کرتار پور راہ داری یا خلفشار کی راہ داری


 

ہندوستان کی سرحد پر ڈیرہ بابا نانک صاحب سے پاکستان میں گرودوارہ صاحب کرتار پور تک تین میل لمبی راہ داری کے منصوبہ نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری اور دونوں ملکوں کے درمیان با مقصد مذاکرات کی تجدید کی توقعات کو تقویت پہنچانے کے بجائے خلفشار کی راہداری کھول دی ہے۔

گذشتہ اگست میں وزیر اعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں مدعو عمران خان کے دیرینہ دوست اور ہندوستان کے پنجاب کے وزیر نوجوت سنگھ سدھو نے پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بغل گیر ہونے کے بعد اعلان کیا تھا کہ جنرل باجوہ نے انہیں یقین دلایا ہے کہ پاکستان اگلے سال گرو نانک کے ساڑھے پانچ سوسالہ یوم پیدایش پر سکھ یاتریوں کے لئے کرتار پور راہ داری کھول دے گا۔ اس اعلان کے بعد ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کرتار پور راہ داری کے قیام کے منصوبہ پر بے حد طمانیت کا اظہار کیا تھا اور اسے دیوار برلن کے سقوط سے تعبیر کیا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ اس راہ داری سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ختم ہو گی۔

پھر 26 نومبر کو ہندوستان کی سرحد کے قریب گرداس پور کے گاؤں مان میں ہندوستان کے نایب صدر ونکیا نایڈو نے کرتار پور راہ داری کی سنگ بنیاد رکھی اور پاکستان میں کرتار پور میں وزیر اعظم عمران خان نے اس راہداری کی سنگ بنیاد رکھی۔ اس موقع پر نوجوت سنگھ سدھو کے ساتھ ہندوستان کے دو وزیر ہر سمت کور بادل اور ہر دیپ سنگھ پوری نے شرکت کی۔ اس موقع پر سرحد کی دونوں جانب لوگ خوش تھے کہ دونوں ملکوں میں ایک طویل عرصہ سے تعطل کا شکار مذاکرات کے دوبارہ شروع ہونے کے امکانات روشن ہوں گے۔

لیکن ابھی تقریب ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ہندوستان کی وزیر خارجہ نے یہ دھماکہ خیز بیان دیا کہ کرتار پور راہ داری کھلنے کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ابھی سشما سوراج کے بیان پر غور ہو رہا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ نریندر مودی کی حکومت پاکستان سے بات چیت سے گریزاں ہے۔ ابھی لوگ اس سوال میں گم تھے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف کی حکومت کے ایک سو دن مکمل ہونے کی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کرتار پور راہ داری کی افتتاحی تقریب عمران خان کی گوگلی ہے کہ ہندوستان کی حکومت کو مجبورا اپنے دو وزیروں کو اس تقریب میں شرکت کے لئے بھیجنا پڑا۔

سشما سوراج اس پر سخت برہم ہوئیں اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے کہا کہ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک سکھ برادری کے جذبات کا کوئی احترام نہیں ہے اور آپ صرف گوگلی کراتے ہیں۔ سشما سوراج کا کہنا تھا کہ ہم آپ کی گوگلی کے پھندے میں نہیں پھنسے ہیں۔ ہمارے دو سکھ وزیر در اصل صرف گرودوارے میں عبادت کے لئے گئے تھے۔ سشما سوراج اور شاہ محمود قریشی کی اس نوک جھونک نے کرتار پور راہداری کی بنیاد پر دونوں ملکوں کے درمیاں کھڑے ہونے والے امن کی آشا کو ہلا کر رکھ دیا۔

شاہ محمود قریشی کے بارے میں تو نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے گوگلی کی بات کسی سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت کی تھی لیکن سشما سوراج کے بیان کے پس پشت وزیر اعظم نریندر مودی کی واضح حکمت عملی ہے کہ پاکستان کو راندہ زمانہ کرنے کے لئے اس پر سرحد پار دھشت گردی کو فروغ دینے کا الزام لگایا جائے اور اس بنا پر پاکستان سے مذاکرات سے انکار کیا جائے۔ پچھلے تین سال سے ہندوستان اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ لوگ ابھی نہیں بھولے کہ یہ وہی نریندر مودی ہیں جو دسمبر 2015 میں کابل سے دہلی واپس جاتے ہوئے اچانک لاہور میں اترے تھے اور میاں نواز شریف کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ان کی نواسی کی شادی میں شریک ہوئے تھے۔

 مبصرین کا کہنا ہے کہ اس وقت نریندر مودی واہگہ سے افغانستان تک براہ راست ریل رابطہ کے لئے اور دوسری مراعات کے لئے نواز شریف پر ڈورے ڈال رہے تھے اس میں جب ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو ان کے یکسر تیور بدل گئے اور پاکستان کا محاصرہ کرنے اور بلوچستان میں شورش بھڑکانے کا سلسلہ شروع کردیا اور پٹھان کوٹ پر شدت پسندوں کے حملہ کے بعد تو جنونی انداز سے پاکستان پر دھشت گردی کا الزام لگانا شروع کردیا اور جعلی سرجیکل اسٹرایک کی دھاک بٹھا کر اپنی فوجی برتری کے پھریرے لہرانے شروع کر دیے۔

کرتار پور راہ داری کے منصوبہ کے بارے میں ہندوستان کے میڈیا میں عجیب و غریب تاویل پیش کی جا رہی ہے۔ ہندوستان کے میڈیا کا کہنا ہے کہ کرتار پور راہ داری کے قیام کے سلسلہ میں پیش رفت پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایما پر ہوئی ہے جو ہندوستان کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں۔ اس سلسلہ میں ہندوستان کے میڈیا کی طرف سے جنرل باجوہ کے انداز فکر کے بارے میں کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی جاتی صرف یہ مبہم باتیں کی جاتی ہیں کہ پاکستان پرایک طرف چین کا دباؤ ہے اور دوسرے جانب امریکا کا دباؤ ہے اور پاکستان امریکا کی امداد کی بحالی کے لئے ہندوستان سے امن کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جنرل باجوہ لائین آف کنٹرول پر بڑھتی ہوئی معرکہ آرائی پر پریشان ہیں، اسی لئے وہ امن کی باتیں کر رہے ہیں۔

ہندوستان کے میڈیا کی رائے ہے کہ وزیر اعظم عمران خان بخوبی یہ جانتے ہوئے کہ نریندر مودی فی الفور اور بلا شبہ اگلے عام انتخابات سے پہلے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہوں گے وہ دونوں ملکوں کے درمیاں مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر زور دے رہے ہیں تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ پاکستان ہندوستان کے ساتھ امن کا خواہاں ہے لیکن ہندوستان کے عزایم کچھ اور ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نریندر مودی اس وقت، اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر پاکستان کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگلے عام انتخابات جیتنے کے لئے بھارتیا جنتا پارٹی نے ہندوتوا کی لہر کو تیز تر کرنے کے جو حکمت عملی شروع کی ہے، اگر اس وقت پاکستان کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کی گئی تو ہندوتوا کے حامی اس پر سخت ناراض ہوں گے اور نریندر مودی کی انتخابی حکمت عملی مدھم پڑ جائے گی۔

پھر اس وقت جب کہ کشمیر میں بڑے پیمانہ پر حریت پسندوں کا قلع قمع کرنے کے لئے ہندوستانی فوج نے کارروائی شروع کی ہے نریندر مودی کسی صورت نہیں چاہتے کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع ہو جس میں بنیادی موضوع کشمیر کا مسئلہ ہو گا۔ کشمیر میں حریت پسندوں کے خلاف ہندوستانی فوج کے بڑے پیمانہ پرآپریشن کا مقصد اس کی کامیابی کے بل پر عام انتخابات جیتنا ہے۔ لہذا نریندر مودی اس وقت کوئی ایسا اقدام کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوں گے جس سے کشمیر میں حریت پسندوں کے خلاف ہندوستانی فوج کے آپریشن میں کوئی رکاوٹ پیش آئے۔ بلا شبہ اس وقت پاکستان کے ساتھ مذاکرات نریندر مودی کے انتخابی حکمت عملی کے لئے مہلک ثابت ہوں گے، کوئی تعجب نہیں کہ کرتار پور راہ داری پر سشما سوراج نے جو خلفشار پیدا کیا ہے وہ بھی نریندر مودی کی حکمت عملی کا ایک سوچا سمجھا حصہ ہے۔

 

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani