امجد صابری حکمرانوں کے لیے سوال چھوڑ گئے
بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے امجد صابری شہید کے پسماندگان کیلیے ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے، کسی بھی انسانی جان کی قیمت نہیں لگائی جا سکتی اور پھر ایسی ارزاں قیمت؟ ہر پاکستانی کی جان و مال کی حفاظت کرنا حکومت کا اولین فرض ہے جس میں وفاقی حکومت سے لے کر صوبائی حکومت تک شامل ہیں اور پھر وہ ادارے جن کا دعوی ہے کہ دہشت گردی پر قابو پال یا گیا ہے بہت بری طرح ناکام ثابت ہوے ہیں۔ امجد صابری اور اس کے خاندان پر جو قیامت بیت گئی ہے اس کا تو کوئی مداوا ہو ہی نہیں سکتا لیکن یہ مالی اعانت تو زخموں پر نمک پاشی ہے۔ ریاست کو امجد صابری کے بچوں کی مکمل سیکورٹی اور کفالت کی ذمے داری لینا چاہیے۔ کراچی میں مکمل امن قائم کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ جزوی طور پر کامیابیاں اگرچہ ملی ہیں لیکن جب سے ضرب عضب کا ہدف دہشت گردوں کی بجاے سیاستدان بننا شروع ہوے ہیں اس کی افادیت میں کمی آچکی ہے۔ بالفاظ دیگر اب رینجرز اور سندھ پولیس میں کوئی خاص فرق نہیں۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کا بیٹا تاحال لاپتہ ہے خدا کرے کہ وہ خیر و عافیت سے بازیاب ہو۔ مقام حیرت ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت مدرسہ حقانیہ کو 30 کروڑ کی امداد سالانہ دینے کا حکم صادر کرچکی ہے۔ یاد رہے کہ درسگاہ حقانیہ کو طالبان کی نرسری بھی کہا جاتا ہے اس پر پیپلز پارٹی کی خاموشی چہ معنی دارد؟ ہم سب منافقت کا شکار ہیں۔ کیا حکمران اور کیا سیاسی جماعتیں۔۔۔ کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ سب کو مل کر ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ قوم کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ دہشت گرد سب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں وہ انسانیت کے دشمن ہیں ان میں کوئی اچھا دہشت گرد نہیں ہوسکتا۔ ہماری ہییت مقتدرہ کو بھی ان اثاثوں سے اب کنارہ کشی اختیار کرنی ہوگی ہماری دو نسلیں تو آپ کے ناکام تجربات کی نذر ہوچکی ہیں خدارا ملکی مفادات کو مقدّم رکھیں اور صرف وہ کام کریں جو آپ کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے۔
پاکستان آج جتنا تنہائی کا شکار ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پہلے ہماری مشرقی سرحدیں غیر محفوظ تھیں۔ اب شمال سے لے کر جنوب مغرب تک غیر محفوظ ہوچکی ہیں، اس پے طرّہ یہ کہ داخلی طور پر دہشت گردی کا شکار یہ ملک ساری دنیا میں ایک تماشہ بن چکا ہے، دنیا جن کو دہشت گرد کہتی ہے وہ سارے پاکستان میں ہی پکڑے جاتے ہیں یا مارے جاتے ہیں۔ اس دو رخی پالیسی نے پاکستان کو عالمی سطح پر ایک ناقابل اعتبار ملک کا تعارف بخشا ہے۔ کیا ہماری عسکری خارجہ حکمت عملی ناکام نہیں ہوچکی، آخر ہم اس ملک کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ذرا اپنی ناک سے آگے دیکھیں۔ آپ کا ہمسایہ ملک جو کہ آپ کے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا ترقی کی دوڑ میں کتنا آگے نکل چکا ہے۔ ان کی کامیاب خارجہ پالیسی نے ہمیں تنہا کر دیا ہے۔ ہماری ہر کمزوری سے وہ فایدہ اٹھاتے ہیں۔ نام نہاد اچھے طالبان سے آپ نے جو امیدیں باندھ رکھی ہیں وہ تو شاید کبھی پوری نہ ہوں ہم آخر کب تک ان اثاثوں کا بوجھ اٹھاتے رہیں گے۔ بقول شاعر
کتنی نسلوں کا خون شامل ہے
قرض ہجرت کا کب ادا ہو گا
امریکا کے ساتھ آپکے تعلقات میں جو سرد مہری ہے وہ محسوس کی جا سکتی ہے ہمارے بزرگ مشیر خارجہ اور حکومت کے دیگر ترجمان امریکا کو طعنے ایسے دیتے ہیں جیسے دو ریاستوں کے درمیان نہیں، خداناخستہ یہ تعلّق دو نوجوانوں کے درمیان تھا ۔
دنیا کا ہر ملک اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر خارجہ پالیسی کا انتخاب کرتا ہے۔ ہمارے ہر حکمران نے آج تک امریکا کے سامنے اپنا کشکول گدائی دراز کیا اور ان کے سب مطالبات پر سر تسلیم خم کے علاوہ اور کیا کیا ہے۔ اگر آپ نے امریکا کے مطالبات مانے ہیں تو حضور بھاری قیمت بھی وصول کی ہوگی، لیکن آپکی کندہ ناتراش پالیسیوں نے ملک کا بیڑا غرق کردیا۔ پاکستان اس وقت دنیا کا بہترین ملک ہوتا اگر ضیاالحق کا منحوس سایہ اس ملک پر نہ پڑتا۔ ہمیں اپنی دفاعی ضروریات کے لئے روس، چین اور دیگر علمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے چاہیں، دہشت گردوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں، ان سب کے ساتھ ایک جیسا ہی سلوک ہونا چاہیے یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک آپ اچھے اور برے طالبان کی تمیز ختم نہیں کردیتے۔ ملک زادہ منظور کا ایک خوبصورت شعر ہے،
دریا کے طلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی
کشتی میں طلاطم ہوگا تو ساحل نہ ملے گا
- خارجہ پالیسی کا شدید بحران - 16/10/2016
- ہم سب والوں کے نام غیرتجریدی خط - 09/08/2016
- خوفزدہ لوگ اور جشن آزادی ! - 08/08/2016
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).