پنجاب میں پہلے سے موجود قابل لا افسران کو برقرار رکھنے پر غور


حکومت نے حال ہی میں ایڈیشنل اور ڈپٹی اٹارنی جنرلز کی تعیناتیوں کا مرحلہ کافی لے دے کے بعد پار کیا ہی ہے کہ اب پنجاب میں ایڈیشنل اور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرلز کی تعیناتیاں کا معاملہ حکومت کو مشکل سے دو چار کیے ہوئے ہے۔ خبریں آتی رہیں کہ وزیر قانون فروغ نسیم، بابر اعوان اور حامد خان ان عہدوں پر زیادہ سے زیادہ اپنے لوگ تعینات کروانا چاہتے تھے اور اسی طرح انصاف لائیرز فورم نے بھی اپنے حامی وکلا کی ایک فہرست ان تعیناتیوں کے لیے دے رکھی تھی۔

دوسری طرف مسلم لیگ ق بھی ان تعیناتیوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ چاہتی تھی۔ خبر کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے نعیم الحق کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی تھی جس کے ذمے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر حتمی سفارشات مرتب کرنا تھا۔ خبر کے مطابق حکومت نے ان تعیناتیوں کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات تک روکے رکھا تھا تاکہ حامد خان گروپ کے صدارتی امیدوار پہلے سے موجود لا افیسرز کے ووٹ بھی حاصل کر سکیں۔

وکلا کی حمایت پاکستان میں ہر سیاسی جماعت کے لیے ہمیشہ سے اہم رہی ہے لیکن سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی وکلا تحریک کے بعد سے سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کے لیے وکلا کی حمایت کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے اور بدقسمتی سے ہر حکومت کی طرف سے وفاقی اور صوبائی سطح پر لا افسران کی تعیناتیاں کسی میرٹ کی بجائے وکلا کی سیاسی وفاداریوں اور حکومتی با اثر افراد سے قریبی تعلق کی بنیاد پر ہی کی جاتی رہی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا رہا ہے کہ ان لا افسران کی اکثریت ماسوائے چند ایک کے عدالتوں میں حکومتی و ریاستی پالیسیوں اور مفادات کا پیشہ ورانہ انداز میں موثر دفاع یقینی بنا سکیں یا نہ لیکن سیاسی محاذ پر کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار رہتے رہے ہیں۔

ابھی پچھلے دور حکومت میں جب لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے پانامہ پیپر میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے افراد کا نام آنے پر ان کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے ایک اجلاس بلایا تو اس موقع پر مسلم لیگ ن کی حکومت کے تعینات کردہ لا افسران نے مبینہ طور پر اس اجلاس کو رکوانے کے لیے ہال میں گھس کر ہلڑ بازی اور توڑ پھوڑ کی۔ اسی طرح جنرل مشرف کے دور حکومت میں تعینات ایک لا افسر کے مطابق مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین لا افسران کو بلا کر وکلا تحریک کو بارز کی سطح پر کاونٹر کرنے میں ناکامی پر انہیں باقاعدہ ڈانٹا کرتے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے کام نہ تو لا افسران کے فرائض میں شامل ہیں نہ ہی ان کے منصب کے شایان شان۔

اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ لا افسران کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر اچھی خاصی رقم خرچ کرنے کے باوجود حکومت کو اہم مقدمات کے دفاع کے لیے غیر معمولی بھاری فیسوں پر الگ سے وکیل مقرر کرنے پڑتے ہیں جن کی ادائیگیاں ظاہر ہے کہ میرے اور آپ جیسے ٹیکس پیئرز کے پیسوں سے کی جاتی ہیں جو کہ سرکاری خزانے پر ناجائز بوجھ ہے۔ میٹرو کا کیس ہو یا اورنج لائین منصوبے کا یا ہائیکورٹ میں ایل ڈی اے کے خلاف کمرشلائزیشن کا سب میں مہنگے پرائیوٹ وکیل مقرر کیے گئے۔ نہ صرف یہ بلکہ میرٹ کی بجائے سیاسی بنیاد پر کی جانے والی تعیناتیوں کے سبب عدالت کو بروقت معیاری قانونی معاونت فراہم نہ کیے جانے کی وجہ سے کئی حکومتی پالیسیاں اور اقدامات سالہا سال سٹے آرڈرز کی وجہ سے تعطل کا شکار رہتے پیں جس سے ظاہر ہے کہ حکومتی گورننس بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

ایک اور چیز جو دیکھنے میں آتی ہے کہ ہر حکومت کو مجبوری کے تحت سیاسی تعیناتیوں کے ساتھ ساتھ کچھ قابل اور کام کرنے والے وکلا کی تعیناتیاں بھی اس لیے کرنی پڑتی ہیں کہ کام چلتا رہے اور بالکل ہی ٹھپ نہ ہو جائے لیکن جیسے ہی نئی حکومت آتی ہے تو وہ ان چند قابل لا افسران کو محنت کا صلہ دینے اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی بجائے سیاسی طور پر تعینات ہونے والوں کے ساتھ ہی انہیں بھی ہٹا دیتی ہے۔

