دُور کسی کونے میں مذہب روتا ہے


سیانے کہتے ہیں کہ انسان معاشرتی حیوان کے ساتھ ساتھ مذہبی جنونی بھی ہے۔ ہر فرد اور گروہ کسی نہ کسی مذہب سے موروثی رشتہ جوڑے ہوئے ہے۔ مذہب سلامتی ہے۔ دلوں کو جوڑنے کا نام ہے مگر ہمارے ہاں مذہب کو ہی توڑ توڑ کر کئی حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ بقول ابن انشا، ’ایک دائرہ اسلام ہوتا ہے جس میں پہلے لوگوں کو داخل کیا جاتا تھا مگر اب اس سے لوگوں کو خارج کیا جاتا ہے‘۔

آج علماء کرام تبلیغ کی بجائے تکفیر کا عمل اپنائے ہوئے ہیں سچ ہے کہ ایک تو دائرہ اپنی مرضی کا کھینچا جاتا ہے اوپر سے اس کے زاویے بھی اپنی مرضی کے لئے جاتے ہیں۔ ہمارے روایتی علماء ہمیشہ سے ہی سائنس اور جدید علوم سے شدید الرجک رہے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ جدید علوم سے ہماری دشمنی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے ان پڑھ ترین ممالک کی فہرست میں پہلے دس کے دس مسلم ممالک ہیں۔ اور پہلے دس پڑھے لکھے ممالک میں ایک بھی مسلم ریاست نہیں ہے۔ سائنس سے ہماری دوری اور نفرت کا یہ عالم ہے کہ اغیار نصف صدی قبل چاند سے ہو کے لوٹ بھی آئے مگر ہمیں زمین پر رہتے ہوئے عیدین پہ بھی چاند ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتا۔ اپنے ہاں نفرت ہی شاید خالص ترین شکل میں موجود ہے۔ ہمارے اک مولوی صاحب لندن جا کر سخت حیران ہوئے کہ سب مسلمان ایک ہی مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے۔ تاہم وہ ایک ماہ وہاں رکے اور سب کو اپنی اپنی مساجد میں بھیج کر وطن لوٹے۔

دوسری طرف اندھی تقلید ایسی بنجر زمین ہے جو خیر و برکت کے بیج چٹ کر جاتی ہے۔ صدیاں، مسلسل سفر کے باوجود بے ثمر رہتی ہیں۔ مساجد میں منعقدہ محافل میں نعت خوان حضرات پہ نوٹوں کی بارش لکھنوی تہذیب کی یاد تازہ کرتی ہے۔ مسجدوں میں لاؤڈ سپیکر کا پُر زور استعمال جزوِ لاینفک بن چکا۔ لاؤڈ سپیکر نہ صرف عبادات و معمولات میں خلل ڈالتا ہے بلکہ شور کی آلودگی کا سب سے بڑا منبع بھی ہے۔ عقیدت مند صرف اس صورت میں مساجد میں عطیات و رقوم دینے پہ رضا مند ہیں جب اُن کے نام مع آباؤ اجداد با آواز بلند آن ائیر ہوں۔

مذہبی تقریبات میں نت نئی اختراعات سے لگتا ہے کہ چند برس بعد مسجدوں میں ڈھول بجا کریں گے جیسے قبرستانوں اور مزارات پہ آتش بازی اور ڈھول ڈھمکے دیکھے جاتے ہیں۔ میلاد النبی کو تو اس قدر گلیمرائزڈ کر دیا گیا ہے کہ خود شان ِرسالت میں بے ادبی کا شائبہ ہو چلا ہے۔ ٹی وی پہ کھلے عام بغیر پردہ کے نوجوان خواتین کی نعت گوئی پوری دنیا دیکھتی اور سنتی ہے۔ ایک صاحب نے میلاد پہ ڈانس تک کروادیا۔ کچھ لوگوں نے اعتراض کیا تو فخر سے بولے کہ تمہارے ہاں بچہ پیدا ہو تو جشن مناتے ہو۔ کائنات کے والی کی آمد پہ میں کیوں نہ جشن مناؤں۔ اس کے بعد تو مزید بحث کی گنجائش نہ تھی کیونکہ مرتد اور گستاخ کہلوانے کا کسی کو شوق نہ تھا۔

ہمارے نبی ﷺ نے تو غیروں کو بھی اپنا بنایا پر ہم انہیں کے نام پہ اپنوں کو بھی غیر بنا رہے ہیں۔ ا ب ہم محض مسجدوں، اجتماعوں اور حج کے دوران دعائیں مانگنے اور سلفیاں لینے والا ہجوم ہی تو ہیں اور دشمنوں کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی بد دعائیں داغنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ کیا کبھی کسی عالم نے دوران خطبہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترغیب دی ہے۔ کھالیں اور چندہ جمع کرنے والوں نے کبھی اپنے طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے اس چندہ سے باہر بھجوایا۔

چند مذہبی احباب فنی ذہنی خرابی کا شکار رہتے ہیں۔ ان کے ہاں رواداری اور برداشت دور دور تک نہیں دِکھتی۔ ایسے عالموں کا ایٹمی نمبر  82 سے زائد ہوتا ہے اور ان سے باقاعدہ تابکاری اثرات شعلہ فشانی کرتے رہتے ہیں۔ وہ لوگوں کے ذہنوں کو بانجھ کرتے ہیں ان کے ادا کردہ جملے غیر منقوط ہو کر محض حملے رہ جاتے ہیں۔ چند احباب ایسے بھی ہیں جو جنت اور خصوصاً حوروں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ خاص کر ستر حوروں کا ذکر بڑا مسحور کن ہوتا ہے۔ مگر بیچاری خواتین کو جنت میں بھی اپنے ہی خاوند سے پالا پڑنے کا مژد ہ سُناتے ہیں۔

کچھ مذہبی طبقات کے ہاں اسلام رمضان المبارک میں دیکھنے میں آتا ہے اور عقیدت، مذہبی شعار، پرہیز گاری اور نماز کی پابندی کا اضافی شوق پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ ذوق و شوق اور جوش و خروش یکم رمضان سے عید الفطر تک جاری رہتا ہے۔ جوں جوں چاند گھٹتا ہے اسی ترتیب سے مذکورہ جوش و خروش بھی معدوم و مخدوش ہوتا نظر آتاہے اور آخر کار شیطان اور کچھ احباب گیارہ ماہ کی عبوری ضمانت پر رہا کر دیئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ احترامِ رمضان میں معطل جملہ سرگرمیاں از سرِ نو ظہور پذیر ہو جاتی ہیں۔ دین اپنی اصل میں من و عن موجود ہے مگر دین کے علمبردار اور پیرو کار اسے حسبِ خواہش ڈھالنے کے چکر میں ایسی تاویلیں گھڑ رہے ہیں کہ بقول اقبال، اﷲ اورجبرائیل بھی حیران ہیں۔

دین کے ساتھ اک بڑی نا انصافی یوں ہوئی کہ اس سے اخلاق،رواداری اور شائستگی الگ کی جا رہی ہیں اور تعصب،غصہ اور جذبات پروان چڑھائے جارہے ہیں۔ ہم ذاتی سوچ اور عقائد بزورِ شمشیر منوانے پہ بضد ہیں۔ اب فتووں کے لئے علم وسند نہیں بلکہ زبان ہی کافی ہے۔ مذہبی تہوار اور عبادتیں،انسان کیلئے سکون،برکت اورخوشی کا باعث ہیں مگر اختلافات اور نفرتوں کی چنگاریوں کی وجہ سے انہیں تہواروں پہ پورا ملک سولی پہ لٹکا رہتا ہے۔ ہمارے ملک کو اپنے دشنوں سے حفاظت کے لئے اتنی تگ ودو نہیں کرنا پڑتی جتنی اپنے دین کی رسومات اور تہواروں پر ہمارے غلط روّیوں کے موجب سر دردی بھگتنا پڑتی ہے۔ اب ہماری سیکیورٹی انرجی کا بڑا حصہ ان چیزوں پر خرچ ہو رہا ہے۔ ہم سیکیورٹی کے بغیر نمازیں نہیں پڑھ سکتے، مزارات پر نہیں جا سکتے اور تہوار نہیں منا سکتے۔

کبھی اﷲ کی توحید کی بنیاد پر لوگوں کو مشرک قرار دیا جاتا ہے تو عشق رسول میں سرشار لوگ دوسروں کو گستاخ، کمینہ اور نجانے کیا کیا کہہ دیتے ہیں۔ کبھی اہلِ بیت تو کبھی صحابہ کرام کے نام پر نقض امن کے اہتمام ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو عاشق ِرسولﷺ تو صوفی ہوتا ہے اور کسی کے دل دکھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا پر آج وہ صرف جذبات میں آکر رواداری اور برداشت کھو رہا ہے، لوگوں کے راستے بند کررہا ہے۔

اک جمِ غفیر سوشل عاشقان کا بھی ہے جو فیس بک پراسلام کو سہارا دئیے کھڑے ہیں۔ اﷲ نہ کرے کہ یورپ کی طرز پر ریاست اور مذہب کا معاملہ پیدا ہو۔ ان حالات میں سب سے پریشان حال مذہب ہی ہے کہ جس کے اپنے پیرو کار اس کی روح کو متاثر کررہے ہیں۔ ہمارے کردار اور گفتار میں وہ روح نظر نہیں آرہی۔ لگتا ہے کہ حکومت، معاشرے اور جذباتی لوگوں سے مذہب روٹھ کر کسی کونے میں گوشہ نشین ہو نے جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں حفیظ تائب کے یہ اشعار لمحہء فکریہ ہیں،

کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے، تیری تعلیم اپنائی اغیار نے

حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تجھے مجھ سے ناکردہ کار اُ متی یا نبی

سچ میرے دور میں جُرم ہے عیب ہے، جھوٹ فنِ عظیم آج لا ریب ہے

ایک اعزاز ہے جہل و بے راہ روی، ایک آزار ہے آ گہی یا نبی

یا نبی اب تو آشوبِ حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دیئے

دیکھ لے اپنے تائب کی نغمہ گری، بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).