سلطنت شغلیہ اور ماچو مین


 

آج سے تقریباً پانچ سال پہلے ایک لاہوری لڑکے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ عوام سے اپیل کر رہا تھا کہ اگر پولیس والے ہمیں ماریں گے تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے۔ یہ ایک لڑکے کی بات نہیں۔ یہ ایک طبقے کی بات تھی۔ ایک پڑھا لکھا طبقہ جو اپنے ملک کو بیرونی دنیا کی طرح ترقی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔ جو ایک مثبت تبدیلی کے لئے پاؤں مار رہا تھا۔ بڑا عجیب حادثہ ہوا ہے۔ اس طبقے کے حصے بخرے ہو گئے۔ کچھ پرانے آزاد خیال ترقی پسند گھر ہو لئے۔ کچھ نئے وکھری ٹائپ کے انکی جگہ پر آ گئے۔ انقلاب کا سفر مختلف یو ٹرن لیتا انجانی راہوں کی طرف بڑھتا رہا۔

اس لڑکے جیسے کئی اور نوجوان بھی تھے جو رات گئے تک کراچی اور لاہور ڈیفنس کی روشن راہوں پر ون ویلنگ کرتے تھے، کاریں دوڑاتے تھے اور دن کو انقلاب کا علم ہاتھ میں لئے کار خیر کے لئے نکلتے۔ یہ نہ صرف ڈٹے رہے بلکہ کارواں میں نمایاں اکثریت اختیار کر گئے۔ یہ بڑے نایاب لوگ ہیں۔ نہ زیادہ پڑھے لکھے ہیں اور نہ ہی ان پڑھ اور جاہل ہیں۔ رنگ ڈھنگ اور لباس سے تعلیم یافتہ لگتے ہیں۔ گفتگو اور حرکات سے کچھ اور ہی گمان ہونے لگتا ہے۔ ٹی وی پروگرام میں گالم گلوچ کریں گے، تھپٹر کرسی چلا دیں گے۔ روز مرہ گفتگو میں بھی کچھ نہ کچھ ابنارمل ضرور کریں گے۔ ان کے کوئی لمبے چوڑے اصول ضابطے نہیں ہیں۔ سادہ سا فارمولہ ہے۔ جو لیڈر کہتا ہے وہی درست ہوتا ہے، اسے ہی سچ ماننا ہے، اسے ہی سچ ثابت کرنا ہے۔ دل سے کرنا ہے، دل سے ماننا ہے۔ الغرض لیڈر کی بونگیاں ان کی علمی دنیا کا حدوداربعہ ہیں۔ اس کے پار سب کچھ کفر ہے۔

 اب انقلاب آ چکا ہے۔ کل کے لڑکے بڑے اور جوان بوڑھے ہو گئے ہیں۔ کئی ایک تو اونچے عہدوں پر جا بیٹھے ہیں۔ اچھا لباس پہنتے ہیں، برانڈڈ چشمے لگاتے ہیں۔ جمود کے ستائے یہ نامکمل انگریز نہ صرف غلط انگریزی لکھتے ہیں بلکہ دھڑلے سے بولتے بھی ہیں۔ جو بوجہ قلت یا علت کسی بڑے عہدے پر نہیں بیٹھے وہ دن رات فیس بک اور ٹوئیٹر پر بیٹھے ہیں۔ کام سب کا وہی ہے۔ دشنام ترازی، الزام تراشی، اوچھا پن اور بدمعاشی۔

جن کے ہاتھ انقلاب سے پہلے ہی ماچس آ گئی تھی انہوں نے تب سے ہی حسب حیثیت گاؤں جلانا شروع کر دیا تھا۔ کچھ انقلاب کے بعد نکھر کر آ رہے ہیں۔ ہمراہ کیمرہ مین کبھی آستینیں چڑھائے رات گئے کسی کوتوال کی اوطاق پر پہنچ جاتے ہیں تو کبھی سر راہ ہی کسی محافظ شاہراہ کو لیکچر دے رہے ہوتے ہیں۔  ابھی چند روز پہلے ہمسائیوں کے ایلچی خانے پر حملہ ہوا تو چند گھنٹے بعد ایک صاحب کی ویڈیو وائرل ہو گئی جس میں وہ بلٹ پروف جیکٹ پہنے، پچھواڑے پستول ٹانکے درجن بھر محافظوں کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچے ہوئے تھے۔

حیرت ان کے خود ستائشی حربوں پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ قوم کا قیمتی مستقبل ان کے ہاتھ میں ہے۔ اندیشہ اس وقت کا ہے جب ان کا فن اپنے گل کھلا چکا ہو گا۔ نفسیات دانوں کا ماننا ہے کہ انسان کی شخصیت میں کچھ منفرد جینیاتی خصوصیات ہوتی ہیں اور کچھ انسان اس دنیا میں سیکھتا ہے۔ اس طرح جیسے ہی انسان تیسری دھائی میں قدم رکھتا ہے تو اس کی شخصیت ایک خاص شکل اختیار کر چکی ہوتی ہے جس میں زیادہ تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔

 یہ سارے ماچو مین شخصیت سازی کی عمر سے گذر چکے ہیں۔ اب ان میں کچھ زیادہ بدلنے والا نہیں ہے۔ سلطنت شغلیہ کی ہر دوسری شاخ پر بیٹھے یہ ماچو مین اپنے کام پر توجہ دینے کی بجائے دوسرے کے کام میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ جس کا کام انصاف دینا ہے وہ پانی کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے۔ جسے پانی پورا کرنا ہے وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ جسے سائنس چلانی ہے وہ دوسرے کی گائے بھینس دوہنے میں لگا ہے۔ جسے داخلی امور دیکھنے ہیں وہ سمندر پار لوگوں کے لئے غیر ملکیوں سے سینگ پھنسائے بیٹھا ہے۔

اس ملک کا بیڑہ غرق اسی ماچو مین ذہنیت نے کیا ہے۔ ہر وہ کام جس کی مخالفت میں یہ زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے تھے اب اس کے حق میں نئی دلیلیں دیتے ہیں، فراست کے گھوڑے دوڑاتے ہیں۔ اور پھر اس پر تعریف بھی بٹورنا چاہتے ہیں۔ ان سے بڑے ماچو مین بھی ہیں جو کئی دھائیوں سے ہر فن کے مولا بنے پھرتے ہیں۔ جب اپنا کام کرنے کا موقع آتا ہے تو دائیں بائیں چلے جاتے ہیں۔ کچھ کئے بغیر ہی قوم پر احسان جتانے کے منصوبے یا مواقع ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ عقل و دانش سے عاری یہ ماچو مین سلطنت شغلیہ کے ہر دل عزیز، نیک نیت اور نادان شہزادہ سلیم کے پاؤں کی زنجیریں ہیں۔ یاد رکھیں اسی صورت حال کے مدنظر ایک گمنام مغربی دانشور کا ایک قول بہت مشہور ہے کہ اگر عمل نہ کیا جائے تو ” اچھی نیتیں ہی جہنم کا راستہ ہموار کرتی ہیں۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).