پانچواں درویش


میں پانچویں درویش کا ہمزاد ہوں جسے تم لوگ آج سے دو ماہ پہلے جواد نظیر نامی ایک صحافی کے جثے میں لپیٹ کر قبرستان میانی صاحب میں دفنا کے بھول چکے۔ اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھے کہ ایک مادی، مرئی، کثیف اور ظاہری جسم کا خاتمہ ہوچکا۔ اور تم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ہمزاد ہے کس بلا کا نام۔ وہ بلا جو روحانی طورپر غیر مرئی، لطیف اور باطنی ہونے کے ناطے موت کے بعد بھی اپنا وجود برقرار رکھتی ہے ۔ ہمزاد زندہ رہتا ہے، روز قیامت تک اعمال کی گواہی کے لئے۔ زمان ومکان سے ماورا اس طاقتور وجود کو مسخر کرنے کے لئے جانے کتنے عاملین و کاملین نے اپنی زندگیاں تج دیں۔

آہ۔ ۔ !پانچویں درویش کا راندہ درگاہ ہمزاد نوحہ گر ہے، ان تمام لوگوں کا جو فکری لحاظ سے ازل کے تنہا ہیں اور جن کے محرم راز گور میں جا سوئے ۔ جن کی بات سننے اور سمجھنے والا کوئی نہیں۔ انہی میں سے ایک شخص تھا گوجرانوالہ کا جواد نظیر۔ لاغر، کمزوراور نحیف و نزار جسم کے باوجود اس نے اس قدر ریاضت کی کہ بالآخر ایک مادی، مرئی، ظاہری اور کثیف جسم، غیر مرئی، لطیف، روحانی، باطنی اور لطیف جسم کو تسخیر کرکے اس کا عامل کامل بن بیٹھا، اور میں ہمزاد اس کا موکل۔ ِزمان و مکان کی قید سے آزاد، کبھی اسے ژاں پال ساترے سے ملواتا تو کبھی چے گویرا سے، کبھی جامی و رومی سے تو کبھی سعدی و شیرازی سے، کبھی ٹالسٹائی، ترگنیف اور میکسم گورکی سے، کبھی والٹر ونچل، سٹیفن کنگ اور جان کولنز سے۔ کبھی وہ ارتھ شاستر کے اچاریہ چانکیہ کی راجدھانی میں جا گھستا تو کبھی کوک شاستر کے شریمان پنڈت کوکا رام کے جہان لذت کدہ میں۔ اس آوارہ اور سیماب صفت روح نے مجھے میری بساط سے زیادہ گھمایا پھرایا، اور مجھ ازل کے تنہا نے اس کی ہمراہی میں ایک زمانے کی سیر کی۔

وہ ٹھنڈے موسم میں یخ بستہ اور گرم موسم میں دہکتے فرش پر ننگے پنڈے سوتا اور ہفت آسماں کی سیر کرکے آنکھیں ملتا بالکل تروتازہ اٹھ بیٹھتا ۔ فاقہ کرکے حال مست رہتا، نان جویں پانی میں ڈبوکے من و سلویٰ کے مزے لیتا، کڑک چائے کی پیالی مل جاتی تو عیاشی ہوجاتی۔ اس کی فاقہ مستی رنگ لائی اور داتا کی نگری نے مہربان ہوکر اسے صاحب روزگار کردیا ۔ وہ صحافت کے بھٹہ خشت میں لفظوں کی اینٹیں بنانے پر مامور ہوگیا۔ ایک جیسی رٹی رٹائی پتھی پتھائی، لال بھوری اینٹیں۔ اچانک مزدوری کرتے کرتے وہ نظریاتی ہوگیا، دقیانوسی سوچ کے بنائے بنائے سانچوں کو توڑ مروڑ کر ایک طرف پھینک ڈالا ۔ فکر و فلسفہ کی مو شگافیوں سے روایت کے مردوں کو پاؤں تلے روندتا گزرتا چلا گیا۔ اس نے ژولیدہ فکری میں اپنا آپ زندہ رکھنے کے لئے سوچنے اور سمجھنے کی ساری طاقتیں حاصل کرلیں اور پھر انہی مخفی قوتوں کے بل پر کسی گمشدہ آتما کی کھوج اور اپنی ہی تلاش کے سفر پر چل نکلا۔ اس نے آئن سٹائن کے روپ میں نیا جنم لیا اور نیوٹن کے برعکس نظریہ اضافت کی سپیشل تھیوری کے تحت مادے کو نور میں تبدیل کرنے کا کھوج لگا لیا۔ وہ صاحب روزگار سے صاحب کرامت ہوگیا۔ پھر اس نے رومی و جامی بن کر آواز لگائی جو کسی نے نہ سنی۔

میر سے غالب اور ولی دکنی سے میر امن تک کوئی اس کی دسترس سے نہ بچا، سب کے الفاظ کی جادوگری اس کی مٹھی میں سمٹ آئی ۔ ایک طلسم ہوشربا اس پر کھلتا چلا گیا، اس کا حرف حرف بولنے لگا، اور پھر اس کا لہجہ اس قدر توانا اور گرجدار ہوتا گیا کہ ہر طبقہ اشرافیہ کے لئے چیلنج بن گیا۔ ایک حکومت آتی تو وہ کرسی پر بیٹھ جاتا، دوسری آتی تو اٹھا دیا جاتا۔ اس اٹھک بیٹھک سے تنگ آکر اس نے بکل ماری اور پانچواں درویش بن بیٹھا۔ درویش کا سچ کسے راس آتا ہے، اسے بھی نہ آیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے گدی نشینوں اور سٹیٹس کو کے مجاوروں نے اسے فکر معاش کے جال میں ایسا پھنسایا کہ وہ اپنا آپ بھول کر ضروریات، سہولیات، آسائشات حتیٰ کہ تعیشات کے گھنگھرو باندھ کر خواہشات کے ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالنے لگا۔ اپنے حال میں مست فقیر تن آسانی کا شکار ہوکر دنیا کی آسودگی کو زندگی کا حاصل بنا بیٹھا۔ کتابوں کی جگہ اس کے ہاتھ میں قیمتی موبائل آگیا، وہ اس پر بھی ادب تلاش کرتا، دنیا بھر کی تحریریں کھنگالتا، پڑھتا اور پھر کڑھتا۔ اس نے لکھنا چھوڑ دیا اور بیورو کریٹ بن کر گھومنے والی کرسی پر براجمان ہوگیا۔ توکل اور قناعت کی گدڑی اتار کر مخمل کا کوٹ اور جین کی پینٹ زیب تن کر لی۔ وہ دفتر آتا، نوکری انجوائے کرتا، خود ساختہ یاروں، نام نہاد دوستوں اور زمانہ ساز چاہنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر حالات حاضرہ پر تبصرے کرتا، خوش گپیاں کرتا، ہرنام سنگھ کے لطیفے سناتا، قہقہے لگاتا لیکن کسی کو اپنے اندر کا دکھ نہ بتاتا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے دکھوں کا مداوا سوائے اس کے اور کسی کے پاس نہ تھا۔ وہ بھرے مجمع میں تنہا ہوتا چلا گیا۔

تھری پیس سوٹ اور ٹائی میں اس کا دم گھٹنے لگا، چائے سگریٹ کے ساتھ اس کے سینے کی جلن اور اندر کی گھٹن بڑھتی گئی ۔ یہی وہ کمزور لمحہ تھا جب اس کے ہمزاد نے دیکھا کہ اس کا عامل، کامل نہیں رہا۔ دونوں کا نباہ مشکل ہوگیا، سرد جنگ شروع ہوگئی ۔ ہمزاد کو درویشی کی چاہ اور عامل کو جاہ کی ۔ جسے موقع ملتا، دوسرے کو دھوبی پٹرا مار کر ادھ موا کردیتا اور اپنی فتح کا جشن مناتا۔ عامل کمزور ہوتا اور پھر اپنے ہمزاد سے کنی کتراتا دور ہوتا گیا۔

آخری نوٹس اور چائے سگریٹ بند تو سانس بھی بند کا نوحہ لکھنے والوں کو اطلاع ہو کہ فاقہ جس کی شریعت اور پیاس جس کی طریقت ہو، اس کی سانسیں چائے سگریٹ کی محتاج رہتی ہیں نہ ہی کوئی آخری نوٹس اسے خوف زدہ کرسکتا ہے بلکہ وہ تو خود اپنے نوٹس پر جیتا اور مرتا ہے۔ اصل میں تو جواد نظیر اسی وقت مر گیا تھا جب وہ ریوالونگ چئیر کا گھمن گھیر بن گیا۔ اصل سے ہٹ کر بھی کوئی ذی روح اپنا وجود برقرار رکھ  پایا ہے۔ یہ حقیقت اس پر منکشف تھی کہ سقراط کو زہر کا پیالہ کیوں پینا پڑا، اور منصور سولی کیسے چڑھا۔ وہ جان چکا تھا کہ زہر مرنے کے لئے تھوڑا، اور جینے کے لئے بہت سارا پینا پڑتا ہے۔ وہ قسطوں میں موت خریدتا اور زندگی بیچتا رہا۔ تنگ آمد بجنگ آمد، پھر ایک روز اس نے ساہوکاروں کی بلیک میلنگ سے مکت ہونے کے لئے یکمشت ادائیگی کا فیصلہ کرلیا۔ گروی رکھی پر تعیش زندگی کی تمام آسائیشیں ترک کیں، کوٹ پینٹ اتار سفید لٹھا خریدا، قیمتی گھر اور لش پش کرتی گاڑی چھوڑ، یاروں کے کندھوں پر سوار ہو کر دو گز زمین میں مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گیا۔ عمربھر کا تھکا ماندہ، افسردہ اور تنہا انسان اور کرتا بھی کیا۔ اسے ادراک ہوچکا تھا کہ انسان جب اندر سے ٹوٹتا ہے تو باہر سے خاموش ہوجاتا ہے۔
اسے منوں مٹی تلے دفناکر حسب روایت بھول جانے والو!
درماندگی کے مارے اور ازل کے تھکے ہارے دشت بے نوا کے اس تنہا مسافر کو سونے دو۔ برسوں کے رتجگوں کی لالی سے اب بھی اس کی آنکھیں سرخ اور قطرہ قطرہ زہر حلق میں انڈیلنے والے بذلہ سنج ہونٹ نیلے پڑے ہیں۔
سونے دو، اسے سونے دو۔
یاد رکھو کہ جواد نظیر مرگیا، پانچواں درویش نہیں مرا۔ کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی سر پھرا عامل اسے پھر سے تسخیر کرے گا اور اس کا لفظ لفظ بولے گا۔۔۔ ہمزاد مسکرائے گا کہ یہ عملیات کی ہشت نگری ہے، ناممکنات سے ممکنات کی دنیا، جس میں enter کا دروازہ تو ہے، exit کا کوئی راستہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).