گلگت بلتستان بند گلی میں


۔ایسا معلوم ہوتا ہے عمران خان کی حکومت گلگت بلتستان کو طویل مدت کے لئے بند گلی میں لے جانے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ گلگت بلتستان کو اگرچہ آئینی صوبہ بنانا ہے تو یہ صریحا پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔ اگر عبوری صوبہ بنانا ہے تو بھی اس کو پارلیمنٹ سے علاقہ ہو گا۔ اگر کسی آرڈر (صدارتی آرڈیننس ہو یا ایگزیکٹیو آرڈر) کے تحت کوئی سیٹ اپ دینا ہے تو یہ انتظامیہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ یعنی یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں حل کیا جانا تھا یا انتظامی طور پر اسے ڈیل کرنا تھا۔

اس اہم اور حساس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جانے میں حکومت سنجیدہ ہی دکھائی نہیں دی۔ حساس معاملہ پارلیمنٹ میں جاتا بھی کیسے جب اصل فیصلہ ساز حساس ادارے ہوں؟ رہی بات انتظامیہ کی تو کابینہ اجلاس میں پہلے تو اسے درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا گیا۔ بالاخر کھڈے لائن لگا دیا گیا۔ حکومت پارلیمنٹ سے لے کر کابینہ تک تو کوئی واضح پالیسی بیان دینے سے گریزاں رہی۔ مگر سپریم کورٹ میں حکومت کی نیت کھل کر سامنے آ گئی۔ اٹارنی جنرل کمرہ عدالت میں بول اٹھے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ایک مسودہ (آرڈر کا) تیار کیا جا رہا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے مسودے کو حتمی شکل دینے کے لئے کمیٹی بنا ڈالی۔ یعنی اب معاملہ بالواسطہ یا بلا واسطہ سپریم کورٹ کے پاس چلا گیا جو در اصل سارے معاملے کا اسٹیک ہولڈر ہی نہیں۔ بقول شاعر

یہ کیسی جنگ تھی دونوں فریق ہار گئے
جو فتح مند ہوا وہ شریک جنگ نہ تھا

بہت کم لوگوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ عدالت عظمی میں جو کیس چل رہا ہے وہ دراصل یہ ہے کہ آیا گلگت بلتستان سپریم کورٹ آف پاکستان کے دائرہ سماعت (Jurisdiction) میں آتا ہے یا نہیں؟ مگر وفاقی حکومت (دراصل اسٹیبلیشمنٹ) کی مخصوص پالیسی اور گلگت بلتستان حکومت کی (کیس میں ) بے اعتنائی نے معاملہ اس نہج پر پہنچایا ہے کہ اب گلگت بلتستان کے سیاسی، آئینی و انتطامی حقوق کا فیصلہ سپریم کورٹ (کمیٹی کے ذریعے ) کرے گا۔ بنیادی طور پر یہ کام نہ سپریم کورٹ کا ہے نہ ہی کیس کی نوعیت ایسی تھی۔ مگر عمران خان حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ نے شعوری طور پر جبکہ گلگت بلتستان حکومت نے لا شعوری طور پر اتنا بڑا فیصلہ تھرڈ پارٹی کو سونپ دیا ہے۔ یعنی ”وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا“

اب جب سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ کمیٹی مسودہ تیار کرے گی۔ کوئی نیا آرڈر جاری ہو گا اور نافذ ہو گا تو اس کے پیچھے سپریم کورٹ ہو گا۔ سپریم کورٹ کا مہر ثبت شدہ مسودہ ہی نیا قانون بنے گا۔ اور یہی نکتہ ہو گا جو گلگت بلتستان کے 70 سالہ آئینی حقوق کیس کو بند گلی میں لے جائے گا۔ یہاں کے لوگوں کی 70 سالہ جدوجہد پر پانی پھیر دے گا۔ یاد رہے سپریم کورٹ کے فیصلے کو صرف پارلیمنٹ ہی ختم کر سکتی ہے۔ اور دو تہائی اکثریت سے ختم کر سکتی ہے۔ مگر یہاں پارلیمنٹ اور اس کے مکین سادہ اکثریت سے گلگت بلتستان کے لئَے کوئی قرارداد، قانون، ۔ آرڈر پاس کرنے کی زحمت نہیں کرتے یا کتراتے ہیں، اس پارلیمنٹ سے یہ امید رکھنا عبث ہے کہ یہ گلگت بلتستان کے لئَے دو تہائی اجتماع لگائے گی۔

صدارتی آرڈیننس پیپلز پارٹی نے بھی جاری کیا۔ آرڈر ن لیگ نے بھی چلایا۔ مگر یہ اطمینان تو تھا کہ یہ محض انتظامی نوعیت کے حکم نامے ہیں۔ یہ حکم نامہ آج جاری ہوا ہے تو کل ایک اور حکم کے ذریعے ختم بھی ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی عدالتی فیصلہ نہیں۔ کوئی قانونی نظیر نہیں، محض ایک انتظامی آرڈر ہے۔

مگر یہ عمران خان نے کیا کیا کہ ہماری سیاسی تقدیر کا فیصلہ ایک کورٹ کے حوالے کر دیا؟ گلگت بلتستان صوبہ بنے گا یا نہیں، اب یہ سپریم کورٹ طے گا؟ آئینی حقوق قانون سازی کے ذریعے ملتے ہیں۔ کیا سپریم کورٹ قانون ساز ادارہ ہے؟ ایک خطے کے عوام کی سیاسی جدوجہد درست ہے یا نہیں اس کو عدالت کے میزان پر تولا جائے گا؟

قصہ مختصر یہ کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان حکومت نے سمارٹ کھیلا۔ گلگت بلتستان والوں کو ڈاچ دے دیا۔ بالکل ”سمیع اللہ سے کلیم اللہ، کلیم اللہ سے سمیع اللہ“ والے انداز میں ڈاچ دے دیا۔ آئینی حقوق نامی فٹ بال کو حکومت نے کک مار کے کابینہ کے پاس پہنچایا۔ کابینہ نے اٹارنی جنرل کو پاس دیا، اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو غلط پاس دے دیا اور سپریم کورٹ نے بال گول پوسٹ کے اندر پہنچا دیا۔ گلگت بلتستان کے عوام اسٹیڈیم کے باہر حیران و پریشان کھڑے دیکھتے رہ گئے۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen