غلط لہجے میں اردو بولنے والوں کا احسان!


کیا کسی مخصوص علاقے میں پیدا ہونے کے بعد آپ خود کو بادشاہ کہلوا سکتے ہیں؟ کیا آپ کے پاس چوائس ہوتی ہے کہ آپ نے کون سی زبان بولنے والے ماں باپ کے یہاں پیدا ہونا ہے؟ کیا پیدائش سے پہلے آپ اس بات کا حساب رکھ سکتے ہیں کہ پیدا ہونے کے بعد آپ کا لہجہ کیا ہو گا؟

اپنے ماں باپ کی زبان کے علاوہ باقی کوئی بھی زبان اگر آپ بولتے ہیں تو کیا اس میں ایسا ماہر ہوا جا سکتا ہے‘ جیسے کوئی اہل زبان ہو سکتا ہے؟ ایک بہت پرانے لطیفے کے مطابق آپ انگلینڈ جا کے صرف اس وجہ سے متاثر نہیں ہو سکتے کہ وہاں کا بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے.

اسی طرح آپ دلی یا لکھنو سے بھی متاثر نہیں ہو سکتے کہ وہاں بچہ بچہ فصیح اردو بولتا ہے۔ اگر آپ اندرون سندھ میں پیدا ہوئے ہیں یا آپ کے ماں باپ سوات سے تھے یا آپ مکران کے آس پاس کہیں جنم لے چکے ہیں یا خدا نے آپ کو پشین کے گردونواح میں اتارا ہے یا آپ کا آبائی علاقہ شجاع آباد ہے تو کیا ضروری ہے کہ آپ اردو اس طرح بولیں جیسے کہ اس کا دلی لکھنو والا لہجہ ہے؟

اگر آپ اپنی مادری زبان کے علاوہ کوئی دوسری بولی بولتے ہیں تو بابا یہ آپ کا احسان ہے اس زبان پر‘ اور یا آپ کی مجبوری ہے‘ کوئی تیسری صورت اس کے علاوہ نہیں ہو سکتی۔

احسان ان آ سینس کہ فرض کیا آپ اردو کو پسند کرتے ہیں (ویسے آپس کی بات ہے یہ معاملہ بھی پسند ناپسند سے زیادہ آپ کے آس پاس موجود لوگوں پر ڈیپینڈ کرتا ہے) اگر آپ کے اردگرد ماحول ایسا ہے کہ اردو ایک اعلیٰ زبان سمجھی جاتی ہے‘ آپ کے گھر والے اس سے متاثر ہیں‘ اسے اشرافیہ کی زبان سمجھتے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ آپ کو بھی اردو اس لیے پسند آتی ہو کہ آپ نے بچپن سے اسے سپیرئیر زبان کی سیٹ پر بیٹھے دیکھا ہے اور ٹی وی ریڈیو پہ اسے بولنے والوں کو سن کے متاثر ہوئے ہیں۔

اسی طرح اگر آپ ایسے گھر میں پیدا ہوتے جہاں انگریزی کو زیادہ اہمیت دی جاتی تو عین ممکن ہے کہ بچپن سے منہ بگاڑ کر آپ انگریزی بولنا سیکھ رہے ہوتے (اور اگر آپ قرۃ العین حیدر جیسی سنابری میں پیدا ہوئے ہوتے تو یقیناآپ فرنچ بولنے کیلئے غوطے کھا رہے ہوتے)۔

اگر ہم دلی اور لکھنو کی تہذیب پہ لکھی کتابیں اٹھائیں تو ہمیں بہت دلچسپ لگتی ہیں۔ ایک سے ایک باریک بات ہو گی۔ فلاں زیور ایسا نازک بنا ہوا تھا‘ فلاں کھانا ایسا تھا کہ دو چاولوں میں ایک کلو یخنی کھپا دی تھی‘ فلاں جانور ایسا تربیت یافتہ تھا کہ بادشاہ کے علاوہ کسی کو سواری نہیں کرنے دیتا تھا.

