کیا آپ بچپن میں جسمانی‘ ذہنی یا جنسی تشدد کا شکار ہوئے ہیں؟



میں پچھلے تیس برسوں میں نجانے کتنے مردوں اور عورتوں سے مل چکا ہوں جو اپنے بچپن میں جسمانی‘ ذہنی یا جنسی تشدد کا شکار ہوئے تھے۔ ان تجربات نے یا تو انہیں نفسیاتی مسائل کا شکار کر دیا تھا یا ان کی شخصیت میں ایک کجی پیدا کر دی تھی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ تشدد کرنے والے بیشتر افراد نہ تو اجنبی تھے اور نہ ہی دشمن۔ وہ ایسی شخصیات تھیں جن پر وہ بچے اعتماد کرتے تھے‘ اعتبار کرتے تھے۔ ان کی عزت کرتے تھے۔ ان کا احترام کرتے تھے۔ ان سے محبت کرتے تھے اور جب ان بزرگوں نے ان بچوں کے اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھایا تو وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے اور نفسیاتی طور پر بکھر گئے۔
مختلف لوگوں پر تشدد اور استحصال کے اثرات مختلف ہوتے ہیں۔ بعض مستقبل میں دوسروں پر بالکل اعتبار نہیں کرتے بعض بہت زیادہ اعتبار کرتے ہیں اور بعض ان پر اعتبار کرتے ہیں جن پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے اور ان پر نہیں کرتے جن پر اعتبار کرنا چاہیے۔
میں ایسے کئی لوگوں سے مل چکا ہوں جو جنسی تشدد کی وجہ سے تنہائی کی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ کسی سے نہیں ملتے۔ ان کا نہ کوئی دوست ہے نہ محبوب نہ شریکِ حیات۔ وہ احساسِ تنہائی کا شکار رہتے ہیں۔
میں ایسے لوگوں سے بھی مل چکا ہوں جو ہر کسی سے جنسی تعلقات قائم کر لیتے ہیں۔ وہ جنسی تعلقات ان کے جذباتی رشتوں کو متاثر کرتے ہیں۔ وہ جنسی تعلقات کی وجہ سے محبت، پیار، اپنائیت اور خلوص کے رشتے استوار نہیں کر پاتے۔ بعض مرد تو MADONNA/WHORE COMPLEX کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ یا تو عورت کو مقدس سمجھتے ہیں یا طوائف۔ وہ محبت اور رومانس کو ایک رشتے میں یکجا نہیں کر پاتے۔
بعض تشدد کا شکار بچے بڑے ہو کر PTSD کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہیں راتوں کو نیند نہیں آتی اور اگر نیند آئی ہے تو ڈراؤنے خواب ساتھ لاتی ہے وہ خواب جو ماضی کی اذیتوں کی یاد دہانی کراتے ہیں ایسے لوگوں کو تھیریپی کی ضرورت ہوتی ہے۔
میں اپنے مریضوں سے کہتا ہوں کہ وہ ایک ڈائری رکھیں اور اس میں ماضی کے سارے واقعات تشدد کے سارے حادثات رقم کر دیں۔ ایسا کرنے سے وہ ہلکا پھلکا محسوس کرنا شروع کریں گے۔ پھر وہ ایک ایسے شخص کو تلاش کریں جس پر وہ اعتبار کر سکتے ہیں۔ چاہے وہ دوست ہو محبوب ہو شریکِ حیات ہو یا ایک تھیریپسٹ۔ کسی اور انسان سے اپنا ماضی کا راز بتانے سے نفسیاتی زخموں کے اندمال میں مدد ملتی ہے۔
میں نے اپنے کلینک میں ایسے جوڑوں کا بھی علاج کیا جو اس لیے ازدواجی مسائل کا شکار تھے کیونکہ ان میں سے ایک ماضی میں جنسی تشدد کا شکار رہ چکا تھا۔ میں اس مریض سے کہتا ہوں کہ اپنے شریکِ سفر کو وہ واقعات بتائے تاکہ اسے ان کے نفسیاتی مسئلے سے ہمدردی پیدا ہو۔ ان حالات میں بعض مرد نامرد ہو جاتے ہیں۔ بعض عورتیں اپنے شوہر سے جنسی تعلقات قائم نہیں کرنا چاہتیں اور علیحدہ بستر اور کمرے میں سونا چاہتی ہیں۔ بعض عورتیں جب اپنے شوہر سے جنسی تعلقات قائم کرتی ہیں تو انہیں ماضی کے تکلیف دہ واقعات کے FLASHBACKS ہوتے ہیں جو انہیں بہت پریشان رکھتے ہیں۔
جوں جوں نفسیات کا علم ترقی کر رہا ہے اور ہم نفسیاتی مسائل کے بارے میں باخبر ہو رہے ہیں۔ توں توں لوگ نفسیاتی مدد حاصل کرنے میں ندامت محسوس نہیں کرتے۔ اب بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ جیسے ہم جسمانی بیماریوں کے علاج کے لیے میڈیکل ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اسی طرح نفسیاتی مسائل کے بارے میں کسی ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرنے میں کوئی عیب نہیں ہے۔
اگر کسی کو تھیریپسٹ نہیں ملتا تو اسے اپنے دکھ درد کا حال کسی ہمدرد دوست سے بیان کرنا چاہیے۔ دل کا حال شیر کرنے سے دل کا بوجھ کم ہوتا ہے اور زخموں کا اندمال ہوتا ہے۔
آخر میں میں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کا خیال رکھیں اور اس بات پر سنجیدگی سے غور کریں کہ ہم اپنے بچوں اور بچیوں کو جسمانی‘ ذہنی اور جنسی استحصال اور تشدد سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں تا کہ وہ جوان ہو کر نفسیاتی مسائل کا شکار نہ ہوں اور ایک صحتمند‘ خوشحال اور پر سکون زندگی گزاریں۔ بچوں کے بارے میں میری ایک غزل کے تین اشعار ہیں
وہ جس کسی کی بھی آغوشِ جاں کے بچے ہیں
نویدِ صبح ہیں سارے جہاں کے بچے ہیں
ہر ایک گھر کو جو حیرانیوں سے تکتے ہیں
وہ جس کی چھت ہی نہیں اس مکاں کے بچے ہیں
طلاق یافتہ ماں باپ کے حسیں بچے
کبھی تو باپ کبھی اپنی ماں کے بچے ہیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail