امریکی جنگ، پاکستانی فوج اور عمران خان کا نیا پاکستان


وزیر اعظم عمران خان کے واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے انٹرویو میں تحسین کے بہت سے پہلو ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اب کسی دوسرے ملک کے لئے کرائے کی فوج کاکردار ادا نہیں کرے گا۔ اگر فوج کے ساتھ تحریک انصاف اور عمران خان کا رشتہ محبت و ضرورت سے عبارت نہ ہوتا تو ایسا بیان دینے پر کسی بھی وزیراعظم کے خلاف میمو گیٹ یا ڈان لیکس جیسے کسی پراسرار اور پیچیدہ معاملہ کا آغاز کرنا بنیادی ضرورت سمجھی جاتی۔

وزیراعظم کے طویل انٹرویو میں جس مؤقف کو قومی پریس میں بنیادی اہمیت دی گئی ہے اور جسے واشنگٹن پوسٹ کے ایڈیٹروں نے بھی شہ سرخی میں لانا ضروری خیال کیا ہے وہ بیان دراصل پاکستانی فوج کے ماضی قریب پر فرد جرم عائد کرنے کے مترادف ہے کہ اس نے نائن الیون کے بعد امریکہ کی جنگ میں حصہ دار بنتے ہوئے ملک کو اس تباہی سے دوچار کیا جس کا ذکر عمران خان نے اس انٹرویو میں بھی کیا ہے اور ملک کی فوج کے علاوہ سیاسی نمائندے بھی وقتاًفوقتاً دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے اسے بیان کرتے رہتے ہیں۔

عمران خان نے واضح کیا ہے کہ وہ ڈالروں کے عوض پاکستانی فوج کو کرائے پر دینے کے لئے تیار نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے انٹرویو میں ان کے الفاظ میں اسے یو ں بیان کیا گیا ہے، ’میں امریکہ کے ساتھ ایسا تعلق نہیں چاہتا جہاں پاکستان کو کرائے کی بندوق سمجھا جائے۔ پیسے دے کر دوسروں کی جنگ لڑنے والا ملک۔ ہمیں کبھی بھی خود کو اس پوزیشن میں نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔ اس سے ہمارا جانی نقصان ہؤا، قبائیلی علاقوں میں تباہ کاری ہوئی اور ہمارا وقار بھی جاتا رہا۔ ہم امریکہ کے ساتھ باقاعدہ تعلق چاہتے ہیں۔ جس طرح ہمارا چین کے ساتھ تعلق ہے۔ یہ تجارتی تعاون کا رشتہ ہے۔ ہم امریکہ کے ساتھ بھی ایسا ہی رشتہ چاہتے ہیں‘ ۔

اس بیان پر حرف بحرف صاد کہتے ہوئے بھی اس بیان کی روشنی میں چند سوال پیدا ہوتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ حکومت اور فوج فوری طور پر ہی ان کے جواب فراہم کر دیں۔ ورنہ یہ سوال تاریخ کے ورق پر تحریر رہیں گے اور ہر دور کا مبصر ان کا سوال تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ اس حوالے سے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا ملک کے وزیراعظم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی فوج نے افغان جنگ میں امریکہ کا سہولت کار بن کر کرائے کی فوج کا کردار ادا کیا ہے۔ اگر ان کا یہ دوٹوک اور واضح مؤقف ہے تو واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دینے سے پہلے کیا انہوں نے کسی پارٹی اجلاس یا کابینہ کی میٹنگ میں یہ بات اٹھانے کی ضرورت محسوس کی ہے تاکہ فوج کے ماضی قریب میں ادا کیے جانے والے اس کردار کو تبدیل کیا جا سکے۔

اس حوالے سے دوسرا سوال یہ ہے کہ عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی تحریک طالبان پاکستان کے اسلامی نظام نافذ کرنے کے ایجنڈے کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی۔ پاکستان چونکہ افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ میں امریکی قیادت میں اتحادی افواج کا سہولت کار تھا اس لئے تحریک طالبان پاکستان نے اسلام آباد کو امریکہ کا پٹھو قرار دے کر پاک فوج اور سول ٹارگٹس پر دہشت گرد حملوں کا آغاز کیا تھا۔ عمران خان نے خود اپنے اسی انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ افغان طالبان نے کبھی پاکستان پر حملہ نہیں کیا بلکہ پاکستانی طالبان دہشت گردی میں ملوث رہے تھے۔ اسی تناظر میں پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دیا ہے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اسی مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردی سے مکمل پاک کرنے کا عندیہ دیتے رہے ہیں۔

اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی جنگ دراصل امریکہ کی جنگ تھی تو وہ اس کے لئے کیا جواز فراہم کریں گے۔ کیا وہ اب سے دس بارہ برس پہلے اختیارکیے گئے اس سیاسی مؤقف سے رجوع کرنے کا اعلان کررہے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کا مؤقف درست تھا۔ اور وہ دراصل امریکہ کا ساتھ دینے کے حکومت پاکستان کے ایک غلط اور تباہ کن فیصلہ کے خلاف جد و جہد کے لئے میدان میں نکلی تھی۔ پاکستان چونکہ امریکی جنگ میں ملوث تھا ا س لئے اس کے خلاف دہشت گرد کارروائیاں جائز بنیاد پر کی گئی تھیں۔ کسی بھی پاکستانی وزیر اعظم کا یہ مؤقف انتہائی خطرناک ہے اور دیرپا اثرات کا حامل ہونا چاہیے۔ اسے ایک اخباری انٹرویو میں سرسری طور سے کی گئی بات کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر پاکستانی فوج 2011 میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت تک امریکی جنگ کا حصہ بنی ہوئی تھی تو عمران خان کو بتانا چاہیے کہ کیا اب یہ اشتراک عمل ختم ہو گیا ہے یا اب بھی پاکستانی فوج دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کی جو کارروائی کررہی ہے، وہ امریکہ کو خوش کرنے کے لئے ہی کی جارہی ہے۔

انٹرویو کے دوران اخبار کی نمائندہ کے اس سوال کے جواب میں کہ آپ نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو سفاکانہ قتل قرار دیا تھا، عمران خان کا کہنا تھا کہ ’یہ اسامہ کے قتل کی بات نہیں تھی بلکہ یہ پاکستان پر اعتماد کا معاملہ تھا۔ یہ ہتک آمیز تھا کہ دہشت گردوں کے دھماکوں میں ہمارے شہری اور سپاہی شہید ہو رہے تھے کیوںکہ ہم امریکہ کی جنگ میں شراکت دار تھے۔ پھر ہمارا ہی حلیف اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے معاملہ پر ہم پر ہی بھروسہ نہیں کرتا۔ انہیں اس حوالے سے پاکستان کو معلومات دینی چاہئیں تھیں۔ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ ہم دوست ہیں یا دشمن‘ ۔

واشنگٹن پوسٹ کی نمائیندہ لیلی وے ماؤتھ نے عمران خان سے پوچھا کہ اگر امریکہ اسامہ کے بارے میں پاکستان کو مطلع کردیتا تو کیا آپ اس ہلاکت کو تسلیم کرلیتے۔ عمران خان کا جواب تھا ’بے شک‘ ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ انہوں نے اسامہ کی ہلاکت کو کبھی سفاکانہ قتل قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعہ سے پاکستانیوں کو شدید ہتک محسوس ہوئی تھی۔ ان کے رد عمل کی بھی یہی وجہ تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali