وجاہت مسعود کا غیر مثبت کالم جو چھپ نہیں پایا


اس برس 25 اگست کو احمد فراز کو رخصت ہوئے دس برس ہو گئے۔ خواہش تھی کہ آج کی عرضداشت کا آغاز احمد فراز کی ایک شہرہ آفاق نظم کی پہلی سطر سے کیا جائے۔ یوں بھی احمد فراز کے صاحبزادے شبلی فراز اب ایوان بالا میں حزب اقتدار کے قائد ہیں۔ گویا جنگ کشمیر 1948 کے سپاہی احمد فراز کی پاکستان دوستی پر مہر تصدیق ثبت ہو چکی۔ بایں ہمہ، فراز کی نظم کا مصرع اولیٰ، اگرچہ برمحل ہے، لیکن بوجوہ ضبط تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ سلامتی کے ادارے کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ہدایت کی ہے کہ میڈیا چھ ماہ تک صرف مثبت باتیں دکھائے۔ ہم ان کے فرمان کے تابع ہیں۔ اگرچہ اس ہدایت کی وجہ تسمیہ معلوم نہیں ہو سکی۔

 صحافی اپنے وطن کے مثبت پہلو نہ صرف یہ کہ جانتا ہے بلکہ اس کا منصب ہی لیلائے وطن کے گیسوئے تابدار کو مزید تابدار دیکھنے کی خواہش ہے۔ صحافی کی تنقید ملک و قوم کا اثاثہ ہے۔ صحافی کی نوائے نے کو پابند لے کر دیا جائے تو صحافت اپنے جواز سے محروم ہو جاتی ہے۔ میجر جنرل آصف غفور جوان رعنا ہیں۔ صاحب اختیار ہیں۔ نیک و بد میں امتیاز متعین کرنے پر قادر ہیں۔ بندگان بے مایہ تاہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک جمہوری حکومت حال میں بعد بسیار خرابی منتخب ہوئی ہے۔ اتفاق سے اس حکومت میں ایک وفاقی وزیر اطلاعات محترم فواد چوہدری بھی کابینہ میں جگمگا رہے ہیں۔ ان کا منصب ہی اطلاعات، ذرائع ابلاغ نیز نشر و اشاعت کے معاملات دیکھنا ہے یہ بھی درست ہے کہ بفضل تعالیٰ ملک کی سرحدیں سلامت ہیں۔ ملک حالت امن میں ہے۔ ہنگامی حالات کا نام و نشان نہیں۔ ایسے میں سلامتی کے ادارے کے اعلیٰ عہدے داروں کو براہ راست عوام سے مخاطب ہونے نیز خارجہ امور، معاشی معاملات حتیٰ کہ صحافت کے دروبست پر خیال آرائی کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

محترم آصف غفور نے صحافیوں سے اس گفتگو میں بتایا کہ ملک ایک اہم مقام پر کھڑا ہے۔ یہاں سے آگے حالات بہت اچھے ہوں گے یا بالکل خراب ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ تشخیص درست ہے اور جنرل صاحب کی بصیرت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قوم کو اس فیصلہ کن مرحلے میں زیادہ چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں قوم کی آنکھوں پر چھ ماہ کے لیے صرف مثبت پہلو دیکھنے والی عینک مسلط کرنا مناسب نہیں۔ ہم نصف صدی قبل بھی ایسے ہی ایک مرحلے سے گزرے تھے۔ 7 دسمبر 1970 سے 16 دسمبر 1971 کی سہ پہر تک مغربی پاکستان کے ذرائع ابلاغ صرف مثبت پہلو دکھا رہے تھے۔ اس کوتاہ نظری کے نتیجے میں ملک اس المیے سے دوچار ہوا جسے خود میجر جنرل آصف غفور نے اپنی مذکورہ گفتگو میں قوم کی بنیادی ناکامیوں میں شمار کیا ہے۔

جنرل صاحب نے کچھ فالٹ لائنز کا ذکر کیا ہے۔ درویش بے نشاں یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ قومی مفاد کی فالٹ لائنز کا تعین تو پارلیمینٹ کا منصب ہے۔ پارلیمینٹ الحمدللہ موجود ہے۔ مرکز اور صوبوں میں منتخب ایوان تازہ دم سپاہ کی طرح مستعد ہیں۔ جنرل صاحب کو پاکستان کی اجتماعی فالٹ لائنز کی فہرست گنوانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس دوران انہوں نے، منجملہ دیگر امور کے، “جمہوریت اور جمہوریت کی باریاں” کی ترکیب بھی استعمال کی۔ (بحوالہ روزنامہ جنگ 07 دسمبر 2018)۔ واللہ بندہ ناچیز فرمان کا یہ حصہ سمجھ نہیں سکا۔ اگر حافظہ دھوکا نہیں دے رہا تو ’دو سیاسی جماعتوں میں باریاں‘ لینے کا تصور موجودہ وزیر اعظم نے اپنے سیاسی بیانیے میں متعارف کرایا تھا۔ چنانچہ ان دنوں ایک تیسری سیاسی جماعت باری لے رہی ہے؟ مشکل یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کا منتخب ہونا عوام کے ووٹوں کا محتاج ہے۔ ’باریاں‘ لینے کی ترکیب سے مترشح ہوتا ہے گویا حکومتوں کا بننا اور بگڑنا جمہور کی رائے کے تابع نہیں بلکہ ماورائے دستور بندوبست کا شاخسانہ ہے۔

دست بستہ درخواست ہے کہ براہ کرم جمہوریت بطور فالٹ لائن کی کچھ مزید تشریح کر دی جائے۔ نمک خوار یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جمہوریت کی حمایت کرنا فالٹ لائن قرار پایا ہے یا مخالفت؟ مرحوم کوثر نیازی یاد آ گئے۔ ایوب دور میں سرکار کے محکمہ اطلاعات کے لیے فرمائشی مضامین لکھا کرتے تھے۔ ایک روز حکم ہوا کہ رشوت کے بارے میں ایک مضمون تحریر کیا جائے۔ مولانا نے سادگی سے پوچھا، حضور رشوت کی حمایت میں لکھنا ہے یا مخالفت میں؟

میجر جنرل آصف غور نے اپنی چشم کشا گفتگو میں بتایا کہ ستر برس سے ملک کمزور معیشت، سلامتی کو لاحق خطرات اور سیاسی عدم استحکام وغیرہ کا شکار رہا ہے۔ تاہم پچھلے کچھ برس میں حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ جنرل صاحب نے اس ضمن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور بلوچستان کے حالات پر اعداد و شمار کی مدد سے تفصیلی روشنی ڈالی نیز یہ بھی فرمایا کہ اب یہ پرانی فوج نہیں رہی۔ کچھ سادہ سے سوالات اس بیان سے بھی سامنے آتے ہیں۔ ستر برس کی جس تاریخ کا ذکر کیا گیا ہے اس میں کم از کم تینتیس برس براہ راست سلامتی کے اداروں نے حکومت کی ہے۔ باقی ماندہ مدت میں متعدد حکومتیں مرگ ناگہانی کا شکار ہوئیں۔ اگر ستر برس سے قوم ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکی تو تاریخ ضرور فیصلہ دے گی کہ اس بناﺅ بگاڑ میں کس کا دست معجز نما کار فرما تھا۔ واضح رہے کہ تاریخ اپنا فیصلہ دینے میں چھ ماہ یا چھ عشروں کی حد بندیوں سے ماورا ہوتی ہے۔

نئی اور پرانی حکمت عملی کی اصطلاح بھی وضاحت چاہتی ہے۔ درویش بے نشاں کی یادداشت میں کوئی ایسا برس نہیں جب قومی سلامتی کے ادارے میں خوشگوار تبدیلیوں کی نوید نہ دی گئی ہو۔ دقت صرف یہ ہے کہ یہ طے نہیں ہو پاتا کہ پرانی حکمت عملی دراصل کیا تھی اور یہ کہ موجودہ حکمت عملی میں کیا نئے پہلو ہویدا ہوئے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے محترم جنرل صاحب نے آپریشن رد الفساد کے اعداد و شمار دیے ہیں لیکن آپریشن ضرب عضب کا ذکر نہیں کیا۔ اگر ضرب عضب اور رد الفساد میں جوہری فرق معلوم ہو جائے تو نئے اور پرانے کی تفہیم آسان ہو جائے۔

بار دگر عرض ہے کہ اس ملک کے رہنے والے قوم کے مثبت پہلو بھی جانتے ہیں اور اپنے روشن چراغوں کی شناخت بھی رکھتے ہیں۔ ایسے ہی ایک صاحب بصیرت محمد رستم کیانی مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ دسمبر 1958 میں خود ساختہ صدر پاکستان ایوب خان کی موجودگی میں کراچی میں ایک تاریخ ساز تقریر کی تھی۔ حکومت نے برافروختہ ہو کر جسٹس رستم کیانی کو تجویز دی کہ وہ اپنے منصب سے مستعفی ہو جائیں، فرمایا ’ بہتر ہو گا کہ حکومت مجھے برطرف کرے‘۔ حکومت نے جسٹس کیانی کو برطرف نہیں کیا۔ اپنے عہدے کی معیاد مکمل کر کے اکتوبر 1961 میں سبکدوش ہوئے۔ 15 نومبر 1962 کو ایک تقریب سے خطاب کرنے چٹاگانگ گئے تھے، ریسٹ ہاﺅس میں اپنی تقریر لکھ رہے تھے کہ حساس دل نے دھڑکنا بند کر دیا۔

رستم کیانی کی ادھوری تقریر کی آخری سطریں اس قابل ہیں کہ انہیں دہرایا جائے۔ لکھا تھا، ’اگر مجھے اپنے ضمیر کی روشنی میں بات کہنے سے پہلے یہ سوچنا پڑے کہ اس سے میری ذات اور میرے اہل خانہ کو کیا خطرات لاحق ہوں گے تو میں ایسے ملک میں رہنا پسند نہیں کرتا‘۔ چونکہ حالات واقعتا ایسے ہی تھے، جسٹس رستم کیانی نے رخت سفر باندھ لیا۔ اعلیٰ عدلیہ کے محترم ارکان ہوں، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر یا معمولی صحافی، قوم کے تمام طبقات کا فرض ہے کہ پوری طرح چوکنے رہیں، مثبت پر آنکھ رکھیں اور ممکنہ خطرات سے خبردار رہیں۔ احمد فراز کا مصرع اولیٰ تو لکھا نہیں جا سکا، اسی نظم کا ایک اور شعر پڑھ لیجیے

مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی

مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).