکمراں مہاتیر محمد کی شبیہ وزیر اعظم کے ذہن سے محو ہو گئی ہوگی-

وزیر اعظم نے خوش گوار موڈ میں یہ بھی فرمایا کہ جب میں خاتون اول کے سامنے پاکستان میں پسے ہوئے طبقات کی بات کرتا ہوں تو وہ مجھ سے کہتی ہیں کہ آپ وزیر اعظم ہیں- حقیقت یہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو اب تک یقین نہیں آیا ہے کہ وہ وزیر اعظم بن گئے ہیں- اس وقت بھی وزیر اعظم سیاسی مخالفین کے لیے جو نفرت آمیز رویہ اختیار اور نفرت انگیز زبان استعمال کرتے ہیں، سیاسی مخالفین کے لیے وہ نفرت آمیز رویہ وزیر اعظم تو کجا، کسی بھی سیاسی رہنما کو زیب نہیں دیتا- اسی طرح جب وزیر اعظم دور آمریت کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہوتے ہیں، تو ان کی تقریر سن کر کہیں بھی محسوس نہیں ہوتا کہ وہ کسی جمہوری ملک کے منتخب وزیر اعظم ہیں- وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں بڑے لیڈر کی پہچان یو ٹرن لینا بتائی ہے- حالانکہ بڑا لیڈر اور انسان وہ شخص ہوتا ہے، جو اپنے مخالفین کے ساتھ بھی نفرت آمیز رویہ اختیار نہ کرے اور نہ نفرت انگیز زبان استعمال کرے- وزیر اعظم اگر واقعی وطن عزیز اور قوم کی خدمت کرنے کے متمنی ہیں اور وطن عزیز کو بین الاقوامی برادری میں اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلوانا چاہتے ہیں تو اپنے رویے میں تبدیلی لائیں، دور آمریت کے گن گانے چھوڑیں- اور ان جمہوری ممالک کے ترقی کے سفر کا مطالعہ کریں، جنہوں نے جمہوری روایات کی پاس داری کرتے ہوئے، ترقی کی منازل طے کیں-


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).