مجھے یہ ملک اور ملت چاہیے


عمران خان بائیس سالہ جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کے سب سے اہم ترین عہدے پر براجمان ہوچکے ہیں۔ اس کی کامیابی کی پیچھے تین انتہائی اہم وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ ”پاکستان کے محروم طبقے کے غریب پاکستانی ہیں جنہوں نے عمران خان کو ایک مسیحا کے طور پر اس ملک کا نجات دہندہ سمجھا اور دل کھول کر ہر اس امیدوار کو ووٹ دیے جس کے پوسٹر پر عمران خان کی تصویر تھی۔ اس پوسٹر پر سے اگر خان کی تصویر ہٹا دی جاتی تو میرا نہیں خیال کہ پاکستان تحریک انصاف ایک ضلع بھی جیت پاتی۔

اس محروم طبقے نے ہمیشہ ایک لیڈر کا انتظار کیا لیکن ستر سال سے یہ اس طبقے کی خوش فہمی ہی رہی کہ پاکستان میں کوئی ایسا بھی ہوسکتا ہے جو ایک نوالے کے لئے جان کی بازی لگانے والوں کے لئے سوچ بھی سکتا ہے لیکن ایسے میں عمران خان آیا اور کرپشن، اقرباء پروری، غربت اور لاچاری کے خلاف ڈٹ گیا اور پاکستان کے مایوس طبقوں میں امید کی ایک نئی لہر زندگی بن کر دوڑ گئی۔ دوسری وجہ، عمران خان خود ہیں۔ عمران خان ایک کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں یہ زندگی میں جہاں بھی گئے پاکستان کے لئے عزت کمائی۔

پاکستان کا ہر شہری یہ سمجھتا ہے کہ عمران خان اس ملک کے لئے کچھ خاص کریں گے اور یہی وجہ ہے کہ خان صاحب سے توقعات حد سے بھی زیادہ ہیں۔ تیسری وجہ عمران خان کے سپورٹرز ہیں جواپنے لیڈر پر جان چھڑکتے ہیں اور ان سپورٹرز کی ایک نیک نیتی ہزار اختلاف کے باوجود یہ ضرور ہے کہ اس ملک سے ہر اس چیز کا خاتمہ ہو جس کی وجہ سے اس ملک کی تعمیر رک گئی ہے اور اس ملک کی بقاء خطرے میں ہے۔ یہ لوگ عمران خان کے لئے سڑکوں پر بھی نکلے ہیں اور بھوک و پیاس کی شدت بھی برداشت کی ہے۔ یہ ان لوگوں کی محبت اور سپورٹ ہی کا نتیجہ ہے کہ آج خان صاحب مسند اقتدار پر بیٹھے ہیں۔

ہم بے شک الیکشن پر اعتراض بھی کرسکتے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف سے نظریاتی جنگ کو دوام بھی دے سکتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقیت ہے کہ خان صاحب اس ملک کے وزیر اعظم ہیں اور پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں ان کی حکومت بھی ہے۔ اب ہم آتے ہیں سونامی کی طرف جس کی بے ترتیب لہروں کو اگر ترتیب میں لایا گیا تو عمران خان کے یہ پانچ سال شیر شاہ سوری کے وہ پانچ سال بن سکتے ہیں جن کی وجہ سے ہم تا قیامت اس کو یاد رکھیں گے۔

کہتے ہیں کہ عمران خان بانوے میں اپنی ٹی شرٹ پر بنے چیتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کھلاڑیوں سے کہتے، ”یہ چیتا ہے، اپنا شکار کرتا اور کھاتا ہے، بس تم سب کو اپنا اپنا شکار خود کرنا ہے۔ جاؤاور تمام لوگ اپنا اپنا کردار خود طے کرو، مجھے بس یہ کپ چاہیے۔ ’

”مجھے بس یہ کپ چاہیے“ یہ وہ وژن تھا جس کی وجہ سے ایک بکھری ٹیم متحد ہوگئی اور تاریخ میں امر ہوگئی۔ ایک ایسی کمزور ٹیم جس کے بارے میں ماہرین ہمیشہ تذبذب کا شکار رہے اور ابتداء کی انجریز نے تو شک کو یقین میں بدل دیا تھا کہ یہ ٹیم پہلے ہی راونڈ میں باہر ہوجائے گی لیکن پھر خان صاحب کے اعتماد اور یقین نے کھلاڑیوں میں جان ڈال دی اور یہی وجہ ہے کہ عاقب جاوید کہتے ہیں کہ میں جب یہ چیتے والی بات سنتا اور پھر اسے یاد کرتا تو میرے اندر ایک نادیدہ قوت آجاتی اور پھر مجھ سے وہ کچھ ہوجاتا جس کا میں خود بھی تصور نہیں کرپاتا تھا۔

ہم اگر اس وژن میں ”کپ“ کی جگہ ”ملک اور ملت“ ڈال دیں تو یقیناً ہماری کھایا پلٹ سکتی ہے۔ خان صاحب اگر کرکٹ کے کھلاڑیوں کی طرح اپنی کابینہ کو متحرک کردیں اور ان کو یہ سمجھا دیں کہ اس ملک میں بے شک کرپٹ لوگ رہ رہے ہیں۔ اس ملک میں صاف پانی اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم لوگ جانوروں جیسی زندگی گزار رہے ہیں لیکن بات جب مذہب اور پیغمبر اسلام کی آتی ہے تو پھر نہ یہ غریب رہتے ہیں اور نہ محروم۔ ان کو پھر اور کچھ نظر نہیں آتا بس اپنے ایمان کی فکر لگ جاتی ہے اور یہ عشق کا رشتہ کچھ اس انداز سے نبھانا شروع کردیتے ہیں کہ دنیا عش عش کر اٹھتی ہے اسی لئے مذہب کی باریکیوں کو کبھی بھی نہ چھیڑنا کیونکہ ہم مذہب کو بالکل بھی خود سے جدا نہیں کرسکتے۔

خان صاحب کو اگر حقیقیت میں کام ہی کرنا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ ان باریکیوں کو چھیڑنا شروع کردیں کیونکہ پاکستانیوں کو مذہب کے نام ہر پہلے ہی سے ”جادو کی جپھی“ دی جا چکی ہے۔ ہمارے حقیقی مسائل کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہم دنیا میں صحت اور تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے رہنے والے لوگ ہیں۔ صحت کے میدان میں اس سے زیادہ بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہماری نصف سے زیادہ آبادی پرائیویٹ علاج کو ترجیح دیتی ہے کیونکہ سرکاری ہسپتالوں میں نہ دوائی ملتی ہے اور نہ علاج کی اور سہولتیں۔

پاکستان کے عوام ہسپتالوں میں خوار ہوتے رہتے ہیں اور اس ملک کے وزیر زندگی کی آسائشوں میں مصروف زندگی سے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ ہم صحت پر جتنا خرچہ کرتے ہیں اتنا صومالیہ اور افغانستان بھی خرچ کرتا ہے۔ صحت پر اٹھنے والے خرچ کا ترہتر فی صد لوگ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح تعلیم کا شعبہ ہے جہاں ایک کنفیوزڈ نطام ہے اور اس نظام میں پھلنے والے جب مارکیٹ میں آجاتے ہیں تو ان کو خود اپنے آپ کا بھی پتہ نہیں ہوتا۔

اس شعبے میں بھی خدمات کم اور کاروبار زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تعلیمی نظام نئے دور کے تقاضوں سے ساٹھ سال پیچھے ہے۔ خان صاحب اپنی کابینہ کو اسی طرح اپنے سامنے بٹھاؤ جس طرح کرکٹ کے میدان میں آپ ان کے سامنے کھڑے ہوکر جیت کا نعرہ بلند کردیتے تھے۔ ہم جانتے ہیں آپ ایک مخلص پاکستانی ہیں اور پاکستان کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں بس چیتے کی جگہ ملک و ملت کا نام استعمال کرکے وزراء اور ذمہ دار لوگوں کو کام پر لگائیں۔

خان صاحب اس کے ساتھ اپنے سپورٹرز کی تربیت کے لئے بھی ایک واضح حکمت عملی اپنائیں کیونکہ یہ لوگ سوشل میڈیا پر آپ کی حقیقی ترجمانی نہیں کر رہے۔ ان کو سمجھائیں کہ نئے دور کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مطالعہ پر بھی تھوڑا دھیان دیں کیونکہ ان ہی کی وجہ سے پانچ سال بعد دوبارہ آپ اس ملک کے عوام کے پاس جائیں گے۔

آپ پر صرف اس ملک کے عوام کی نظریں نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمان آپ کو دیکھ رہے ہیں اور آپ صرف پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نہیں بلکہ پورے پاکستان کے وزیر اعظم ہیں آپ بس ان کی خاطر ایک دفعہ پر ٹی شرٹ پہن لیں اور اس پر ملت اسلام اور پاکستان کی تصویر لگالیں اور اپنے وزراء کے سامنے اس ٹی شرٹ کی طرف اشارہ کرکے ان کو بتانا شروع کردیں کہ یہ پاکستان اور ملت اسلامیہ کی تصویر ہے مجھے بس ان کی بقاء چاہیے اور کچھ نہیں پھر آپ دیکھ لیں گے پاکستانی آپ کو سر آنکھوں پر بٹھا کر ایک نہیں چار سو ڈیمز بنانے کے لئے پیسے تو کیا اپنا خون دیں گے لیکن اگر آپ کی قابلیت اور آپ کا کرشمہ آپ کے وزراء کے ہاتھوں میں رہا تو خان صاحب ہماری آخری تمٹماتی امید بھی اسی طرح ختم ہوجائے گی جس طرح دیا طوفان کے سامنے روشنی تو کیا اپنا وجود بھی برقرار نہیں رکھ سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).