بریکسٹ ریفرنڈم: سرمائے کی شکست یا انسانیت کی ہار


\"edit\"دوسری جنگ عظیم کے بعد تعاون اور یکجہتی میں اضافہ کےلئے یورپ میں جس اشتراک اور اتحادی عمل کا آغاز کیا گیا تھا، جمعرات کو برطانیہ میں منعقد ہونے والے ریفرنڈم میں اسے شدید دھچکہ لگا ہے۔ اس طرح اقتصادی ترقی ، سماجی بہبود اور فنی تعاون و ارتقا کےلئے 65 برس قبل دیکھے جانے والے خواب کے منتشر ہونے کا آغاز ہوا۔ برطانوی عوام کی طرف سے ریفرنڈم میں یورپین یونین سے نکلنے کے فیصلہ کے بعد مختلف یورپی ملکوں کی قوم پرست تحریکیں بھی اپنے ملکوں میں ایسا ہی ریفرنڈم کروانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بعض ماہرین اس ریفرنڈم کے نتیجہ سے اس قدر ہراساں ہوئے ہیں کہ وہ یورپین یونین کے خاتمہ کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ بہت سے پرجوش تبصرہ نگار اسے سرمائے کی ناکامی قرار دے رہے ہیں کیونکہ یہ تاثر بھی تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ یورپ میں اقتصادی اشتراک سے دراصل سرمایہ دار کو ہی فائدہ ہوتا ہے اور عام آدمی کو اپنے ہی ملک میں اس کے حقوق و اختیار سے محروم کیا جاتا ہے۔ اس لئے برطانیہ میں بریکسٹ کی کامیابی کے بعد اس کے لیڈروں نے اسے برطانیہ کا ’’یوم آزادی‘‘ بھی قرار دیا ہے۔

تاہم اس بات کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا کہ اس فیصلہ سے برطانیہ کے رہنے والوں کو کس حد تک بیورو کریسی اور برسلز کے تسلط سے آزادی مل سکتی ہے۔ کیونکہ برطانیہ بہرحال یورپ کا حصہ ہے اور اس کی 50 فیصد تجارت یورپی یونین میں شامل ملکوں کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ فی الوقت تو وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون یہ کوشش کر رہے ہیں کہ یورپی اتحاد سے نکلنے کا عمل چند مزید ماہ کےلئے موخر کروا لیا جائے جبکہ یورپی یونین کے لیڈروں نے واضح کیا ہے کہ برطانیہ کو اس ریفرنڈم کے بعد عوام کی خواہش و مرضی کے مطابق جلد از جلد یونین سے علیحدہ ہونے کا عمل شروع کرنا چاہئے۔ ان لیڈروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے ریفرنڈم سے عالمی اور یورپی مالیاتی منڈیوں میں بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ اس لئے برطانیہ جس قدر جلد نکلنے کے عمل کو پورا کرتے ہوئے، اپنی قومی معیشت کو نئی بنیادوں پر استوار کرنے کے کام کا آغاز کرے گا ۔۔۔۔۔ خود برطانیہ اور یورپی منڈیوں کےلئے اتنا ہی بہتر ہو گا۔ برطانیہ میں ہونے والا ریفرنڈم کوئی حتمی اور قانونی فیصلہ نہیں ہے۔ اس کے بعد برطانیہ از خود یورپین یونین سے علیحدہ نہیں ہو جائے گا بلکہ یہ ریفرنڈم صرف ایک سیاسی رائے کا اظہار ہے۔ اب یہ برطانوی پارلیمنٹ پر منحصر ہے کہ وہ اس اکثریتی رائے کے مطابق قانون سازی کرے اور یورپی یونین سے علیحدگی کے عمل کا آغاز کیا جائے۔

وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون یورپین یونین کا حصہ رہنے کی مہم چلاتے رہے ہیں۔ اگرچہ ان کی پارٹی کنزرویٹو پارٹی نے اس مہم میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ٹوری پارٹی کے لیڈروں کی کافی بڑی تعداد کے علاوہ حکومت میں شامل 5 وزیروں اور نصف کے لگ بھگ ارکان پارلیمنٹ نے یورپ سے علیحدگی کےلئے کام کیا تھا۔ اس لئے اب وزیراعظم چاہتے ہیں کہ جن لوگوں نے علیحدگی کی مہم چلائی تھی، وہی اقتدار سنبھالیں اور یورپی یونین کے ساتھ علیحدگی کےلئے مذاکرات کا آغاز کریں۔ ڈیوڈ کیمرون نے اکتوبر سے وزارت عظمیٰ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ 2 اکتوبر کو حکمران کنزرویٹو پارٹی کی کانفرنس منعقد ہو گی۔ تب ہی نئے قائد ایوان کا فیصلہ بھی ہو گا۔ غالب امکان یہ ہے کہ یونین سے نکلنے کی پرزور مہم چلانے والے پارٹی لیڈر بورس جانسن یا مائیکل گووے برطانیہ کے نئے وزیراعظم ہوں گے۔ اس طرح وہ اس کام کو مکمل کرنے کےلئے عملی اور قانونی اقدامات کا آغاز کر سکیں گے، جس کےلئے انہوں نے برطانوی عوام کی رائے ہموار کرنے کےلئے دن رات ایک کیا تھا۔ اس دوران یورپی لیڈروں کی جانب سے برطانیہ کو علیحدگی کی درخواست جلد از جلد دائر کرنے کےلئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یورپی یونین کے قیام کے بعد سے 28 رکنی اقتصادی اتحاد میں سے کسی ملک نے ابھی تک علیحدہ ہونے کا اقدام نہیں کیا ہے۔ اس لئے برطانوی ووٹ کے بعد کسی اہم ملک کے یورپی یونین سے باہر نکلنے کا عمل برطانوی حکومت کے علاوہ برسلز کی بیورو کریسی اور یورپی لیڈروں کےلئے بھی ایک نیا اور مشکل تجربہ ہو گا۔

طریقہ کار کے مطابق اب برطانیہ کو معاہدہ لزبن کی شق 50 کے تحت علیحدگی کی درخواست دائر کرنا ہو گی۔ ایک رکن کے طور پر برطانیہ متعدد معاہدوں ، پروٹوکول اور قواعد و ضوابط کا پابند تھا۔ اس لئے علیحدگی کے عمل میں ان سب کو تبدیل کرنے کےلئے طویل مذاکرات ہوں گے۔ اس مقصد کےلئے معاہدہ لزبن میں دو سال کی مدت رکھی گئی ہے۔ لیکن برسلز کی طرف سے جلدی کرنے کے جو اشارے دیئے جا رہے ہیں، ان کی روشنی میں تو کہا جا سکتا ہے کہ یورپی لیڈروں کی خواہش ہو گی کہ یہ عمل جلد از جلد پورا ہو۔ اس خواہش کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یورپی یونین کے لیڈر اتحاد کو مزید نقصان سے بچانے اور دیگر 27 رکن ملکوں میں بے یقینی اور بے چینی کو ختم کرنے کےلئے نئے اور ٹھوس اقدامات کا فیصلہ کرنا چاہیں گے، جو برطانیہ کے شامل رہنے کی صورت میں ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ یورپی یونین برطانیہ کی علیحدگی کے بعد لندن کےلئے سخت تجارتی اور معاشی شرائط بھی عائد کر سکتی ہے۔ اس طرح دیگر رکن ملکوں کو یہ پیغام دیا جا سکے گا کہ یونین چھوڑنے کی صورت میں انہیں کیسی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

یورپی اقتصادی اتحاد کی تاریخ میں کسی رکن ملک کی علیحدگی چونکہ ایک نیا تجربہ ہے، اس لئے کوئی بھی یہ پیش گوئی کرنے کےلئے تیار نہیں ہے کہ اس علیحدگی کا برطانیہ کی معیشت یا یورپی یونین کے مستقبل پر کیا اثر مرتب ہو گا۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے گزشتہ ہفتہ کے دوران کہا تھا کہ اگرچہ اس عمل کے اقتصادی اثرات کا اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ’’منفی اور شدید‘‘ ہوں گے۔ جمعرات کو علیحدگی کے حق میں فیصلہ سامنے آنے کے بعد ہی اس کا اندازہ ہونے لگا تھا۔ برطانیہ کے علاوہ دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹ پر اس فیصلہ کا منفی اثر مرتب ہوا تھا۔ برطانوی اسٹرلنگ پاؤنڈ کی مالیت میں دس فیصد تک کمی نوٹ کی گئی تھی۔ ماہرین اقتصادیات یہ قیاس کر رہے ہیں کہ علیحدگی کے نتیجے میں برطانوی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو سکتی ہے اور ملک کی قومی پیداوار کے علاوہ برآمدات بھی بری طرح متاثر ہوں گی۔ یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دوسرے یورپی ملکوں سے لوگوں کی آمد رک جانے اور ملک میں دوسرے ملکوں سے آنے والے امیگرنٹ ورکرز کے واپس جانے کی صورت میں ملک کے بڑے شہروں میں املاک کی قیمتوں پر منفی اثر مرتب ہو گا۔ صنعتوں کے علاوہ تجارت اور خاص طور سے سیاحتی شعبہ بری طرح متاثر ہو گا۔

جس طرح یورپ میں اقتصادی تعاون و اشتراک کو بڑھانے اور مل جل کر معیشت کو بڑھاوا دینے کی خواہش کے نتیجے میں یورپی یونین وجود میں آئی تھی، اس طرح اس کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں میں انتہا پسند قوم پرستوں کا اثر و رسوخ واضح طور سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کے خواہشمند بعض لیڈر اور اکثر لوگ بنیادی طور پر ملک کی معاشی بدحالی ، بے روزگاری میں اضافہ اور قومی معاملات پر کنٹرول بحال کرنے کےلئے اس مہم میں شامل تھے۔ لیکن اس کے نتیجے میں فاصلہ اور دوری پیدا کرنے کا جو رویہ ابھر کر سامنے آیا ہے، وہ تعصب ، امتیازی سلوک اور کسی حد تک نسل پرستانہ رجحان کی تقویت کا سبب بنے گا۔ برطانیہ میں بھی یورپی یونین سے نکلنے کی مہم کا آغاز برطانیہ کی انڈیپینڈنٹ پارٹی INDEPENDENT PARTY نے کیا تھا۔ یہ پارٹی تارکین وطن کے سخت خلاف ہے اور دوسری ثقافتوں اور عقائد کےلئے حالات کار کو مشکل بنانا چاہتی ہے۔ اسی طرح ہالینڈ میں انتہا پسند قوم پرست فریڈم پارٹی اور فرانس میں نیشنل فرنٹ علیحدگی کےلئے کوشش کر رہا ہے۔ برطانیہ کے ریفرنڈم کے بعد ان پارٹیوں نے بڑھ چڑھ کر خوشی کا اظہار کیا ہے اور اپنے اپنے ملکوں میں یونین سے نکلنے کےلئے ریفرنڈم کروانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اسی طرح امریکہ میں صدارتی انتخاب میں ری پبلکن پارٹی کے امیدوار بننے کے خواہشمند، انتہا پسند اور قوم پرست لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی عوام بھی اسی طرح اپنا ملک واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس بیان کا پس منظر مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی اور میکسیکو کے لوگوں کی آمد پر کنٹرول کرنے کےلئے دیوار تعمیر کرنے کی خواہش جیسی تجاویز ہیں۔ اس لئے اس بارے میں بھی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کےلئے جو مہم چلائی جاتی ہے، وہ صرف سرمایہ داروں کی زیادہ قوت کے خلاف احتجاج نہیں ہے بلکہ دوسرے ملکوں کے لوگوں کے ضرورت مند لوگوں کو اپنے ملکوں میں داخلے سے انکار کرنے کی مہم ہے۔ اس طرح یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ برطانیہ کا ریفرنڈم سرمائے کی شکست ہے یا اس میں انسانی ہمدردی اور یکجہتی کی روایت ہاری ہے۔

برطانیہ میں یورپی یونین سے نکلنے کی بحث کا آغاز بھی 2014 میں قوم پرست انڈیپینڈنٹ پارٹی کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے ہوا تھا۔ اس لئے اس وقت ڈیوڈ کیمرون کو انتخاب جیتنے کی صورت میں ریفرنڈم کروانے کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ 2015 میں انتخاب جیت کر انہیں اپنا وعدہ پورا کرنا پڑا۔ لیکن وہ یورپی یونین چھوڑنے کے میں نہیں تھے۔ انہوں نے ریفرنڈم میں کامیابی کےلئے کوشش کی لیکن مشرقی اور جنربی یورپ کے بحران زدہ ملکوں سے آنے والے تارکین وطن کی آمد کے معاملہ پر ملک میں خوف کی کیفیت پیدا کر دی گئی۔ جمعرات کے ریفرنڈم میں بریکسٹ (یہ لفظ BREXIT برٹن اور ایگزٹ کا مخفف ہے۔ اسے یورپی یونین سے نکلنے کی تحریک کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے) کی کامیابی دراصل اسی خوف کی کامرانی ہے۔

ریفرنڈم کے نتائج سامنے آنے کے فوری بعد برطانیہ میں ایک دستخطی مہم شروع کی گئی ہے جس پر تادم تحریر پندرہ لاکھ کے لگ بھگ لوگ دستخط کو چکے ہیں۔ اس پٹیشن میں اس سوال پر دوبارہ ریفرنڈم کروانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس دوران یہ اندیشے بھی سامنے آنے لگے ہیں کہ یورپی یونین سے نکلنے کی صورت میں اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ میں علیحدگی کی تحریک قوت پکڑے گی۔ لندن میں ایک علیحدہ تحریک شروع کی گئی ہے جس میں شہر کے میئر صادق خان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ لندن کو برطانیہ سے علیحدہ کرتے ہوئے اسے بدستور یورپی یونین کا رکن بنانے کی درخواست دائر کریں۔ ریفرنڈم میں ڈالے جانے والے ووٹوں سے برطانیہ کے اتحاد کے بارے اختلافات بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔

یوکے یا یونائیٹڈ کنگڈم، انگلینڈ، ویلز ، اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ پر مشتمل ہے۔ ریفرنڈم میں انگلینڈ اور ویلز میں بالترتیب 53 اور 52 فیصد لوگوں نے یورپی یونین سے نکلنے کی رائے دی ہے جبکہ اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ کے عوام نے 62 اور 56 فیصد کی شرح سے یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اب اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نے کہا ہے کہ اگر برطانیہ یورپی یونین سے نکلتا ہے تو اسکاٹ لینڈ میں علیحدگی کےلئے ازسرنو ووٹنگ ضروری ہو گی۔ 2014 میں 46 فیصد لوگوں نے خود مختاری کےلئے ووٹ دیا تھا۔ شمالی آئر لینڈ میں بھی اسی قسم کا رجحان موجود ہے۔ اس لئے یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی صرف یورپ کےلئے ہی دھچکہ نہیں ہو گا بلکہ یہ برطانیہ کے اتحاد کو بھی پارہ پارہ کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments