جنید جمشید، ایک عہد کا نام


اپنے چھوڑ کر نہیں جاتے، یوں منہ موڑ کر نہیں جاتے۔ یہ کیا! آپ رات اپنے شہر آئے اور اگلے ہی روز اس جہاں سے چل دیے۔ جنید جمشید کے لحد میں جاتے ہی ایک عہد تمام ہوگیا۔ ان کا دور ایک نسل کے ساتھ پروان چڑھا۔ میں نے بھی اسی دور میں آنکھ کھولی جب انھوں نے ایک ایسی دنیا میں قدم رکھا جہاں جھولی شہرت اور دولت سے بھرتی ہے۔ جنید نے محبتیں زیادہ سمیٹیں، چاہتیں بانٹیں۔ ٹھیک دو برس قبل معروف مذہبی اسکالر اور نعت خواں جنید جمشید ایک المناک فضائی حادثے میں ہم سے جدا ہوئے۔ جنید جمشید کی زندگی کے دونوں ادوار بلاشبہ یادگار اور بہترین، دونوں انداز عوام اور مداحوں میں بے حد مقبول رہے۔

جنید جمشید کے گائے ہوئے ملی نغمے ”دل دل پاکستان“ کی مقبولیت کی بات ہو یا ذکر ان کے نعتیہ کلام کا کیا جائے، پرُ اثر انداز، دلکش احساس اور سحر انگیز آوازدلوں کو چھو لیتی ہے اور کیوں نہ چھوئے جو آواز دل میں گھر کرلے، وہ کبھی بھی سماعت سے دور نہیں ہوسکتی۔

دو پل کا یہ جیون ہے، کچھ کرنا ہے تو کر گزرو
ہر لمحہ بس اڑنا ہے آسمانوں سے یاری کرلو

جس دن قومی ایئر لائن کے طیارے کی پرواز حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوئی، اس روز سے اب تک میرا دل اس بات کو ماننے کو تیا ر نہ تھا کہ اس طیارے کا ایک مسافر ایسا بھی ہے، جس سے بظاہر کوئی رشتہ نہیں مگر تعلق بہت گہرا ہے۔ زندگی کے دو حوالے مجھے ان سے کبھی قلبی طور پر دور نہیں کرسکیں گے۔

بہار آتی ہے لیکن ان درختوں پر نہیں آتی
ہمارے نام پڑھتی ہے تو واپس لوٹ جاتی ہے، یہی ہر بار ہوتا ہے

جنید جمشید موسیقی کی دنیا پر ایسے چھائے کہ اگلی پوری دہائی میں ان کا کوئی جوڑ پیدا نہ ہو سکا لیکن پھر پھر یوں ہوا کہ جنید نے شو بزنس کی دنیا کو خیر باد کہہ کر دین اسلام کی راہ کا رخ کیا اور ایسا کیا کہ آخری وقت تک اسی کام میں مصروف رہے۔ جنید کو نعتیہ کلام اور حمد وثناء پڑھتے ہوئے دیکھ کر ہمیشہ یہی محسوس ہوا کہ ان کا یہ طرز بھی ان پر خوب جچتا ہے۔ نہ صرف طرز زندگی بلکہ ذریعہ معاش بھی تبدیل کر لیا۔ تبلیغ کے کاموں کے ساتھ کپڑوں کا کاروبار کیا۔ جنید جمشید کے متعارف کرائے گئے ”جے ڈاٹ“ برانڈ نے ثابت کیا کہ شہرت اور کامیابی ہمیشہ ان کے تعاقب میں رہی۔ ان کے برانڈ ڈبزنس کی شاخیں نا صرف ملک کے ہر شہر بلکہ ملک سے باہر بھی بزنس کرتی ہیں اور پاکستان کے باوقار لباس شلوار قمیض کی باقاعدہ طور پر اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہیں۔

زندگی میں ہر قدم پر رسک لینے والے جنید جمشید نے، فائٹر پائیلٹ بننے اور ایف سولہ اڑانے کے خواب تو دیکھے، مگر تعلیم پری میڈیکل کی حاصل کی۔ ڈاکٹر نہ بنے مگر موسیقار بن گئے۔

دھوپ میں کھڑا جل رہا ہوں میں، سایہ دو مجھے
یہ میرا جنوں، یہ میری جلن، ہے میری سزا
میری یہ تھکن کہہ رہی ہے کیا، سنو تو سہی

جنید جمشید نے ایک معروف بینڈ ترتیب دیا، ایک نسل کو معیاری موسیقی کے دور سے گذارا، اس دور سے کئی لوگ آج تک باہر نکل نہ سکے۔ نہ نکل سکیں گے۔ وہ خود ہی تو کہہ گئے ہیں،

بیتی ہوئی باتو ں کو، جاگی ہوئی راتوں کو یاد کرلینا
اور جی لینا۔ میں مرجاوں تو مت رونا۔

ہم ان کے دور میں خوش تھے، ان سے خوش تھے لیکن جنید جمشید کا جی چند برسوں میں اس کام سے بھر گیا۔ دل خدا کی راہ پر جو مائل تھا تو کون روک سکتا تھا؟ اللہ کی راہ پر چلنے والے کی واپسی نہیں ہوتی وہ پھر اسی خدا کی جانب چل پڑتا ہے، جس رستے پر آج عوام کے ہجوم نے انھیں بہت پر وقار انداز میں روانہ کیا ہے۔

الہٰی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فخر ہوں عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں

جنید جمشید کی نعتیں اور حمدیہ کلام دو ہزار کی دہائی سے متواتر آتی رہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا روضہ قریب آرہا ہے اور اے طیبہ جیسے نعتیہ کلام ہماری زندگی کا حصہ بن گئے۔ جنید جمشید ہر سال ماہ رمضان کی نشریات میں نظر آتے اور بے حد پسند کیے جاتے رہے۔ مذہبی اسکالر جنید جمشید فلاحی سرگرمیوں میں بھی پیچھے نہ تھے۔ ہر دلعزیز جنید جمشید دعوت تبلیغ کے سفر پر چترال میں تھے۔ جنید جمشید نے چترال کو زمین پر جنت قرار دیا، تو اچانک مجھے یاد آئے ایک گلیت کے کچھ لفظ ”پاکستان کو جنت دے بنا“، اور وہیں سے جنید جمشید نے اس فانی دنیا سے چپ چاپ رخصت لے لی۔

خلاصہ یہ ہے کہ بس جل بھن کر اپنی روح سیاہی سے
سراپا فخر بن کر اپنی حالت کی تباہی سے

معروف مذہبی اسکالر جنید جمشید کا سفر آخرت شروع ہوچکا ہے۔ جنید جمشید کی زندگی کے دونوں ادوار ناقابل فراموش ہیں۔ اس سال کا آخری ماہ اپنے ہمراہ وطن عزیز کی بہترین اور ہر دل عزیز شخصیات کے ساتھ غروب ہونے کے قریب ہے۔ زندگی کا سفر مختصر ضرور مگر اتنا اثر انگیز کہ دنیا جسے صدیوں بھول نہ پائے گی۔ خود جنید کی زبانی جب یہ حمد ذہن میں گونجتی ہے تو ایمان تازہ ہوجاتا ہے کہ واقعی یہ سچ ہے۔

طے کر رہا ہے جو تو، دو دن کا یہ سفر ہے
دنیا کے اے مسافر، منزل تیری قبر ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).