ابھی حال ہی میں ایک ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیر حسین رضوی کو ہٹائے جانے پر خود چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ناگواری کا اظہار کیا ہے۔ نیر حسین رضوی 2006 سے 2016 تک ایڈوکیٹ جنرل آفس میں تعینات رہے اور بعد ازاں 2016 سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے طور پر تعینات تھے۔ ان کی شہرت ایک محنتی اور قابل پیشہ ور وکیل کی ہے لیکن حکومت نے لا افسر کے طور پر ان کے وسیع تجربے سے استفادہ حاصل کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

اسی طرح خبروں کے مطابق پنجاب کے موجودہ لا افسران کو ہٹائے جانے اور نئے لا افسران کی تعیناتیوں کا معاملہ بھی حتمی مراحل میں داخل ہو گیا ہے۔ خبروں کے مطابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ موجودہ 22 ایڈیشنل اور 44 اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرلز میں موجود قابل اور اچھی کارکردگی اور غیر سیاسی شہرت کے حامل 5 ایڈیشنل اور 4 اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرلز کو نہ ہٹایا جائے اور انہیں نئی ٹیم میں بھی شامل رکھا جائے۔

ان ناموں میں شامل دو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرلز شان گل اور انوار حسین کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ اسی طرح دیگر اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرلز کے ساتھ آصف افضل بھٹی کا نام لیا جا رہا ہے۔ میں اس قدم کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بالکل درست قدم ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف میرٹ اور کارکردگی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ ادارے کی کارکردگی میں تسلسل اور بہتری لانے میں بھی بہت مدد ملتی ہے۔

میں یہاں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل انوار حسین کا تذکرہ خاص طور پر کرنا چاہوں گا کہ پرانی حکومت ہو، نگران حکومت یا تحریک انصاف کی نئی حکومت ان کی مقدمات میں دلچسپی، مقدمہ کے حقائق اور قانون پر گرفت اور عدالتی معاونت ہمیشہ قابل دید رہی ہے۔ وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو ریاست کے لیے انتہائی لگن اور پیشہ ورانہ انداز میں خدمات انجام دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان جیسے لوگوں کی کارکردگی پر یقینانا حکومتوں کی تبدیلی اثر انداز نہیں ہوتی۔

انوار حسین 1999 سے وکالت سے وابستہ ہیں ان کی تعیناتی 2014 میں بطور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل ہوئی اور بعد ازاں ان کی اچھی کارکردگی کی بنا پر انہیں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بنا دیا گیا۔ انہوں نے کینڈا کی معروف یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کیا ہوا ہے۔ شاید وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں ایل ایل بی کے تینوں سال امتیاز (distinction) سے پاس کیے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایم اے پولیٹیکل سائینس میں بھی پانچویں پوزیشن حاصل کی۔

اسی طرح پنجاب یونیورسٹی میں لیبر لا اور انٹلیکچوؤل پراپرٹی لا کے پوسٹ گریجویٹ ڈپلوموں میں بھی انھوں نے فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ ان کا Trade and Securities Market Arbitration پر مقالہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ حکومت پنجاب کے لیے کئی قوانین خاص طور پر موجودہ کرایہ داری کا قانون بھی ڈرافٹ کر چکے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اس طرح کے لوگوں کو بطور لا افسر برقرار رکھنا اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا نہ صرف ایڈووکیٹ جنرل آفس بلکہ حکومت پنجاب کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا۔

لوگوں کی وزیر اعظم عمران خان سے اس حوالے سے زیادہ توقعات اس لیے بھی وابستہ ہیں کیونکہ وہ پچھلے کئی سالوں سے میرٹ کی بجائے سیاسی بنیادوں پر کی جانے والی تعیناتیوں کو خاص طور پر سخت تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں اور اسے ملکی مسائل کی ایک بڑی وجہ بتاتے آئے ہیں۔ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آپ تن تنہا یکلخت سارے کا سارا نظام راتوں رات نہیں بدل سکتے۔ آپ کو سیاست میں حمایتیوں اور ہمدردوں کو نوازنا پڑتا ہے تبھی حمایت اور ہمدردی برقرار رہتی ہے اور نئے حمایتی اور ہمدرد پیدا ہوتے ہیں۔

یہی حقیقت ہے۔ لیکن اتنا تو کیا ہی جاسکتا ہے کہ آپ اپنے حمایتیوں میں سے ہی قابل ترین کو ترجیح دیں اور اسی حد تک نوازیں جہاں تک اس طرح نوازنے سے آپ کی مجموعی کارکردگی کا توازن نہ بگڑے۔ اور پھر بتدریج اس طرح کی تعیناتیوں کے لیے مناسب پیرامیٹرز وضع کریں تاکہ آنے والے وقت میں ہی سہی اس طرح کی تعیناتیاں صرف اور صرف میرٹ پر کی جا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).