سراسیمہ حکومت اور کنفیوزڈ وزیر اعظم



انقلاب روس کے لیڈر اور عظیم مارکسی استاد لینن نے کہا تھا کہ ’’سیاست مجتمع شدہ معیشت ہے‘‘۔ اسی حوالے سے پاکستانی سیاست کی پیچیدگیوں، ذاتی و مالی مفادات کی لڑائیوں میں مصروف سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کی نالائقیوں کو سمجھنا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک ہم پاکستان کی معاشی صورت حال کی اصل شکل دیکھ نہیں لیتے۔ پاکستانی معیشت کا تجزیہ کرنے کے لئے ایک طرف تو ہمیں وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کے پلندے میں سے سچ اور جھوٹ کو الگ کرنا پڑے گا تو دوسری طرف مسند اقتدار پر برا جماں ان نااہل لوگوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہوگا ۔
کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ ہرروز اسد عمر اور حماد اظہر ٹی وی پر معاشی تباہی کی ذمہ داری اسحاق ڈار پر ڈالتے ہوئے خود کو تو بری الزمہ قرار دیتے نظر آتے ہیں لیکں ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ ایسی صورتحال سے نکل کران معاشی جھٹکوں سے غریبوں کو کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم سمیت کابینہ کے تمام اراکین کو ڈالر کی قدر میں اضافہ کی خبر ٹیلی ویژن سے معلوم ہوئی۔ تین ماہ میں روپے کی قدر اس تیزی سے گری کہ اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ عام آدمی کو تو شاید احساس نہیں ہے کہ روپے کی اس بے قدری کے نتائج کیا ہوں گے؟ افراط زر کا کیا ہوگا؟ قرضوں میں کتنا اضافہ ہو گا؟ کم از کم حکومتی وزرا کو تو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ یہ روپے کی بے قدری نہیں بلکہ پاکستان کی بے قدری ہے۔ اس بے قدری کی ایک ایک پائی کی قیمت عوام نے ادا کرنی ہے۔ بین الاقوامی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر ایشیا میں سب سے تیزی سے گر رہے ہیں اور اس بات کے قوی امکان ہیں کہ جلد ہی ہمارے ذخائر کمبوڈیا سے بھی کم رہ جائیں گے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ کمبوڈیا کی معیشت کا حجم ہم سے دس گنا کم ہے۔ اس طرح ہم اپنے سے دس گنا کم اور چھوٹی معیشت سے بھی کمزور ہو جائیں گے۔ تین ماہ پہلے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 13.5 بلین ڈالر تھے جب کہ کمبوڈیا کے 11.3 بلین ڈالر تھے۔ یہ کوئی ذاتی اعداد و شمار نہیں ہیں بلکہ آئی ایم ایف کے اعدادو شمار ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس کوئی معاشی پروگرام نہیں۔ چھ ماہ اور گزرگئے تو اس ملک کی سلامتی خطرہ میں پڑ جائے گی۔ پاکستان تیزی سے معاشی تباہی کے گھاٹ اتر رہا ہے اور کسی کو فکر نہیں ہے۔ ٹیکسوں کی مد میں 133 ارب روپیہ سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔ ٹیکسٹائل کے ریفنڈ روک کر خسارہ 100 ارب دکھایا جا رہا ہے۔ ڈالر کی قیمت کم ہونے سے دو ہفتے قبل خاموشی سے ڈالر خریدنا شروع کر دیتے ہیں اور طلب بڑھنے سے ڈالر کی قیمت کم نہیں ہوتی۔ اسٹیٹ بینک کی طرف سے روپیہ کی قیمت کم کرنے سے جب ڈالر روپیہ سے بڑھتا ہے ،یہ لوگ ہفتے پہلے خریدے گئے ڈالر فروخت کر جاتے ہیں اور چند دنوں میں بے تحاشا پیسے کما جاتے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں خریدوفروخت میں 80 فیصد کمی ہو چکی ہے اور پراپرٹی ٹیکسوں کی مد میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ بحریہ کی ملک میں تمام ہاوسنگ اسکیموں میں 35 سے 70 فیصد کمی ہو چکی ہے اور سرمایہ کاروں کے اربوں روپیہ ڈوب چکے ہیں۔ آٹو مارکیٹ میں خریداری میں 88 فیصد کمی ہو چکی ہے تمام وینڈر انڈسٹری بندش کے دھانے پر ہے اور آٹو سیکٹر میں حکومتی ٹیکس بھی تسلسل کے ساتھ کم ہو رہے ہیں۔ حصص بازار میں خریداری کا عمل مسلسل کم ہو رہا ہے چھوٹے سرمایہ کار جو ہولڈ کی طاقت نہیں رکھتے مسلسل حصص فروخت کر رہے ہیں اور سرمایہ کاری قومی بچت کی طرف منتقل کر رہے ہیں اور مارکیٹ سے سرمایہ کا فرار ایک خوفناک عفریت بننے کو ہے۔ روپیہ کی قدر میں کمی سے 13 ارب ڈالر کی درآمدات 15 ارب ڈالر ہو جائیں گی اور پاکستانی ٹیکسٹائل کی پیداواری لاگت بڑھ رہی ہے اور پاکستانی برآمدات بنگلادیش جیسے ملکوں سے مقابلہ کی اہلیت بھی کھو بیٹھی ہیں۔ توانائی میں خود کفالت کا جو فائدہ صنعتوں کو ہونا تھا وہ سستی ایل این جی کی درآمد کم کر کے اور مہنگے فرنس آئل کی درآمد بڑھا کر ختم کر دیا گیا ہے اس میں بھی ان لوگوں نے بے تحاشا پیسے کمائے ہیں۔
ٹیکس دہندگان کو آڈٹ کے نوٹس جاری کرنے کے احکامات سے سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمہ کے جو نعرے لگائے جا رہے ہیں پہلے سے موجود سرمایہ کار بھی بھاگ رہے ہیں۔ نجی محفلوں میں آئی ایم ایف کی طرف سے روپیہ کی قدر میں کمی کی شرائط کی بات چیت باخبر لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ لوگ سرمایہ کاری کرنے کی بجائے سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں اور ڈالر ہر روز مختلف طریقوں سے دوبئی اور دیگر خلیجی ریاستوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ بینکوں اور مالیاتی اداروں کی نجی شعبہ کو لینڈنگ مسلسل کم ہو رہی ہے۔ شرح سود میں اضافہ سے نئے صنعتی عمل کی رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ گئی ہیں۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں کمی سے مارکیٹ میں پیسوں کی نقل وحمل مزید کم ہو چکی ہے چھوٹی اور بڑی صنعتوں کی شرح نمو منفی ہونے کے خدشات پیدا ہو چکے ہیں۔ نئے حکمرانوں کے پاس کوئی معاشی پروگرام نہیں تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری خوفناک حد تک کم ہو رہی ہے۔ بیرونی وسائل کے دیگر ذرائع ترسیلات زر اور برآمدات میں بھی حوصلہ شکن صورتحال کا سامنا ہے ۔ آپ یقین کریں کہ ملک سے سرمایہ نکالنے کی شرح اس وقت26% تک پہنچ چکی ہے جب کہ ماضی میں یہ زیادہ سے ذیادہ 4%تک ہوتی تھی۔
وزیر اعظم ٹی وی پروگرامز میں بڑے فخر سے یہ دعویٰ کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ان کی حکومت میں زرمبادلہ کے ذخائر میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ ان کے یہ الفاظ بڑے پر کشش ہیں کہ اس ملک میں بڑے ڈالر آئیں گے۔ کبھی کبھار تو یوں لگتا ہے جیسے ان کو وزیر اعظم بنانے کا مقصد ہی ڈالرز کا اجرا ہے۔ عمران خان جہاں بھی جاتے ہیں، کرپشن کا رونا روتے ہیں، خزانے کے خالی ہونے کی دہائی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے حصے اس قدر مخدوش معاشی حالات آئے ہیں کہ ملک سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم کا واویلا درست ہے لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ ان کے اس طرز عمل سے بے یقینی کی جو فضا ابھرتی ہے اس میں سرمایہ کار بھاگ جاتے ہیں اور مارکیٹ سے سارا روپیہ اٹھا لیتے ہیں۔ انہیں شاید یہ نہیں معلوم کہ پی پی پی اور نون لیگ کو جب اقتدار ملا تھا ،اس وقت حالات اس سے بھی دگرگوں تھے۔ ان لوگوں کو لوڈ شیڈنگ اور بے انتہا دہشت گردی کا سامنا تھا۔ معاشی حالات اس سے بھی خراب تھے۔ عمران خان کی بد قسمتی یہ ہے کہ تمام ادارے ان کے ساتھ ہیں اور ان کو سب سے زیادہ سازگار پلیئنگ لیول ملا ہے۔ ایسے میں ان کا وژن تو بہت شاندار ہے لیکن اس وژن کو حقیقت کو روپ د ینے والی ٹیم نہیں ہے جونالائق لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس بات کا احساس خود انہیں بھی ہو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے وزرا کی تبدیلی کا شارہ دیا ہے۔ دوسرے عمران خان کو اپنے اس ڈر سے نکلنا ہوگا کہ ان کی حکومت کو ختم کر دیا جائے گا۔ اس لحاظ سے وہ خوش قسمت ہیں کہ اپوزیشن انہیں یقین دلا رہی ہے کہ وہ ان کی حکومت گرانے کا سبب نہیں بنے گی لیکن جانے یہ وزیر اعظم اس قدر بے یقینی کا شکار کیوں ہیں، کبھی قبل از وقت انتخابات کی بات کرتے ہیں تو کبھی وزرا کی تبدیلی کی۔ ان سے سوال کچھ کیا جائے جواب کچھ دیتے ہیں۔ وزیر اعظم کی کنفیوژن ملک کو مزید معاشی و سیاسی خلفشار کی طرف بڑ ھا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).