فلاں شہزادہ ایسا تھا کہ تلوار بازی میں کوئی اس کا مقابل نہیں تھا‘ فلاں گویا دیپک راگ سے آگ لگا دیتا تھا اور ملہار سے بارشیں برس جاتی تھیں‘ ناچنے والے ساری رات ناچ کے نہیں تھکتے تھے‘ کباب والے تک کا مصالحہ ایسا تھا جو آج تک خاندانی راز ہے۔مطلب ہر چیز اپنے کمال پر تھی۔ یہ ساری باتیں مانی جا سکتی ہیں۔ ایسا ممکن ہے کہ تاریخ کی تمام مہارتیں کسی ایک مخصوص وقت میں کسی تہذیب میں جمع ہو جائیں‘ لیکن اس علاقے میں رہنے والوں کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ اپنے چالیس پچاس سکوئر کلومیٹر کے اندر زبان کو بھی بند کر دیں؟

دلی والوں کو دیکھیں تو وہ پرانے شہر سے باہر والوں کو آج تک ”باہر والا‘‘ سمجھتے ہیں۔ لکھنو والے دلی والوں کی زبان ٹھیک نہیں سمجھتے۔ ایکس کیوز می‘ یہ کس قسم کا نک چڑھا پن ہے؟ یہ کون سا نشہ ہے بھائی جو آج تک ختم نہیں ہو رہا؟

1857ء سے بھی کتنے درجن سال پہلے بادشاہت رخصت ہو گئی‘ لیکن بل ابھی تک نہیں جا رہے۔ ایک پٹھان اگر اردو بولتا ہے اور اپنے مخصوص لہجے میں بولتا ہے تو آپ اس کا مذاق اڑاتے ہیں‘ پرانے لاہور کا رہنے والا اگر ر اور ڑ کو مکس کرتا ہے تو آپ کو تفریح لگتی ہے‘ سرائیکی اگر منہ کھولتا ہے تو وہ ریاستی کہلاتا ہے‘ سندھی اردو بولے تو آپ طنزیہ اسے سائیں کا خطاب دے دیتے ہیں‘ حد تو یہ ہے کہ خود اردو بولنے والوں میں بھی کاروباری طبقہ‘ قصائی پیشہ (سارا شاگرد پیشہ) اور سفید پوش (سو کالڈ اشرافیہ) کی زبان آج تک الگ ہے۔

کوئی روہتکی ہو جائے گا‘ کوئی بھیا کہلائے گا اور کوئی آج تک دلی والا ہو گا مطلب کیوں بھائی؟

آپ برتھ کوارڈینیٹس پر کس طرح فخر کر سکتے ہیں؟ یہ تو بالکل ایسے ہے جیسے کوئی سید یا پٹھان پیدا ہو اور ساری عمر اس بات پہ فخر کرتا فوت ہو جائے کہ میرا شجرہ سو فیصد خالص ہے۔ بھائی کیا آپ بائے چوائس وہاں پیدا ہوئے ہیں جہاں آپ کا نزول ہوا؟ آپ جو اردو بولنے والے ہیں‘ اگر آپ سندھ کے اندرون میں یا جنوبی پنجاب میں یا سرحد میں کہیں قبائلی پٹی کے آس پاس یا کوئٹہ میں پیدا ہوتے تو آپ کسی کا کیا بگاڑ لیتے؟

اس وقت اپنی مادری زبان کی وجہ سے اگر آپ خود کو کسی اہم مقام پر سمجھتے ہیں تو اس میں آپ کا ایسا کمال کیا ہے؟ اب یہ سوال ان تمام لوگوں سے ہے جو کسی بھی علاقے سے اپنی نسبت کو فخریہ پیش کرتے ہیں‘ کسی بھی قبیلے سے تعلق ظاہر کرنے کے لیے نام کے ساتھ خان‘ شاہ‘ راجپوت‘ شیخ یا کچھ بھی اور لگاتے ہیں۔

اور کچھ نہیں تو حسنین ملتانی‘ بشیر لاہوری یا عابد دہلوی بن جاتے ہیں۔ مطلب کیوں بھئی؟ یا تو ایک چنگڑ بھی فخر کرے کہ مجھے اللہ میاں نے کیسی اعلیٰ جگہ پر پیدا کیا ہے اور یا پھر ہم سب بھی اس مقام مخصوصہ کو چھوڑ کر نیچے اتریں اور دوسروں کو انسان سمجھیں‘ کیا خیال ہے؟

