انڈیا: گنگا کو بچانے کے لیے سادھو کی موت تک بھوک ہڑتال


انڈیا میں گزشتہ 20 برس میں درجنوں سادھو، مختلف حکومتوں پر ہندوؤں کے لیے مقدس دریا گنگا کو صاف کرنے کا دباؤ ڈالنے کے لیے، بھوک ہڑتال کا راستہ اپنا چکے ہیں۔ حال ہی میں ایک ایسے ہی سادھو کی موت کی خبر سرخیوں میں بھی رہی۔ سوتک بسواس نے ایسے لوگوں کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی۔

ہندوں یاتریوں کے لیے مقدس شہر ہریدوار کے قریب ایک خاموش آشرم میں ایک نوجوان سادھو نے کہا کہ وہ گنگا کو بچانے کے لیے اپنی جان دے دے گا۔

آتمابودھ آنند کی بھوک ہڑتال کا یہ چالیسواں دن تھا، جو انہوں نے دو ماہ قبل اسی آشرم کےاہم رکن کی موت کے بعد شروع کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:

’گنگا جمنا بھی انسان ہیں‘

جب جناح کا بنگلہ گنگا جل سے دھلوایا گیا

انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالا کا، کمپیوٹر سائنس کی تعلیم ادھوری چھوڑنے والا، یہ 26 سالہ نوجوان آم کے درخت کے نیچے کمبل میں لیٹا اپنا وقت گزارتا ہے۔ رات کو سردی سے بچنے کے لیے وہ اس عام سی عمارت کے اندر چلا جاتا ہے۔

اس نے کہا کہ ’میں مرنے کے لیے تیار ہوں، ہمارے آشرم میں قربانی دینے کی روایت ہے‘۔

ماتری سدن نامی تین ایکڑ پر پھیلا یہ سرسبز آشرم دریا کے کنارے واقع ہے۔ آتمابودھ آنند نے 24 اکتوبر کو کھانا چھوڑ دیا تھا اور اب ان کا گزارا صرف پانی نمک اور شہد پر ہے۔

سنہ1997 میں اس آشرم کے قیام کے بعد سے یہاں پر یہ 60ویں بھوک ہڑتال ہے۔ اس آشرم کے باسی مختلف حکومتوں پر بڑے ڈیم ختم کرنے، ریت کی کھدائی روکنے، دریا کی صفائی اور اس کے تحفظ کے لیے قانون سازی کے لیے دباؤ ڈالتے رہے ہیں۔ کئی حکومتوں نے ماضی میں ان کے مطالبات تسلیم بھی کیے۔

دریائے گنگا

گنگا انڈیا کا سب سے طویل دریا ہے

سات سال قبل 36 سالہ سوامی نگم آنند 115 دن کھانا چھوڑنے کے بعد کومے میں چلے گئے اور پھر ان کی موت واقع ہو گئی۔ وہ اس آشرم کی سب سے طویل بھوک ہڑتال تھی۔ انہوں نے حکومت سے دریا کے قریب ریت کی کھدائی بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ایک 39 سالہ مقامی سادھو اور اس آشرم کے رکن سنت گوپال داس اس وقت ہسپتال میں ہیں جہاں انہیں زبردستی کھانا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

لیکن جس خبر نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی وہ تھی اکتوبر میں ماحولیات کے انجنیئر 86 سالہ جی ڈی اگروال کی موت۔ اگروال جنہیں سوامی گیان سوروپ سنند بھی کہا جاتا تھا 111 دن کی بھوک ہڑتال کے بعد ہلاک ہوئے۔

اگروال نے امریکہ میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے سے تعلیم حاصل کی تھی اور انڈیا کے اعلیٰ ادارے ِنڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے سنہ 2011 میں مادی دنیا ترک کر دی اور سادھو بن گئے۔ موت سے پہلے انہوں نے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کو تین خط لکھے لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملا تھا۔

اگروال کی موت کے دو ہفتے کے بعد آتمابودھ نے اپنی بھوک ہڑتال شروع کر دی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایک انسان کی بھوک سے دریا پھر سے زندہ ہو سکتا ہے۔‘

انڈیا کا سب سے طویل دریا گنگا ہمالیہ سے شروع ہو کر خلیج بنگال تک جاتا ہے۔ اڑھائی سو کلومیٹر طویل اس دریا میں پانی کی کم ہوتی سطح اور اس کی خراب ہوتی ’صحت‘ کئی برسوں سے ماہرین کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ انڈیا کی ایک اعشاریہ تین ارب کی آبادی کے ایک چوتھائی حصے کا دار و مدار اس دریا کے پانی پر ہے۔

ہندو اس دریا کو خدا کا درجہ دیتے ہیں اور ان کا ایمان ہے کہ اس کے پانی سے گناہ دھل جاتے ہیں۔

لیکن گنگا پر ایک ہزار ڈیم بن چکے ہیں اور زیر زمین پانی کے استعمال کی زیادتی نے اس کے پانی کی سطح بھی کم کر دی ہے اور جو پانی اس میں بہتا بھی ہے وہ صنعتی فضلے اور گھریلو کوڑا کرکٹ اس میں پھپینکے جانے کی وجہ سے زہریلا ہو چکا ہے۔

ہریدوار میں 1984 میں ایک بار خود دریا کو اس وقت آگ لگ گئی جب کسی نے جلتی ہوئی ماچس کی تیلی اس میں پھینک دی تھی۔ اس دریا کے بارے میں کتاب ’ریور آف لائف، ریور آف ڈیتھ‘ کے مصنف وکٹر میلٹ کا کہنا ہے کہ ’انڈین گنگا کو گندگی سے مار رہے ہیں اور وہی گندی گنگا بدلے میں ان کو مار رہا ہے۔‘

آشرم کے سادھوؤں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کی بی جے پی جو 2014 میں گنگا کو صاف کرنے کے نعرے پر اقتدار میں آئی تھی ’مغرور ہے اور دریا کی صفائی میں اس کی کوئی دلچسپی نہیں۔‘

انہیں عجیب لگتا ہے کہ اگروال کی باتوں پر، جو ہندو قوم پرستوں کے زیادہ قریب تھے‘ کانگریس پارٹی نے زیادہ دھیان دیا تھا۔

انہوں نے کانگریس کی حکومت کے دوران آٹھ بار بھوک ہڑتال کی اور ہر بار کوئی نہ کوئی بات منوا لی جس میں ڈیم کے ایک منصوبے کو ختم کروانا اور دریا کے ایک سو کلومیٹر کے ایک حصے کو حساس قرار دلوانا تھا۔

ماضی میں بھوک ہڑتال کرنے والے 72 سالہ سوامی شیو آنند نے کہا کہ ’ہم دریا کے لیے جان دے دیں گے۔ اگر حکومت خون چاہتی ہے تو ہم انہیں خون دیں گے۔ ‘

دریائے گنگا

گنگا کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ دریاؤں میں ہوتا ہے

پانچ سال پہلے آتمابودھ آنند نے کیرالا میں اپنی تعلیم ترک کی اور ٹرین، بس اور پیدل سفر کرتے ہوئے ریاست اتراکھنڈ میں ہریدوار پہنچ گئے۔ وہ مادی دنیا سے باہر زندگی تلاش کرنا چاہتے تھے اور عام طور پر مذہبی لوگوں کے طرز زندگی سے مایوس تھے۔ انہوں نے ہمالیہ میں گم ہو کر اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

اسی دوران ان کی سوامی شیو آنند سے ملاقات ہوئی جو انہیں آشرم میں لے آئے جہاں انہوں نے عبادت کے ساتھ ساتھ آشرم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی چلائے۔ وہ سنہ 2014 کے بعد آٹھ بار بھوک ہڑتال کر چکے ہیں۔ وہ دریا سے ریت اور پتھر نکالنے کے خلاف ہیں اور حکام ان کی بھوک ہڑتال کی وجہ سے ان کی کچھ باتیں ماننے پر مجبور بھی ہوئے۔

بھوک ہڑتال کے ذریعے احتجاج کا طریقے انڈیا کے لیے نیا نہیں۔ لیکن مارتی سدن کے باسیوں کی بھوک ہڑتال کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت نہ ملنا غیر معمولی ہے۔ آتمابودھ آنند کہتے ہیں کہ ’لوگ خود غرض ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے فائدے کی چیزوں کی بھی اب پرواہ نہیں کرتے۔‘

بی جے پی کی حکومت میں پانی کے وزیر نتن گڈکری کا کہنا ہے کہ حکومت نے دریا کی حالت بہتر کرنے کے لیے تین ارب ڈالر کی لاگت سے 254 منصوبے شروع کیے ہیں اور زیادہ تر کام اگلے سال تک مکمل ہو جائے گا۔ انہوں نے حال ہی میں دلی میں ایک بیان میں کہا کہ لوگوں کا پہلے جیسی گنگا دیکھنے کا خواب جلد پورا ہو جائے گا۔

تاہم سادھو حکومت سے مطمئن نہیں اور اس آشرم کے باسیوں کے لیے بھوک ہڑتال بدستور ایک راستہ ہے۔

ایک سال پہلے سادھو بننے والے اکسٹھ سالہ سوامی پنیا آنند جن کی دلی میں آٹوموبائیل ورکشاپ تھی کہتے ہیں کہ اگلی باری ان کی ہے۔ موت تک بھوک ہڑتال کی تیاری میں اب وہ صرف پھلوں پر گزارا کر رہے ہیں۔

بھوک ہڑتالوں کے اس آشرم میں دریا کے لیے جان دینے کی ایسے ہی تیاری کی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp