جون سے علیحدگی کے بعد زاہدہ نے بھی شادی نہیں کی


جون ایلیا کے رفقاء بتاتے ہیں کہ جب جون کی زاہدہ حنا سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت خوش تھے پھر دونوں آہستہ آہستہ قریب ہوئے اور شادی ہوگئی بدقسمتی سے یہ ازدواجی بندھن زیادہ عرصے چل نہ سکا۔

نامور شاعر انور شعور کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو جون کے بہت قریب رہے، حتیٰ کہ ’شاید‘ کا دیپاچہ بھی انہوں نے ہی تحریر کیا، یہاں تحریر سے مراد املا ہے۔ آئیے انہی کی زبانی ایک واقعہ آپ کی نظر کرتا ہوں۔

ایک لڑکی تھی جو جون کو بہت زیادہ پسند کرتی تھی مگر پھر اُس کا انتقال ہوگیا، جب جون ایلیا کو اُس کے رخصت ہونے کی خبر ملی تو وہ بہت رنجیدہ ہوئے۔ سب رنگ ڈائجسٹ کے زمانے میں جون ایلیاء کا دفتر آنا جانا معمول کی بات تھی، چھٹی کے بعد دونوں دوا دارو کے ساتھ بیٹھ کر کچھ نہ کچھ ضرور لکھا کرتے تھے۔

’زاہدہ حنا ایک اسکول میں بطور اکاؤنٹنٹ ملازمت کرتی تھیں، جون نے جب انہیں پہلی بار دیکھا تو بہت زیادہ متاثر ہوئے اور واپس آکر مجھے بتاتے ہوئے تلقین کی کہ اس بات کا تذکرہ کسی سے بھی نہ کروں مگر تھوڑی دیر بعد جب دوسرا کوئی شخص محفل میں آیا تو اُسے بھی پورا واقعہ بیان کردیا‘ ۔

جون کسی نہ کسی بہانے سے اسکول پہنچ جاتے تاکہ اُن کی ملاقات ہوجائے پھر ایک روز جون نے بتایا کہ وہ اور زاہدہ ایک سڑک پر کافی دیر ٹہلتے رہے اور بہت ساری باتیں بھی کیں۔ جون کے بھانجے اور داماد ممتاز سعید شمّن نے زاہدہ حنا کو انگوٹھی پہنا دی تو اس طرح منگنی ہوگئی جبکہ جون کے بڑے بھائی رئیس امروہی اور تقی صاحب اور مجھ سمیت کئی لوگ بھی جون کے ذریعے معاش کے حوالے سے پریشان تھے۔

والد کے بزرگ ہونے کی وجہ سے زاہدہ پر گھر کی معاشی اور چھوٹے بچوں کی ذمہ داری تھی اس وہ رخصت ہوکر اپنے گھر نہیں آئیں بلکہ جون گھر داماد بن کر اُن کے ہاں گئے۔ جون ملازمت کو گھٹیا کام سمجھتے تھے، اس لیے زاہدہ نے ہی اُن کی ذمہ داری اٹھائی کیونکہ لڑکی نے یہ شادی خاندان کی مخالفت کے باوجود کی تھی۔

شادی کے بعد دونوں کی علیحدگی ہوئی جون بہت زیادہ ٹوٹ گئے تھے اور زاہدہ کو بھی شدید دھچکا پہنا مگر اُس کے باوجود زاہدہ نے بھی شادی نہیں کی اور نہ ہی کسی نے انہیں جون کی مخالفت میں بولتے ہوئے سُنا، ہاں وہ نام لینے سے گریز ضرور کرتی ہیں۔
انور شعور نے یہ گفتگو ریختہ کے اینکر زمرد مغل سے کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).