دماغ کا دہی بن گیا ہے صاحب۔



کچھ سمجھ نہیں آنے کا یارا ،کیا چکر چل رہا ہے ،عجیب گورکھ دھندہ ہے ،کس کونے کو پکڑیں اور کس کنارے سے شروعات کریں ۔

تبدیلی کی ہوا ایسی تیز کہ مانند طوفان ہے ،ایسا لگے کہ شہر کے ساتھ سونامی ٹکرا گیا ہو،اور ٹاکرا بھی ایسا کہ واضح ایکسیڈنٹ بھی نہیں اور بچت کے آثار بھی نہیں ،بس طوفان آیا ،ساحل سے ٹکرایا اور جلدی سے یوٹرن لیا مگر کچھ لہریں فصیل شہر سے ٹکرا گئیں اور شدت سے ٹکرا گئیں ۔

سمجھ نہیں آ رہی کہ کشتی اس بھنور سے کیسے نکلے گی اور صحیح سلامت کنارے کون لگائے گا ،اب تو وہ صدا بھی سننے کو کان ترس گئے کہ کون بچائے گا پاکستان ؟

تبدیلی کے دریا میں ایسے غوطہ زن ہوئے کہ سانس پھول گیا اور آکسیجن نایاب ٹھہری مگر پھر بھی زندگی کے آثار باقی ہیں وہ بھی خال خال یعنی کہ مرنے اور جینے کے درمیان کوئی زندہ لاشا ہو ۔

فرمودات کو دیکھیں تو پھر وہی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ بندہ کیا کرے، واضح احکامات بھی سمجھ نہیں آتے اور حکم بھی ایسے جیسا کہ “رکو مت جانے دو”،اب میرے جیسا سیدھا سا نااہل انسان کیا اور کیسے سمجھ پاوے۔

فرمایا کہ ضیاع ہے ،ملک کا بھی اور قوم کا بھی ،سب سے بڑا نقصان قوم کے خزانے کا ہے، پھر گاڑیاں بک گئیں اور ان کا اتوار بازار لگ گیا، اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنے کی اشتہاری مہم چل پڑی تھی ۔

فرمایا کہ یہ چیز فضول ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ،حاکم کا کہا سر آنکھوں پر ،چنانچہ پھر اشتہاری مہم چلی، بازار سجے اور بھینسیں بک گئیں پھر ارشاد ہوا کہ میری قوم بھینسیں پالو اور کٹے کی افزائش نسل کے اقدامات کیے جائیں ،بندہ حیران و پریشان کہ خود بھینسیں بیچ رہے ہیں اور ہمیں ترغیب دی جا رہی ہے کہ کٹے کا گوشت ایکسپورٹ کرنا بڑا ہی منافع بخش کاروبار ہے۔

فرمایا کہ مرغیاں پالیں ،وہ انڈے دیں گی ،ان انڈوں سے بچے نکلیں گے ،وہ بڑے ہو کر مرغیاں بنیں گی پھر وہ انڈے دیں گی یوں ان کی نسل بڑھتی چلے جائے گی ،دوسری طرف یہ بھی حکم دیا کہ اپنی نسل پہ کنٹرول کریں ،منصوبہ بندی کی جائے تاکہ آبادی کم ہو گی تو مسائل بھی کم ہونگے۔ ایک طرف پیداوار میں اضافے پہ زور اور دوسری جانب اپنی نسل روکنے کے احکامات جاری ہوں تو بندہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ جناب والا ! کیا کریں۔

جب اس طرح کے اقدامات دیکھتا ہوں تو دماغ سوچتا ہے اور عقل سے سوال کرتا ہے کہ یہ کیا دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے ،کوئی صورت نظر نہیں آتی ،کوئی امید بر نہیں آتی مگر ڈالر کی پرواز کو دیکھیں پھر نئے پاکستان کے حسین خواب کو ملاحظہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ہر آزمائش کے بعد آسائش ہوتی ہے اور جب کچھ سمجھ نہیں آوے گا تو پھر یہ جان لیجیو کہ ہر برے کام کا گندہ نتیجہ ہوتا ہے اور ہر گناہ پہ سزا ملتی ہے اور جب سزا کا توازن بگڑتا ہے تو بندے پہ عذاب مسلط ہو جاتا ہے۔

نئے پاکستان کے معماروں سے کچھ گذارشات ہیں کہ ہمیں ترغیب اور اصلاحی لیکچرز کی بجائے عملی کام کر کے دکھائیں تاکہ ہم انڈوں سے چوزے بھی پیدا کر سکیں اور بھینسوں سے کٹوں کی افزائش نسل کرتے ہوئے میٹ ایکسپورٹر بن سکیں، تاہم اس طرح کی باتیں اور اصلاحی تقاریر تو ہماری مسجد کے امام صاحب اور موٹیویشنل سپیکر بڑے ہی خوب انداز میں کرتے ہیں ۔

آپ حاکم وقت ہیں تو رعایا کو مشورے دینے کی بجائے ان کی فلاح کے لیے عملی اقدامات کریں ،کیونکہ اگر یہی صورتحال چلتی رہی اور آپ موٹیوشنل تقاریر ہی جھاڑتے رہے تو پھر وہی ہوگا جو اس بادشاہ کے ساتھ ہوا تھا۔ جو ہر مسئلے کا حل کے لیے یہی کہتا کہ حلوہ بنایا جائے۔ جب دشمن ملک کی فوجیں بادشاہ کی ریاست پر حملہ آور ہوئیں تو بادشاہ نے مسئلے کے حل کے لیے حلوہ بنانے کا حکم صادر کیا اور جب دشمن فوجیں اس کے محل کا گھیراؤ کیے ہوئے تھیں تو وزراء نے پوچھا کہ کیا کرنا چاہئے۔
حلوہ بنایا جائے ،بادشاہ نے جواب دیا ۔

خدارا! باتوں کا نہیں عمل کا وقت ہے اور ایسا عمل جو عاملہ بی بی کی بجائے تجربہ کار لوگوں کی مشاورت سے کیا جائے تاکہ ملک کا فائدہ ہو،عوام کو سکون کا سانس لینے کا موقع مل سکے اور ریاست صحیح معنوں میں ایک فلاح ریاست بن سکے تو شروعات کیجئے اور منزل کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بسم اللہ کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).