نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی پر قہقہوں کی گونج


میاں نواز شریف دو روز عدالتی استثنیٰ کے بعد آج احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس میں اپنے بیانات قلمبند کروانے کے لیے نو بج کر پچیس منٹ پر اپنے سیاسی رفیقوں کے ہمراہ کمرہ عدالت میں پہنچے۔ میاں نواز شریف نے کریم کلر سوٹ کے اوپر براؤن کلر کی ویسٹ کوٹ زیب تن کر رکھی تھی گلے میں اٹالین مفلر بھی تھا۔ میاں نواز شریف کی طرف سے یو ایس بی میں جوابات عدالت کو دہیے گئے۔ جج ارشد ملک نے میاں نواز شریف سے پوچھا کہ میاں صاحب آپ نے بچوں سے پوچھ لیتے کہ وہ کیا کاروبار کر رہے ہیں؟ میاں نواز شریف نے جواب دیا کہ بچے جوان ہیں ان پر پریشر ڈالنا اچھی بات نہیں تھی۔ اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ آپ کے بچے آ کر عدالت پیش ہو جاتے تو معاملات ہی ختم ہو جاتے صرف حسین نواز ہی آ جاتے اس پر میاں نواز شریف خاموش رہے۔

عدالت نے گیارہ بجے میاں نواز شریف کو کمرہ عدالت سے جانے کی اجازت دی اور دو بجے واپس آنے کا حکم دیا۔ میاں نواز شریف نے ایک اہم شخصیت سے ملاقات کرنی تھی اور ملاقات کی جگہ راولپنڈی سے سابق لیگی ممبر اسمبلی ملک ابرار کے چچا کے گھر تھی۔ ان کے چچا کا گھر احتساب عدالت سے متصل ہے۔ تجسس مجھے وہاں تک لے گیا۔ جب میں نے اپنے ذرائع سے پوچھا کہ کہیں چوہدری نثار کے لیے راستے ہموار کیے جا رہے ہیں۔ سوال پر ذریعہ مسکرا دیا۔

بارہ بجے میاں نواز شریف کمرہ عدالت میں واپس آئے اس وقت تک سندھ ہائی کورٹ کے سابق جسٹس ریٹائرڈ خواجہ نوید بھی کمرہ عدالت میں آ چکے تھے ان کی آمد کے ساتھ کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اُٹھا۔

ایک موقع پر احتساب جج ارشد ملک نے اپنے عدالتی عملہ سے کہا کہ اپ دس لوگ کام کرتے ہو اور پیپرز کی سیٹینگ نہیں ہوتی، عدالتی عملہ میں سے اکثریت باریش ہے۔ اس پر خواجہ نوید نے لقمہ دیا کہ سر مولویوں کی جلدی سٹینگ ہو جاتی ہے اس پر عدالت میں قہقہے بلند ہوئے۔

میاں نواز شریف بھی وکلا، جج اور نیب پراسیکیوٹرز کے چٹکلوں سے محظوظ ہوتے رہے میاں نواز شریف بذات خود کمال کی حس مزاح رکھتے ہیں۔

خواجہ نوید نے معزز عدالت سے مخاطب ہو کہا مائی لارڈ آپ گواہوں کی بات کرتے ہیں، ایسا کرتے ہیں تیس سے چالیس گواہ پیش کرتے ہیں جو یہاں آ کر ایک ہی بات کی گواہی دیں ”یا اللہ یا رسول نواز شریف بے قصور“ پھر نیب پراسیکیوٹر سے کہا جائے ان پر جرح کریں۔ پھر یہ کیا جرح کریں گے اس پر عدالت کشت و زعفران بن گئی۔

میاں نواز شریف کاغذات پر دستخط کرنے روسٹرم پر آئے تو انھوں نے ایک واقعہ سنایا کہ نناوے میں مجھے اٹک قلعہ سے چینی ساختہ جہاز پر بٹھا کے کراچی لے جایا گیا جب ہم نے اٹک سے پرواز کی تو میرا ایک ہاتھ ہتھکڑی لگا کے سیٹ کے ساتھ باندھ دیا گیا اٹک سے ملتان ہم تین گھنٹے میں پہنچے وہاں جہاز نے ری فیولنگ کروانی تھی۔ ری فیولنگ کے بعد جہاز نے ملتان سے اُڑان بھری اور تین گھنٹے میں کراچی پہنچا یعنی اٹک سے کراچی پہنچنے کے لیے ہمیں سات گھنٹے لگے۔

جب مجھے عدالت میں پیش کیا گیا اور خواجہ صاحب نے دلائل دینے شروع کیے تو انھوں نے جج صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ بہت بڑی زیادتی کی گئی کہ میاں نواز شریف کو جہاز کے ساتھ باندھ دیا گیا اگر دوران سفر جہاز کے ساتھ کچھ حادثہ پیش آ جاتا تو میاں نواز شریف اپنے بچاؤ کے لیے جہاز سے باہر چھلانگ کیسے لگاتے؟ میاں نواز شریف کی اس گفتگو نے عدالت کا ماحول خوشگوار کر دیا اور عدالت میں موجود ہر آدمی مسکرا رہا تھا۔

احتساب جج ارشد ملک نے جنگ عظیم دوم کا واقعہ سنایا جو کسی کتاب میں انھوں نے پڑھا انھوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران برطانیہ نے جرمنی کو خط لکھا کہ ہم عزت کے لیے لڑ رہے ہیں اور آپ پیسوں کے لیے۔ اس پر جرمنی نے جواب دیا کہ آدمی اسی کے لیے لڑتا ہے جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے پاس عزت پہلے سے موجود ہے اور ہمیں پیسوں کی ضرورت ہے اس لیے لڑ رہے ہیں۔

ازاں بعد ارشد ملک میڈیا سے مخاطب ہوئے اور بولے آج آپ لوگوں کے لیے بھی اچھی خبریں مل گئی ہیں۔ میں ان سے مخاطب ہوا اور کہا سر خبریں پہلے بھی مل جاتی تھی مگر آج بوریت نہیں ہوئی۔ میاں نواز شریف سے ملاقات کرنے والوں میں سردار ممتاز، عرفان صدیقی، ممبرانِ اسمبلی احسن اقبال، میاں جاوید لطیف، رانا ثناءاللہ، سینیٹر چوہدری تنویر، سینینٹر پرویز رشید۔ اصف کرمانی، بیرسٹر دانیال تنویر، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، میاں گل عمر فاروق، طاہرہ اورنگزیب، زیب جعفر، چوہدری جمیل، حامد میر، میئر اسلام آباد انصر عزیز شامل تھے
میاں نواز شریف نے کمرہ عدالت میں اپنے وکلاء سے بھی مشاورت کی۔ احسن اقبال اور عرفان صدیقی سے بھی پارٹی معاملات پر ڈسکشن کی۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui