اعظم سواتی اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے


وزیر اعظم ہاؤس کے ترجمان کے مطابق سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر اعظم سواتی نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے اور کہا ہے کہ جب تک ان کے خلاف سپریم کورٹ میں چلنے والے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک وہ وزارت کا قلمدان اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔

وزیر اعظم ہاؤس کے ترجمان کے مطابق اعظم سواتی نے اس ضمن میں عمران خان سے ملاقات کی ہے اور کہا ہے کہ وہ ’اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے‘ مستعفی ہو رہے ہیں۔ ترجمان کے مطابق سینیٹر اعظم سواتی نے وزیر اعظم عمران خان سے اپنا استعفیٰ منظور کرنے کی درخواست کی ہے۔

اسی بارے میں

’آپ حاکم ہیں اور محکوم کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں‘

’جو صادق اور امین نہیں رہا اس کی نااہلی تاحیات رہے گی‘

آئین اور عدلیہ کے مطابق صادق اور امین کون؟

اعظم سواتی نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ وہ اس مقدمے کو خود لڑنا چاہتے ہیں اس لیے وہ وزارت کا سہارا نہیں لینا چاہتے۔

سپریم کورٹ نے وفاقی وزیر اعظم سواتی کے خلاف مقدمے میں ان کے خلاف آئین کے ارٹیکل 62 ون ایف کے تحت کارروائی کرنے کا عندیہ دیا ہے جو کہ کسی بھی رکن پارلیمان کی عمر بھر کی نااہلی سے متعلق ہے۔

اعظم سواتی نے اپنی رہائش گاہ کے باہر ایک غریب آدمی نیاز محمد کے ساتھ لڑائی جھگڑے کے معاملے میں مبینہ طور پر غیر قانونی احکامات نہ ماننے پر اسلام آباد پولیس کے سربراہ کی تبدیلی سے متعلق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس واقعے سے متعلق از خود نوٹس لیتے ہوئے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی تھی جنہوں نے اپنی رپورٹ میں اعظم سواتی کو اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

نیاز محمد نے جرگے کے بعد اعظم سواتی اور ان کے بچوں کو معاف کردیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اس راضی نامے کو قبول نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں اعظم سواتی کو ذمہ دار قرار دینے کے باوجود حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

عدالت نے وفاقی وزیر کے خلاف کارروائی کو آگے بڑھانے کے لیے سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید اور ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کو عدالتی معاون مقرر کر دیا ہے۔

اعظم سواتی کے خلاف یہ کیس یہاں تک کیسے پہنچا؟

وفاقی وزیر اعظم سواتی کے بیٹے کی مدعیت میں اسلام آباد پولیس نے پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ملزمان نے وفاقی وزیر کے گھر پر حملہ کیا تھا۔

اس مقدمے میں پولیس نے ایک بارہ سالہ لڑکے ضیا الدین کا نام بھی درج تھا تاہم سپریم کورٹ نے آئی جی کے تبادلے کا جب نوٹس لیا تو پولیس حکام نے اس کمسن ملزم کو رہا کر دیا۔

ضیا الدین کا کہنا تھا کہ اُن کی گائے اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں گھس گئی تھی جب اُنھیں واپس لے کر آئے تو مذکورہ وزیر کے کارندوں نے مبینہ طور پر اُنھیں تشدد کا نشانہ بنایا اور مقدمہ بھی اُن ہی کے خلاف درج ہوا۔

دوسری طرف وفاقی وزیر اعظم سواتی کا کہنا ہے کہ ملزمان نے اُن کے ملازمین کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی تھی لیکن اُنھیں تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی وزیر اعظم سواتی کا ’کام نہ کرنے اور ان کا فون نہ سننے کی وجہ‘ سے آئی جی اسلام آباد جان محمد کو تبدیل کردیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کا یہ زبانی حکم معطل کردیا تھا۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp