قوم دکھوں کا مداوا چاہتی ہے


اپنی تشکیل سے لے کر 70 سالہ تاریخ تک وطنِ عزیز دنیا کا ایک انوکھا ملک رہا ہے جس کی ہر چیز انوکھی ہے۔ تاریخ یہ ہے کہ ہم پیہم سیاسی عدم استحکام کا شکار چلے آرہے ہیں۔ ہمارے قائد نے تو فرمایا تھا کہ ہم اس مملکت کو اسلام کی ”تجربہ گاہ“ بنانا چاہتے ہیں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ملک سیاست اور جمہوریت کی بھی تجربہ گاہ یا لیبارٹری بنا ہوا ہے۔ جس ملک میں چار مرتبہ آمریت بذریعہ مارشل لا لاگو رہی ہو اس کے ادوارِ جمہوریت کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو سوائے بیماریوں اور گہرے زخموں کے کیا ملے گا۔ اس پر قصور وار کون ہیں؟ سطحی جواب ہوتا ہے ”سیاستدان“ کیونکہ اُن کی باہمی چپقلش آمریتوں کو دعوت دیتی رہی ہے۔ کیا یہاں کوئی باریک بین انسان ہے جو حقیقت کی تہہ تک پہنچے اور بتائے کہ ڈکٹیٹر شپ کے زہریلے اثرات کہاں تک سرایت کرتے ہیں؟ کیا یہاں سیاستدانوں کی مصنوعی نرسریاں نہیں اُگائی جاتی رہیں؟ کیا اس امر میں کسی نوع کے شک کی کوئی گنجائش ہے کہ طاقتوروں نے اپنی کٹھ پتلیاں تیار کی ہیں تاکہ کوئی جینوئن قومی قیادت ازخود نہ ابھر سکے؟ ان تمام تر الٹی سیدھی تدابیر کے باوجود اگر چند مواقع پر جینوئن قیادت ابھری ہے جس نے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر بات کرنے کی کوشش کی ہے تو اس کا انجام کیا ہوا سب جانتے ہیں۔

بشمول میڈیا آج ہمارے لوگوں کو بہت شکایت ہے کہ اب جو نئی فصل ابھری ہے وہ بے برگ و بار ہے۔ اس کے غیر معیاری پن نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ روپے کی اس قدر تذلیل ہوئی ہے کہ وہ ٹکا ٹوکری ہو کر رہ گیا ہے اس کے بالمقابل ڈالر اس قدر طاقتور ہوا ہے کہ پوری 70 سالہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی جبکہ راجہ کی بے خبری کا یہ عالم ہے کہ پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔ کمال درجے کے تجاہل عارفانہ کے ساتھ فرماتے ہیں اچھا مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا مجھے تو میڈیا سے معلوم ہوا ہے۔ دنیا کا دستور ہے کہ کسی کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہو تو تنقیدی جائزوں سے پہلے اُسے کچھ نہ کچھ ہنی مون ٹائم دیا جانا چاہیے اسی سوچ کے زیر اثر ہم اپنے سو دن پورے کرنے والے حکمرانوں کو زیادہ سے زیادہ مارجن دینے کے حق میں ہیں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم تو ابھی آکر بیٹھے بھی نہ تھے کہ تیرو نشتر کی بارشیں شروع بھی کر دی گئی لیکن خود بیٹھنے والوں کو بھی تو احساس کرنا چاہیے کہ وہ بھی کچھ احتیاط کریں۔

آپ لوگوں نے آتے ہی وزیراعظم ہاؤس کی بھینسوں کا ڈھنڈورا پیٹا کہ ہم نے سات بھینسیں اور پانچ کٹے بیچ دیے ہیں۔ اب آپ معیشت سنوارنے کا مجرب نسخہ کٹوں، انڈوں اور مرغیوں کو پالنے کی صورت بیان فرما رہے ہیں۔ اگر آپ کی مراد پولٹری انڈسٹری سے ہے تو ن لیگ کے ارسطو یہ ثابت کر چکے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت اس نوع کے مسائل صوبائی وزارتوں کے تحت آتے ہیں، آپ اپنی مرکزی حیثیت کا کچھ تو ادراک کریں۔ بیرون ملک جاتے ہیں تو اپنی قوم اور اس کی قیادت کو کرپٹ ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں۔ آپ خود ہی اپنی اداؤں پر غور فرمائیں۔ ایسی صورتحال میں کون پاکستان میں سرمایہ کاری کا سوچے گا۔

جب آپ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میں اپنے سیاسی مخالفین کو نہیں چھوڑوں گا، یہ چور ڈاکو ہیں، میں انہیں جیلوں میں بھیجوں گا تو آپ سوچیں کہ اس وقت آپ دنیا کو کیا یہ پیغام نہیں د ے رہے ہوتے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام نام کی کوئی چیز نہیں ہے، آنے والے حالات نہ جانے اس ملک کو کس سمت لے جائیں؟ عرض ہے کہ انسان کو اتنا بے قابو تو نہیں ہونا چاہیے جس پر مابعد اُسے پچھتانا پڑے مگر یہاں تو پچھتاوے والی بات بھی کوئی نہیں بلکہ قیادت کا معیار یہ متعین کیا جا رہا ہے کہ وہ کتنے زیادہ یوٹرن لیتا ہے ہٹلر اور نپولین اس لیے ناکام لیڈر تھے کہ وہ یوٹرن نہیں لیتے تھے۔ ماشاء اللہ کتنا مدبرانہ جائزہ ہے، قیادت کے اعلیٰ اوصاف کا۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو جتنا بڑا جھوٹا، فراڈیا اور بے اصول ہو وہ اتنا بڑا لیڈر کہلانے کا حقدار ہے؟

ایک نکتے کی وضاحت کیے بغیر ضمیر کا بوجھ کم نہیں ہو پائے گا اور وہ ہے سیدنا عیسیٰ مسیح ؑکی تاریخی حیثیت سے متعلق اتنے اہم ایوان سے جاری ہونے والے بیان کی وضاحت، یہی تو ہمار ا المیہ ہے کہ ہم اپنے کی توصیف کرتے ہوئے دوسرے کی تنقیص لازم سمجھتے ہیں اور اسی سے ایک سو ایک خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ فطری انصاف کے تمام تر تقاضے تو رہے ایک طرف خود آپ کا اپنا مذہب بھی اس معاملے میں آپ کے برعکس کھڑا ہے جو آپ کو ”لا نفرق بین“ کا اصول دیتا ہے یعنی یہ جو بڑی شخصیات یا ہستیاں ہیں ہم ان کے درمیان کسی نوع کا فرق یا امتیازی رویہ روا نہیں رکھتے۔ خود آپ کی اپنی حالت تو یہ ہے کہ بات بے بات آپ کی دل آزاری ہو جاتی ہے تو پھر آپ کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے مذہب کے کروڑوں پیروکاروں کی دلآزاری کا باعث بنیں؟

آخر میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ حالات نے آپ کو اس سنگھاسن پر بیٹھنے کا جو موقع عنایت فرما دیا ہے آپ اس کی حساسیت کو سمجھنے کی کوشش کریں بڑے بڑے بول بولنا بند کردیں۔ اپنے مخالف 50 بڑوں کو جیلوں میں بھیجنے کا شوق بھی پورا کرلیں مگر یہ یاد رکھیں کہ یہ کرسی بڑی بے وفا ہے اگر یہ اُن کے پاس نہیں رہی تو ایک دن رہنی آپ کے پاس بھی نہیں ہے۔ خدا سے ڈریں اور اس وقت کا سوچیں جب یہ سب رویے خود آپ کے ساتھ بھی روا رکھے جا رہے ہوں گے۔ پی پی کے رہنما نے جو کچھ کہا ہے ایک مرتبہ پھر اُسے پڑھ یا سن لیں شاید اس میں کوئی ایک نکتہ ہی کام کا ہو نیز اپنے اندر کچھ حوصلہ اور اعتماد پیدا کریں۔ ابھی آپ کو بیٹھے سو دن ہی تو ہوئے ہیں ایسے میں مڈٹرم الیکشن کا رونا رونے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا آپ لوگوں کو اندازہ نہیں کہ بے یقینی کی ایسی فضا اسٹاک ایکسچینج کا بھٹہ ہی نہیں بٹھائے گی بیرونی سرمایہ کاری کا خواب بھی چکنا چور کر دے گی۔ براہ کرم ذمہ دارانہ رویہ اپنائیں، اپنی اپوزیشن کی دلجوئی کرتے ہوئے انہیں تمام تر قومی پالیسیوں میں ساتھ لے کر چلیں نمائشی نعروں کی بجائے قوم کے حقیقی ایشوز پر دھیان دیں ان کے دکھوں کا مداوا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).