زِبان دینے والی زبانیں خود گونگی نہ ہوجائیں


وفاقی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا اعلان ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے نئے بحث مباحثے شروع ہوچکے ہیں، تاہم یکساں نصاب تعلیم طویل المدتی منصوبہ ہے جس کے لئے ابتدائی سطح سے لے کر ہائیرایجوکیشن تک تمام کتب سے لے کر طریق تعلیم پر ازسرنوغور و خوض کیا جاسکتا ہے، یکساں نصاب تعلیم کی جانب قدم اٹھانا وفاقی حکومت کی تعلیم رغبتی اور تعلیم دوست ویژن اور فروغ کی جانب ایک قدم ہے، پانچ سالوں پر محیط حکومت اس دورانیہ میں کس حد تک کامیابی حاصل کرسکتی ہے اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ قدم دیر آید درست آید کے مانند ہے۔

اس سے قبل بھی یکساں نصاب تعلیم اور مقامی زبانوں کے تحفظ و فروغ کے لئے اقدامات اٹھانے کا اعلان کئی بار ہوچکا ہے مگر اعلانات صرف اعلانات کی حد تک محدود رہے اور کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جاسکے۔ لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جدید ترین نصاب تعلیم بھی اس وقت تک کامیاب قرار نہیں دیا جاسکتا ہے جب تک اس میں مقامی سطح پر بولی جانے والی زبانوں کو فروغ نہ دیا جائے اور مقامی زبانوں کو ذریعہ تعلیم نہ بنایا جائے۔

پاکستان لسانی اعتبار سے نہایت تنوع کا حامل ملک ہے، جہاں ہر صوبے میں الگ الگ لسانی حد بندیاں ہیں، ہر علاقہ دوسرے علاقے سے اپنی بولی اور زبان کی وجہ سے مختلف ہے، جس کی وجہ سے ہر علاقے کی اپنی اہمیت ہے، ماہرین تعلیم معاشرے میں ایک زبان کے رائج ہونے سے کثیر السانیت کو بہتر قرار دیتے ہیں، ۔ پاکستان میں اکثر تعلیمی کانفرنسز میں مغربی نظام تعلیم کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن مغربی سمیت تعلیمی میدان میں نمایاں رہنے والے ممالک کی اس روش پر کوئی عملدرآمد نہیں کرتا ہے کہ وہاں پر بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے، مادری زبان میں ابتدائی تعلیم رائج کرنے سے قبل متعدد تجربات اور تقابلی جائزے لئے گئے جس میں مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے بنسبت دیگرزبانوں کے کئی گنا تیز اور قابل قرار دیے گئے۔ پاکستان میں بھی نجی تنظیموں کے زیر اہتمام اس تجربے کا اہتمام کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والوں کا فہم اور ادراک دوسرے سکولوں کے طلباءسے زیادہ ہوتا ہے۔

پاکستان اس وقت دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں پر مختلف قومی زبانیں وجود رکھتی ہیں۔ لسانی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان 74 زبانوں کا مسکن ہے جن میں سے پانچ زبانیں دیگر تمام زبانوں پر غالب ہیں یا حکومت کرتی ہیں۔ جن میں اردو کے علاوہ پنجابی، پشتو، سندھی اور سرائیکی شامل ہیں۔ جبکہ دیگر زبانوں کی بھی الگ الگ درجہ بندی ہے جن میں کئی علاقائی زبانیں اپنے مستقبل کے حوالے سے خطرے سے دوچار ہیں، بڑی عالمی زبانوں کے سامنے یہ زبانیں اپنی بقاءکے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔

نصاب تعلیم میں از سرنو تبدیلی کا فیصلہ اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ یہاں پر انگریزی زبان میں تعلیم کو معیاری تعلیم قراردیا جاتا ہے جس کی ابتدا زبردستی یاد کرانے یعنی رٹا لگوانے سے ہوتی ہے۔ جو کسی طالبعلم کے صلاحیتوں کو پنپنے نہ دینے کے مترادف ہے، موجودہ وقت میں ملک کے تمام علاقوں میں سارا ادبی مواد ان ادیبوں کا ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں تھے، صرف سادہ بی اے کرنے والے کئی حضرات ادب اور تاریخ پر اپنی گرفت رکھتے ہیں اور دونوں شعبوں پر اپنے ان گنت نشانات چھوڑچکے ہیں، اس کے پیچھے ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ اس دور میں انگریزی یا کسی دوسری زبان میں تعلیم کا سلسلہ مضبوط اور مربوط نہیں تھا، بلکہ قومی اور علاقائی زبانوں میں پڑھایا جاتا تھا اور زبانی طور پر ذریعہ تعلیم مادری زبان ہی ہوا کرتی تھی۔

اب قاعدہ سے اپنا تعلیمی سفر شروع کرنے والا طالبعلم ابتداء سے پریشانیوں میں گھرا ہوتا ہے کیونکہ گھر اور معاشرے کی زبان درسگاہ سے مختلف ہے، اورآسانی سے سمجھ آنے والی زبان گھر اور معاشرے کی زبان ہوتی ہے جہاں پر اس کا ہر کام اس کی اپنی توجہ سے ہوتا ہے۔ نصاب تعلیم کو ترتیب دینے کے لئے اس بات کی جانچ کی جاتی ہے کہ جس علاقے کے لئے نصاب ترتیب دیا جارہا ہے اس کی جغرافیہ اور ثقافت کیسا ہے، یہی دونوں عناصر اس علاقے کے ملبوسات اور غذائی رجحانات کا تعین کرتے ہیں جو کہ معاشرہ اور اس میں بسنے والے انسانوں کی صحت کا ضامن ہے ں، انسانی صحت انفرادی سوچ کی عکاسی کرتی ہے جبکہ انفرادی سوچ اجتماعی سوچ کی جزہے، اجتماعی سوچ معاشرتی رویوں اور رخ کو جنم دیتی ہے۔

انسانی معاشرہ ایک سمندر کے مانند ہے اور نصاب تعلیم اس سمندر میں کشتی کی مانند ہے جن کے درمیان ایک گہرا رشتہ موجود ہے۔ پاکستان کے تناظر میں نصاب تعلیم کی ترتیب سے قبل ہونے والے ہوم ورک کی عدم موجودگی کی وجہ سے موجودہ نصاب طلباءکے ذہنی لغت پر بوجھ بن رہا ہے اور اس کی تشریح کرنے سے قاصر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ذریعہ تعلیم یعنی انگریزی زبان کے مشکل ہونے کی وجہ سے بچوں کا تعلیمی سکولوں سے خارج ہونے کی شرح بھی پاکستان میں بہت زیادہ ہے اور امتحانی مرحلے میں غیر قانونی زریعوں کا استعمال عام ہوتاہے جوکہ معاشرے میں ’میرٹ کے قتل‘ کی داغ بیل ڈال رہا ہے۔

یہ ایک الگ بدقسمتی رہی ہے کہ پاکستان میں ریاستی اور حکومتی سطح پر مقامی زبانوں کے تحفظ کے لئے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کی وجہ سے متعدد زبانوں کا وجود اور مستقبل خطرے میں پڑا ہوا ہے۔ کسی معاشرے میں ایک سے زائد زبانیں موجود ہوں تووہاں کے طلباءاور عام لوگ بنسبت دیگر قابل بھی ہوتے ہیں اور معاشرے میں فہم و ادراک کے لئے متبادل مواد میسر ہوتا ہے، زبانوں کی تشبیہات، استعارات، لوک کہانیاں، لطیفے، خیالات، اور شاعری اپنے اندر صدیوں کی داستان چھپائے رکھتی ہے، یہی نثری ادب سے وہاں کی قدیم تہذیب کی کھوج لگایا جاسکتا ہے۔ معروف ماہر تعلیم نوم چومسکی زبان کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ’زبان صرف کچھ حروف کا نام نہیں، یہ ایک ثقافت ہے، ایک روایت ہے، معاشرے کے وحدانیت کی علامت ہے، ایک مکمل تاریک ہے جو سماج کی پہچان بناتی ہے، ان سب عناصر کو ملانے کو زبان کہا جاتا ہے‘ ۔

پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع گلگت بلتستان لسانی اعتبار سے جہاں وسیع تنوع کا حامل ہے وہی پر سبھی زبانوں کو صورتحال کمزور ترین ہے یہاں پر بولی جانے والی بڑی زبانوں میں شینا، بلتی، بروشسکی، کھوار، وخی شامل ہیں اور چھوٹی زبانوں میں گوجری، کشمیری، ڈوماکی و دیگر زبانیں موجود ہیں۔ ڈوماکی کا شمار اس وقت ملک کے ان چند زبانوں میں ہوتا ہے جس کو سمجھنے والوں کی تعداد انگلی پر گنی جاسکتی ہے۔ گلگت بلتستان کی ان زبانوں میں بروشسکی زبان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ اپنی شجرہ نسب کے مناسبت سے تنہا زبان ہے، جبکہ بلتی زبان پاکستان کی زبانوں میں واحد زبان ہے جس کا شجرہ نسب چینی تبتی زبانوں سے جا ملتا ہے جبکہ دیگر ساری زبانیں ہند ایرانی زبانیں ہیں۔

ان زبانوں کو آج تک قومی سطح پر سرکاری طور پر زبانوں میں شامل نہیں کیا گیا ہے، حال ہی میں منعقد ہونے والے مردم شماری میں جہاں بڑی زبانوں کا نام شامل کرکے ان کے بولنے والوں کے لئے الگ خانہ مختص کردیا گیا وہی پر ان تمام زبانوں کو نظر اندا ز کرتے ہوئے انہیں ’دیگر‘ زبانوں کا درجہ دیدیا، جو کہ افسوسناک امر تھا۔ صوبائی حکومت گلگت بلتستان نے مقامی زبانوں کی ترویج کے لئے ریجنل لینگویج اکیڈیمی اور مقامی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لئے نصاب سازی کا اعلان کیا تھا جس میں ایک سال کی تاخیر سامنے آگئی جس کے وجوہات نامعلوم ہے، اس حوالے سے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ لسانی امور کے باہمی اختلافات کی وجہ سے اس میں ایک سال کی تاخیر ہوئی ہے البتہ رواں سال کے آخر تک شینا زبان کا قاعدہ تیار کیا جائے گا اور اسے سرکاری سکولوں میں پڑھانا شروع کردیا جائے گا جس کے بعد دیگر زبانوں اور دیگر کلاسوں کی جانب بتدریج چلیں گے۔ بہرحال صوبائی حکومت کے اس اقدام پر وفاقی حکومت کا تعاون لازمی ہے تاکہ مسائل کم سے کم ہوسکیں۔

وفاقی حکومت کا یکساں نصاب تعلیم کا اعلان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ اگر دلجمعی سے اس پر کام کرے گی تو یقینا نصاب تعلیم میں تبدیلی کا بیڑہ اٹھاسکتی ہے مگر اس نصاب تعلیم کی تبدیلی سے قبل مقامی زبانوں کی اہمیت کا اقرار کرتے ہوئے ان زبانوں کو سرکاری سطح پر تسلیم کریں، ورنہ لوگوں کو زِبان دینے والی زُبانیں خود گونگی ہوجائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).