جعلی اکاونٹ یا جھوٹے دعوے



روز بروز منظر ِعام آتے ہوئے جعلی بینک اکاونٹس کی داستان ، ان دنوں گلی سے لے کر ڈرائنگ روم تک ، زبان زد خاص و عام ہے ، اور FATF (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کی جانب سے یہ عندیہ دینے کے باوجود کہ یہ اکاونٹ دہشت گردی کے ساتھ منسلک ہیں، یہ خبریں نہیں دب رہیں اور نہ ان اکاونٹس کے سامنے آنے کا سلسلہ ہی رکتا دکھائی دیتا ہے۔
امریکی دباو پر گزشتہ برس پاکستان کو FATF کی جانب سے گرے لسٹ پر ڈال دیا گیا تھا، تاکہ پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے روکا جا سکے۔ ریڈ لسٹ میں شامل ہونے کی صورت میں پاکستان کےتمام بین الاقوامی لین دین اور تجارت بند ہو جائیں گے۔
یہ معاملہ اتنا مبہم اور ایسا لگاتار ہے کہ ملک کے وزیر اعظم اور چیف جسٹس اس کے خلاف کارروائی اور اس جعل سازی کے دھندے میں ملوث مجرموں کو بے نقاب کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ 100 ارب روپے کی رقم داؤ پر لگی ہے، جبکہ وزیر اعظم نے اپنی 100 روزہ تقریر میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ رقم 375 ارب روپے ہے۔ ان حالات میں مشکل یہ ہے کہ اعتبار کس پر کیا جائے، وزیر اعظم پر، ایف آئی اے پر، جے آئی ٹی پر، عدالتوں پر یا میڈیا پر؟
اگر وزیر اعظم کا کہنا درست ہے تو اس رقم کو بحق ڈیم فنڈ ضبط کرنا، اس فنڈ کو ایک قابل عمل حقیقت بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔
اگرچہ اطلاعات کے مطابق اب تک ایسے 500 اکاونٹس کا سراغ لگایا جا چکا ہے، اور 98 افراد کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالا جا چکا ہے، مگر تمام انگلیاں آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی جانب اٹھتی ہیں ، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اگر سبھی نہیں تو ان جعلی بینک اکاونٹس میں سے اکثر انہی کے نیٹ ورک کی جانب سے چلائے جا رہے تھے۔
اب تک جو بھی ہوا اچھا ہوا۔ مگر آئیے اس معاملےکی کچھ مزید کھدائی کی جائے ۔
زرداری گروپ کی جانب سے چلائے جانے والے مبینہ مافیا ، جس پر 35 ارب کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے، کو ایک طرف رکھتے ہوئے، اگر وزیر اعظم عمران خان کے کہے پر اعتبار کریں تو سوچنا پڑتا ہے کہ پھر باقی 340 ارب روپے کہاں چلے گئے؟
اب تک جتنے فالودہ والے، رکشہ والے، پھیری والے ،طلبا، عام آدمی وغیرہ اس متعدی سکینڈل کےسلسلے میں میڈیا کے سامنے پیش ہو چکے ہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتنی رقم اب تک سٹیٹ بینک میں جمع کروائی جا چکی ہے؟
کچھ بھی نہیں۔ اس کاغذی اور نشریاتی صحافت کے ‘ بڑےسکینڈل’ پر آنے والی خبروں کے مطابق ابھی تک اس میں سے کچھ بھی نہیں نکل سکا۔نہ تو کسی بینک کو شامل تفتیش کیا جاسکا ہے، اور نہ ہی اس سنگین بے ضابطگی پر ایف آئی اے، جو ان انکشافات کا سہرا اپنے سر سجا رہا ہے، کی جانب سے کسی بینک کو کوئی جرمانہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی صرف پیارے پاکستان میں ہوسکتا ہے۔
اصل ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر پاکستانی کو باور کروا دیا گیا ہے کہ یہ پوری طرح حقیقت ہے۔ واہ رے سادہ لوح پاکستانی شہری ، بدنامی اور رسوائی کی ہر کہانی پر جو فریفتہ ہو جاتےہیں۔
اس کہانی کی دوسری حقیقت یہ ہے کہ غبن کی خاطر جعلی اکاونٹ کے خلاف میں نے بذات خود سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے، مگرایک دہائی گزرنے کے باوجود کیس کا فیصلہ نہیں ہوا۔
ایک عام شہری جس چیز کو نہیں جانتا ، وہ یہ ہے کہ 11/9 کے بعد سے پاکستان میں تمام شیڈولڈ بینک، بینکنگ کے دو بین الاقوامی عمل بروئے کار لارہے ہیں، KYC (Know Your Customer) ایک ایسی پریکٹس ہے ، جس کے ذریعے تما م ریلیشن شپ مینجر اکاونٹ کھولتے وقت اپنے کسٹمرز کے کاروبار اور مالی حیثیت کے بارے معلومات حاصل کرتے ہیں، اور یہ پریکٹس اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک اکاونٹ چلتا رہتا ہے۔
دوسری پریکٹس یہ ہے کہ پاکستان میں تمام بینکوں کے کمپلائنس ڈپارٹمنٹ ہیں ، جن میں 50-100 ڈیٹیکٹو بینکر کام کرتے ہیں، جن کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ تمام اکاونٹس اور لین دین پر نظر رکھیں اور کوئی خلاف معمول لین دین نظر آنے پر بینک کو متنبہ کر دیں۔ وہ باقاعدگی سے ہر برانچ کا جائز ہ لیتے اور کمپلائنس یقینی بناتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر اس پریکٹس پر عمل درآمد کا شاہد ہوں ، جب ایک پراپرٹی بیچنے پر مجھے بینک کی جانب سےجمع کروائی گئی رقم کے ذرائع کا دستاویزی ثبوت دینے کے لئے بلایا گیا۔ یہ بینکوں کا انٹرنل آڈٹ سسٹم ہے، جو کم از کم ایک دہائی سے ہر بینک کی جانب سے لاگو کیا گیا ہے۔
کیا ہم میں سے کسی نے غور کیا ہے کہ وہ کون فرشتے ہیں ، جن کی جانب سے 340 ارب روپے جعلی اکاونٹس میں جمع کروائے گئے ، اور دو ماہ کے اندر ہی میڈیا کو اس کی خبر کر دی گئی؟اور وہ بھی ای -بینکنگ کے اس دور میں۔
کیا کسی کاروباری آدمی یا کسی کرپٹ سرکاری بندے کے لئے اس کا کوئی جواز نظر آتا ہے کہ وہ اپنی رقم جعلی اکاونٹ میں ڈال دے، تاکہ حکومت یا ایف آئی اے اسے ضبط کر سکے ، اور اگر یہ واقعتاً ہوا ہے تو اب اس رقم کو کون کنٹرول کر رہا ہے اور ثبوت کہاں ہیں؟
یہ سب جعلی اکاونٹ ، شخصی اکاونٹ تھے، تو آج تک کوئی ایک بینکر بھی اپنی پیشہ وارانہ ساکھ اور دیانت داری ثابت کرنے کے لئے اس کے خلاف میڈیا سے کیوں نہیں بولا کہ اربوں روپے کا مشکوک لین دین پکڑا گیا ہے؟
بے نامی اور جعلی اکاونٹ میں واضح فرق ہے۔ بے نامی اکاونٹس میں رقم کے اصل مالک کی طرف سے دوستوں، عزیزوں اور قابل بھروسہ ملازموں کے ذریعے سالوں تک لین دین ہوتا رہتا ہے ، جبکہ جعلی اکاونٹس ایک یا چند ایک ٹرانزیکشنز کے لئے ہوتے ہیں۔
کیا میڈیا نے کبھی ایسی خبر دی ہے کہ فالودہ والا یا رکشہ والا کے اکاونٹس میں کس نے اربوں روپے جمع کروائے اور اس میں کون سا بینک ملوث تھا؟
کیا ایف آئی اے، سٹیٹ بینک یا وزیر اعظم سیکرٹریٹ نے ان 500 سے زائد جعلی اکاونٹس کی کبھی فہرست مرتب کی یا 340 ارب روپے کے ان فنڈز کا کھوج لگانے کی کوئی کوشش؟ یا یہ سب صرف ہوا میں ہے؟
آخر میں ، ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ “فرشتوں” کے یہ فنڈز کس طرح ان جعلی اکاونٹس میں جمع کروائے گئے، اگر یہ کاونٹر کیش تھا تو جمع کروانے والے کا شناختی کارڈ بھی ہو گا(اس صورت میں کیشئر نے اپنے ہیڈ آفس یا سٹیٹ بینک کو کیوں خبر دارنہ کیا)، اگر یہ چیک/پے آرڈر کے ذریعے تھے تو اس صورت میں بھی واضح طور پر بھیجنے والے کے اکاونٹ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ مگر ایسا کچھ ابھی تک نہیں ہوا،یہی کہنا پڑے گا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
اور ہم سب اس پر اعتبار کئے بیٹھے ہیں،اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے اس کو کرپشن کا بڑا سکینڈل مانتے ہیں۔ ٹائمنگ پر خصوصی دھیان کی ضرورت ہے۔
یاد رہے، فالودہ والا اس سال 06 اکتوبر کو منظر عام پر آیا تھا!

عمران باجوہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمران باجوہ

مصنف کو تحقیقی صحافت کے لیے اے پی این ایس کی جانب سے ایوارڈ مل چکا ہے۔

imran-bajwa-awon-ali has 17 posts and counting.See all posts by imran-bajwa-awon-ali