ہماری تمام زبانیں (جن کے غرور کا بوجھ ہماری نسلوں کی کمریں جھکا گیا ہے) تفریح کے وقت بہت اچھی ہیں‘ لیکن ذرا کوئی کام پڑا نہیں اور ہمارے کتے فیل ہو جاتے ہیں۔ بیمار ہونے کے بعد آپ میں سے کتنے ہیں جو اپنی علاقائی زبان میں لکھی درخواست دفتر میں جمع کروا سکتے ہیں؟

اور کتنے اردو والے اپنی پرائیویٹ نوکریوں میں ایسا کر سکتے ہیں؟ CSS کا امتحان دیتے وقت اردو کہاں کہاں اور کتنی کام آتی ہے؟ تو جان عزیز‘ اس وقت انگریزی زبان باپ ہے! اس میں بھی آپ کو معلوم ہے کہ لہجے کی وجہ سے کتنے لوگ بولتے ہوئے ہچکچاتے ہیں؟

آپ‘ میں‘ یہ ساتھ والا‘ وہ جو سامنے بیٹھا چائے پی رہا ہے وہ‘ ہم سب کے سب‘ کیوں؟ کیوں کہ ہماری ٹریننگ ایسی ہوئی ہے کہ جو زبان بولنی ہے وہ اہل زبان کے لہجے میں بولنی ہے اور یہ فساد کی وہ جڑ ہے جو ہمارے گوڈے گلا چکی ہے۔

تو یہ زبان کی درستگیاں (ایڈیٹر صاحب اسے درستی مت کیجیے گا مزا نہیں آتا)‘ یہ تلفظ کا چٹور پن‘ یہ محاوروں کی چیٹک‘ یہ لہجے کی فصاحت‘ یہ بیان کی بلاغت‘ یہ قاف اور خے کی درمیانی کھنک‘ یہ الفاظ کی املا‘ ان سب کو تیل لینے بھیج دیں‘ کیونکہ اگلی نسل ویسے بھی انگریزی میں لکھی ہوئی اردو (رومن) پڑھ رہی ہے۔

یہ تو موبائل بنانے والوں کا شکر کریں کہ انہوں نے بیچ میں اردو والا سین آن کر دیا ورنہ شاید دس سال پہلے ہی ڈیجیٹل اردو لکھنے والے نایاب ہو جاتے‘ سوائے چند کمپوزروں کے اور علاوہ چند دفتری مجبوروں کے‘ آپ کو اردو لکھنے والا نہیں ملنا تھا۔ چکر یہ ہے کہ دنیا سمٹ رہی ہے۔

آپ حق پر ہیں اگر آپ سو دلائل اس بات کے لیے پیش کرتے ہیں کہ آپ کو آپ کی زبان پر غرور کرنے کا حق دیا جائے۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب پوری پوری نسلیں اس کا عذاب سمیٹتی ہیں۔ مجھے صرف یہ بتا دیں کہ اردو تو چلو ایک طرف رہی ہم کسی بھی علاقائی زبان میں کس حد تک آگے جا سکتے ہیں؟

کتنا نیا عالمی ادب ہے جو اردو‘ پنجابی‘ سرائیکی‘ سندھی یا بلوچی میں ترجمہ ہوا ہے؟ انٹرنیٹ پہ کوئی بھی خبر تازہ ترین دیکھنی ہو تو کس زبان کو پڑھنا پڑتا ہے؟ چٹا ان پڑھ آدمی بھی انگریزی میں لکھا ہوا نوکیا‘ سیم سنگ اور ایل جی پڑھ لیتا ہے یا نہیں؟

تو بس اتنی سی بات ہے‘ جو سیکھ کر کچھ علم میں اضافہ کیا جا سکتا ہے وہ سیکھ لیجیے اور جو بفضل خدا ماں کے پیٹ سے سیکھ کر آئے ہیں اس پہ فخر کرنے کی حدیں مکانا ختم کریں۔ آس پاس کے سب لوگوں کو سہولتیں دیں‘ پیار دیں‘ ان کے لہجے قبول کریں‘ ستر سال ہو گئے یار اب یہ اہل زبان والے چکروں سے باہر آ جائیں باس۔ آداب عرض!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain