غریبوں کی عالی شان مسجد اور کافر مسافر


اس چلتی ہوئی ریل گاڑی کے باہر ایک ہجوم محسن کو کافر قرار دے کر اس کی جان کے درپے تھا۔ مگر اس کی نظریں سڑک کے اس پار مسجد کے خوبصورت گنبد اور میناروں پر پیوست تھیں جہاں اس نے آدھ گھنٹہ پہلے نماز ادا کی تھی۔ محسن کی یہ محسور کن کیفیت دیکھ کر ساتھ بیٹھے ہوئے شخص نے اس شہر کے لوگوں کی تعریف کی۔ اس کے ردّ عمل کے طور پر محسن بے ساختہ کچھ بڑبڑایا۔ ساتھ بیٹھا ہو ا نوجوان اور اس کے دو دوست فوراً کھڑاے ہوگئے۔ محسن نے مڑ کر دیکھا تو وہ نوجوان غصے میں آگ بگولہ ہوئے اسے گھور رہے تھے جیسے کہ وہ اس پر حملہ کرنے والے تھے۔ محسن کے اندر ایک عجیب و غریب اضطراب پیدا ہوا جیسے اس پر دل کا دورہ پڑنے لگا ہو۔ پھر اس کے اندر کی شعوری قوت اس کے اضطراب پر حاوی ہو گئی اور مسکرا کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔

کوئی ایک گھنٹہ پہلے سبک رفتار ریل گاڑی خان نگر کے اسٹیشن پر پہنچی تھی۔ محسن کھڑکی کی طرف بیٹھا ہوا عادتاً غور سے ہر چیز کا جائزہ لے رہا تھا۔ محسن جب بھی کسی دوسرے شہر کو جاتا تو اکثر بس سے سفر کرتا مگر اس دفعہ نہ جانے اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ ریل گاڑی سے واپس جائے۔

محسن نے نوٹ کیا کہ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ سڑک کے دوسری طرف تقریباً تمام عمارتیں بوسیدہ حالت میں تھیں لیکن ان کے بیچ میں ایک مسجد تھی جو اپنی شان و شوکت کی وجہ سے بہت نمایاں لگ رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ مسجد شاید کسی غلط جگہ پر بنی ہوئی تھی۔ اس چمکتی دمکتی مسجد کا ارد گرد کی بوسیدہ عمارتوں سے کوئی تعلق نہیں لگتا تھا۔ سفید اور کتھئی رنگ کا روغن ایسا تھا کہ جیسے کچھ دن پہلے ہی کیا گیا تھا۔ یہ دوسری عمارات کے مقابلے میں بڑی بھی تھی اور تین منزلہ تھی۔ آس پاس کی عمارات ایک یا دو منزلہ تھیں۔

محسن پلیٹ فارم پر پر اتر گیا تا کہ دو چار منٹ پیدل چل لے۔ ابھی تو بہت لمبا سفر باقی تھا۔ وہ ابھی ٹہل ہی رہا تھا کہ اسٹیشن کے لاوڈ اسپیکر سے اعلان ہوا کہ خان نگر سے کچھ دور آگے ایک مال گاڑی اور ٹرک کا ٹکراؤ ہو گیا ہے اور سبک رفتار اب اس اسٹیشن پر دو گھنٹے کھڑی رہے گی۔ سب مسافر چہ مہ گویوں میں مصروف ہو گئے اور ریلوے کے محکمے کو برا بھلا کہنے لگے۔ کچھ نے اپنے کسی پچھلے سفر کی داستان سنانی شروع کر دی کہ ریلوے نے ان کا سفر کیسے خراب کیا۔ محسن کو ان قصے کہانیوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ کون سا ریل گاڑی سے سفر کرتا تھا!

” یہ دو تین گھنٹے گزر ہی جاہیں گے۔ اتنی دیر میں اس چھوٹے سے شہر کا چکر لگا لیتا ہوں۔ “

وہ پھر ان خستہ حال عمارتوں اور ان کے بیچ میں کھڑی مسجد کو دیکھنے لگ گیا۔ ویسے بھی اس کی عادت تھی کہ تضاد کو خوب محسوس کرتاتھا۔ خود بخود اس کے پاوں سامنے والی سڑک کی طرف اٹھ پڑے۔ بسوں اور سست رفتار تانگوں کے ایک بے ترتیب ہجوم میں سے اس نے سڑک کو عبور کیا۔ محسن ایک عمارت کے پاس پہنچ گیا جس کی ذیلی منزل پر خان نگر ہوٹل لکھا ہوا تھا۔ اوپر شاید کرائے کے لئے چند کمرے تھے۔ لگتا تھا کہ اس عمارت کو کبھی روغن نصیب نہیں ہوا تھا۔ ہوٹل کے اندر اور باہر کوڑا ہی کوڑا تھا۔ محسن نے سوچا کہ شاید ان لوگوں کو کوڑا اچھا لگتا ہے۔ اگلی عمارت تو شاید گرنے ہی والی تھی کیونکہ ایک طرف قدرے جھکی ہوئی تھی گو کہ گندگی کچھ کم تھی۔

مسجد کے ساتھ والی عمارت تو کچھ زیادہ ہی پریشان حال لگ رہی تھی۔ کچھ حصہ تو نا مکمل تھا۔ اوپر والی منزل پر جانے کے لئے ایک سیڑھی نظر آرہی تھی جس پر کوئی جنگلہ نہیں تھا۔ محسن نے سوچا کہ یہ کوئی اچنبھا خیز بات نہیں ہے۔ اس کے اپنے ایک دو رشتے داروں کے گھروں میں بھی سیڑھیاں جنگلوں سے محروم تھیں۔ پھر وہ مسجد کے سامنے پہنچ کر رک گیا۔ اس عمارت کی شان و شوکت نے اسے بڑا متاثر کیا تھا۔ سوچا کہ اندر جا کر دیکھے اور نماز بھی ادا کر لے۔ اندر گیا تو دیکھا ہلکے لال رنگ کا قالین، چار خوبصورت فانوس اور بڑے بڑے پنکھے، کئی صاف و شفاف الماریاں جن میں دینی کتابیں سجی ہوئی تھیں اور دیوار پر خوش خطی سے آیتیں لکھی ہوئی تھیں۔ محسن نے وضو کیا اور کسر نماز پڑھی۔ پھر وہ باہر نکل کر آگے چل پڑا۔ اب وہ ایک اسکول سامنے کھڑا ہوا تھا جو صرف چھت اور دیواروں پر مشتمل تھا۔ کھڑکیاں اور دروازے تو شاید اس اسکول کی قسمت میں کبھی تھے ہی نہیں۔ دس پندرہ سال پہلے دیواروں پر چونا لگا ہو گا لیکن اب ان پر گندگی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

محسن نے تیس سال پہلے ایک سرکاری اسکول سے ہی میٹرک کیا تھا۔ اب اس کے بچے پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے تھے۔ وہ اپنے سابقہ سکاری اسکول سے اس اسکول کا موازنہ کرنے لگ گیا۔ ٹوٹی پھوٹی کرسیاں، صرف دو چار میزیں۔ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ شاید جنگ سے تباہ شدہ کسی ویرانے میں آگیا تھا۔ بچے تو کافی موجود تھے لیکن پھر بھی یہ جگہ اداس سی لگ رہی تھی جیسے کوئی جسم بغیر روح کے۔ محسن کو یہ سب لوگ زندہ لاشیں لگ رہی تھیں، کمزور اور سوکھے ہوئے بدن، چہرے رونق سے عاری۔ اس نے سرکاری اسکولوں کی حالت کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا۔ لیکن کبھی اندر جا کر دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ آخر اس اسکول کا یہ برا حال کیوں تھا!

محسن کچھ اور آگے بڑھا تو ہیڈ ماسٹر کے دفتر کے سامنے پہنچ گیا۔ سوچا کہ اس کے پاس وقت ابھی باقی ہے۔ اسکول کے اندر آہی گیا ہوں تو ہیڈ ماسٹر سے اس اسکول کی ابتر حالت کے بارے میں پوچھوں۔ چپراسی نے محسن کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور محسن کی وضع قطع دیکھ کر سمجھا کہ ضرور کوئی اہم آدمی ہے۔ محسن نے چپراسی کو بتایا کہ ہیڈ ماسٹر سے ملنا ہے۔ پتہ چلا کہ وہ موجود نہیں تھے البتہ کچھ اساتذہ اس کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ چپراسی نے مودبانہ طریقے سے کہا کہ وہ ان اساتذہ سے مل سکتا ہے۔ محسن کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ پانچ لوگ کمرے کے ایک طرف بیٹھے بات چیت کر رہے تھے۔ غالباً ہیڈ ماسٹر کا کمرہ اسٹاف روم کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہو گا۔

محسن کو دیکھ کر یہ لوگ پہلے یہ سمجھے کہ یہ کسی طالب علم کا باپ ہے جو کوئی شکایت لے کر یہاں آیا ہے لیکن پھر اس کے شفاف کپڑے اور اس کی چال ڈھال دیکھ کر انہیں اندازہ ہوا کہ یہ کوئی امیر آدمی ہے۔ ان میں سے ایک شخص نے جو شکل سے وضعدار لگتا تھا محسن سے بیٹھنے کے لئے کہا۔ محسن نے اپنا تعارف کروایا اور ایک دو رسمی باتوں کے بعد اسی وضعدار استاد نے محسن سے اسکول آنے کا مقصد پوچھا۔ جی بتائیں! آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں؟ ”

”ریل گاڑی اسٹیشن پر دو گھنٹے کے لئے رکی ہوئی تھی تو میں ٹہلتا ہوا ادھر آ نکلا اور اس اسکول کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ “
”اسکول کے اساتذہ کی حالت کو تو دیکھیں، ہمیں تنخواہ اتنی کم ملتی ہے کہ اس سے ان کا گزارا نہیں ہوتا۔ شام میں ٹیؤشن کر کے پیٹ پالتے ہیں۔ ۔ “

محسن نے یہ سب شکایات آرام سے سنیں اور اس اسکول کا اپنے سرکاری اسکول سے جہاں سے اس نے میٹرک کیا تھا موازنہ کرنا شروع کر دیا۔ ایک میلے کچیلے کپڑوں والے استاد نے لپک کر جواب دیا ”اب زمانہ اور ہے اور یہ غریبوں کا علاقہ ہے۔ یہاں فنڈز بھی کم ملتے ہیں اور کام کیے بغیر یا کم اور خراب مال کی سپلائی کے بعد کاغذات میں کچھ اور لکھا جاتا ہے۔ “

پھر دوسرے تین اساتذہ بھی اس کی حمایت میں بولنے لگ گئے۔
” صاحب، اس علاقے میں سب غریب لوگ رہتے ہیں مشکل سے لوگ پیٹ بھرتے ہیں۔ بیماروں کو علاج میسر نہیں۔ ایک خیراتی دواخانہ ہے وہ بھی یہاں سے چھ کلو میٹر دور۔ “

محسن کو ایسا لگا کہ یہ پانچوں اساتذہ اس پر برس پڑے ہیں۔ محسن سے رہا نہیں گیا۔
”اگر یہاں اتنی ہی غربت ہے تو یہ عالی شان مسجد کیسے بن گئی اور کیسے چل رہی ہے؟ “

یہ کہتے ہی محسن کو احساس ہو گیا تھا کہ شاید اس نے کوئی خطرہ مول لینے والی بات کہہ دی ہے۔ محسن کی بات سن کر دو اساتذہ تو اچانک چونک ہی گئے اور انہوں نے بیک وقت بولنا شروع کر دیا اور آپ سے تم پر آ گئے۔

”تم کو شرم آنی چاہیے۔ مسجد کا اسکول سے مقابلہ کر رہے ہو۔ یہاں پڑھ کر انہوں نے نوکری ہی کرنی ہے۔ ۔ ۔ مسجد تو اللہ تعالٰی کا گھر ہے اور جنت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ وہاں بچے قرآن حفظ کرتے ہیں اور قیامت کے دن ان کے والدین کے سر پر تاج پہنایا جائے گا۔ “

ان دونوں کی اونچی آواز میں زوردار تقریر سن کر یا سننے کے لئے چند اور لوگ اندر آ گئے اور محسن کو برا بھلا کہنے لگے۔ میلے کچیلے کپڑے والے استاد نے اپنے دونوں ساتھیوں کو چپ کرانے کی کوشش کی تو اسے کسی نے ایسا دھکا دیا کہ وہ کرسی میں دھنس کر رہ گیا۔ محسن ایک دم اٹھا اور تیز رفتاری سے اسکول سے باہر نکل گیا۔ اب وہ بسوں اور ٹانگوں کی بھیڑ کو چیرتا ہوا اسٹیشن کی طرف جا رہاتھا۔ تھوڑی دیر بعد پچھلی طرف سے نعروں کی آواز آنا شروع ہوئی لیکن محسن کو سمجھ میں نہیں آیا کہ ان نعروں میں کیا کہا جا رہا تھا۔ بس ایک لفظ وہ صاف سن سکتاتھا، کافر۔ محسن سمجھ گیا کہ اس کی جان خطرے میں تھی۔ وہ پوری رفتار سے بھاگ رہا تھا اور ایک ہجوم اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔

محسن کی ریل گاڑی اسٹیشن پر موجود تھی لیکن پتہ نہیں وہ کب چلتی۔ اتنی دیر میں یہ لوگ ریل گاڑی میں گھس کر اس کا کام تمام کر دیں گے! پلیٹ فارم کے دوسری طرف ایک اور ریل گاڑی مخالف سمت میں چل پڑی تھی۔ محسن چلتی ہوئی گاڑی میں گھس گیا اورچند گہرے سانس لے کر ایک خالی نشست پر بیٹھ گیا۔ اس کی نظر پھر اس چمکتی دمکتی مسجد پر جم کے رہ گئی جیسے وہ اس سے محسور ہو گیا ہو۔ ساتھ کی نشست پر بیٹھے ہوئے شخص نے محسن کی یہ کیفیت دیکھی تو بولا

”میں اسی شہر کا رہنے والا ہوں۔ ان غریب لوگوں نے یہ مسجد بنا کر کمال کر دیا۔ “
محسن نے گردن موڑ کر اس شخص کی طرف دیکھا۔ اسے کچھ اطمینان ہوا کہ یہ شخص اپنے حلئے سے کافی لکھا پڑھا لگتا تھا۔ محسن کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا

”کاش مسجد پر اتنا خرچ کرنے کے بجائے اسکول کو بہتر بنانے کے لئے کچھ توجہ کی ہوتی! “
یہ سنتے ہی وہ نوجوان اور اس کے دو ساتھی کھڑے ہو گئے۔ محسن نے آنکھیں بند کیں اور خود کو تقدیر کے حوالے کر دیا۔

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).