پڑھے لکھے پروفیسر اور جہالت کا راج


جہالت ہمارا سب سے بڑا قومی دشمن ہے لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم خود ہی اپنے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں تعلیم کی کمی ہے یا ڈگریوں والے موجود نہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں 11 ہزار 670 پی ایچ ڈی پروفیسرز کام کر رہے ہیں جبکہ سالانہ 18 ہزار انجینئرز، 30 ہزار سے زائد ڈاکٹرز، پونے چار لاکھ بزنس گریجویٹس فارغ التحصیل ہورہے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں میں بھاری بھرکم ڈگریوں والے اساتذہ پر مشتمل فیکلٹیز قائم ہیں۔

گویا سب کچھ ہے لیکن جہالت ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ ڈگریوں والے سینکڑوں نوجوان مقابلے کا امتحان پاس کرکے بیورو کریسی کا حصہ بن رہے ہیں لیکن سرکاری محکموں کا حال ابتر ہو رہا ہے۔ ہسپتال بن رہے ہیں۔ ان میں جدید میڈیکل ٹیکنالوجی سے آراستہ علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ سینکڑوں ڈاکٹرز بھرتی کیے جا رہے ہیں لیکن مریض تڑپتے نظر آتے ہیں۔ بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ شرح اموات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔

ملک میں سیاسی عمل جاری ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ سمیت صوبائی اسمبلیاں موجود ہیں۔ انتخابات بھی ہورہے ہیں لیکن قوم آگے نہیں بڑھ رہی۔ مولانا عبدالستار ایدھی کہا کرتے تھے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کی کمی نہیں، بس جہالت بہت زیادہ ہے جسے دیکھ کر میرا دل کڑھتا ہے۔ یہ پڑھے لکھے جاہل نہ سمجھنے کے ہیں نہ سمجھانے کے۔ اس ساری صورتحال کا ادراک تو موجود ہے لیکن کوئی حل تجویز نہیں کیا جا رہا۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو 11 ہزار 670 پی ایچ ڈی پروفیسرز یونیورسٹیوں میں تعینات ہیں ان میں سے 80 فیصد خود جاہل ہیں۔

اعلٰی ترین ڈگریوں کے باوجود ان پروفیسرز کو پڑھانا نہیں آتا۔ سکولوں کالجوں کا حال تو اور بھی برا ہے۔ ایم اے اور ایم فل اساتذہ تربیت سے عاری ہیں۔ انہیں کمیونیکیشن کرنی نہیں آتی۔ بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ محکمہ تعلیم کے 80 فیصد سے زائد اساتذہ محض ایک سرکاری ملازم ہیں ہرگز اساتذہ نہیں۔ ان کو بات سمجھانی نہیں آتی۔ تعلیمی صورتحال یہ ہے کہ بچے اتنے زیادہ نمبرز حاصل کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یونیورسٹیز کے طلباءکے جی پی ایز دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کی کمی ہے لیکن اعلی نمبرز والے کچھ کر کے دکھانے سے قاصر ہیں۔ گویا جہالت کی تباہ کاریاں کم نہیں ہورہیں۔ مسئلہ جوں کا توں موجود ہے۔

یہ جو ہم گزشتہ کئی سالوں سے کرپشن کرپشن کی صدائیں بلند کررہے ہیں یہ بھی دراصل اسی قومی جہالت کا شاخسانہ ہے۔ بیشتر پڑھے لکھے اعلٰی افسر ز اور بیرون ممالک سے ڈگریاں حاصل کرنے والے سیاستدان کرپشن کی غلاظت میں اضافہ کر رہے ہیں۔

دراصل ہمیں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی بھی ضروت ہے۔ پہلے تربیت ہوا کرتی تھی اب صرف تعلیم ہی تعلیم ہے جس کا واحد مقصد ملازمت کا حصول ہے۔ تربیت یکسر غائب ہے۔ ماؤں کی گود جو پہلی تربیت گاہ ہوتی تھی وہ اب مردانہ مقابلے میں شریک ہو کر محض تعلیم یافتہ خواتین بن کررہ گئی ہیں۔ ماں کا انسٹی ٹیوشن بالکل ختم ہوگیا ہے۔ اسلام عظیم مذہب ہے جس نے تعلیم اور تربیت کے امتزاج کے ساتھ ”علم“ عطاکیا۔ پورا قرآن دراصل انسانوں کی تربیت کا سبق ہی تو ہے۔ افسوس ہم اسلام اورقرآن سے بہت دور چلے گئے۔

قوم کو تربیت کی طرف واپس لانے کے لئے حکومتوں کو جنگی بنیادوں کردار ادا کرنا ہوگا۔ روزگار دینے کے چکر میں محکمہ تعلیم میں سرکاری ملازمین کی بھرتیون کے جاہلانہ فلسفے سے باہر نکل کر حقیقی اساتذہ تلاش کرنے ہوں گے۔ عورتوں کو گھروں میں نئی نسل کو تربیت یافتہ بنانے کے مشن پر لگانا ہوگا۔ سرکاری محکموں میں افسر ز اور بیوروکریٹس کی جگہ احساس والے انسانوں کو ذمہ داریاں دینا ہوں گی۔ میدان سیاست میں قوم کا درد رکھنے والے افراد کو مواقع دینا ہوں گے۔

یہ سب کچھ ممکن ہے۔ سری لنکا بھی ہماری طرح ایک ترقی پذیر ملک ہے لیکن وہاں تعلیم تربیت سے آراستہ ہے۔ پاکستانی ماہرین کا ایک گروپ سری لنکا گیا تو وہاں انہیں مختلف سکولوں کے دورے کرائے گئے۔ وفد کو کلاس رومز، واش رومز، کھیل کے میدان، لائبریری وغیرہ دکھائی گئیں۔ سب کچھ بہترین تھا۔ رخصت ہوتے وقت سکول کے پرنسپل نے کہا کہ آخری چیز دیکھنے کے لئے رہ گئی ہے۔ پرنسپل صاحب وفد کو سکول کی کنٹین پر لئے گئے۔ کنٹین سامان سے بھری ہوئی تھی لیکن کوئی کنٹین والا موجود نہیں تھا۔ بچے آتے تھے کیش کاونٹر پر پیسے رکھتے تھے اور چیز اٹھا کر لے جاتے تھے۔ پاکستانی ماہرین کا وفد بہت حیران ہوا۔ پرنسپل نے کہا کہ ہم نے اپنے بچوں کی اتنی تربیت کر دی ہے کہ وہ کم از کم اپنی کنٹین کے ساتھ زیادتی نہیں کرتے۔

ہمارے ہاں سیاست حکمرانی کا نام ہے۔ ساری خرابیاں اسی بنا پر ہیں۔ کسی پوسٹ پر تعیناتی سے قبل ڈگریاں اور وابستگیاں تو دیکھی جاتی ہیں لیکن اہلیت نہیں دیکھی جاتی۔ سرکاری افسران کو حکمران ٹولہ کٹھ پتھلی کی طور پر استعمال کرتا ہے نتیجے میں ملک آگے نہیں بڑھ رہا۔ بڑی بڑی ڈگریوں کے باوجود قوم تربیت یافتہ افراد سے محروم ہے۔ عمران خان کی نئی حکومت سے بہت امیدیں وابستہ ہیں لیکن ابھی تک سرکاری عہدون پر تقرریوں اور تعیناتیوں میں شفافیت نظر نہیں آئی۔

قابل اور احساس والے تربیت یافتہ افسران کو کونوں کھدروں میں ٹھوس دیا گیا ہے۔ خوشامد اور جی حضوری والے قوم پر بد ستور مسلط ہیں۔ گزشتہ روز میں نے ایک اخبار میں شائع ہونے والا کالم پڑھا۔ کالم کے اختتام پر ایک ایسے بہترین افسر کا ذکر تھا جن کے بہترین ہونے کا میں خود گواہ ہوں۔ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت پارلیمانی امور جناب شکیل ملک بڑے جہاندیدہ افسر اور نیک طبعیت انسان ہیں۔ ان کے وجود میں اچھائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔

وہ طنز و مزاح سے بھرپور مختصر تحریریں بھی لکھتے ہیں جن میں عہدون پر متمکن افراد کی جہالت کاراز فاش کیا جاتا ہے۔ شکیل ملک قومی احتساب بیورو (نیب) میں بطور ڈائریکٹر جنرل ایچ آر بھی تعینات رہے۔ ان کے ذمہ یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ نیب کے اندر صفائی کریں۔ ملک صاحب چونکہ ایک صاف نیت والے روحانیت پسند انسان ہیں۔ انہوں نے گریڈ 16 سے گریڈ 19 تک کی گندگی خوب صفائی کی۔ خوامخواہ میں نیب کے ساتھ چمٹے ہوئے دوسرے محکموں کے افسران کو واپس بھجوایا۔

ان کے کام سے حکومت اور پارلیمنٹ بہت خوش تھی لیکن افسران بہت پریشان تھے۔ گریڈ 19 تک تو انہوں نے برداشت کر لیا۔ جونہی ملک صاحب نے گریڈ 20 اور اس کے اوپر کی طرف ہاتھ بڑھایا تو جاہلوں نے انہیں اپنی جہالت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ شکیل ملک کو نشان عبرت بنانے کا پروگرام بنایا گیا تھا لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے کے مصداق اللہ نے انہیں عزت سے نوازا۔ نیب کے ایک سرکردہ افسر جس پر کرپشن کے بے شمار الزامات ہیں اور وہ خود چور دروازے سے نیب میں داخل ہوا تھا نے کوشش کی کہ شکیل ملک کو کسی دفتر میں جوائنٹ سیکرٹری کی پوسٹ پر لگا کر ذلیل کیا جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

خود چیئرمین نیب نے اس معاملے میں مداخلت کی اور شکیل ملک کو وزارت ماحولیاتی تبدیلی میں بطور ایڈیشنل سیکرٹری تعینات کر دیا گیا۔ اس دوران انہین گردوں کی شدید تکلیف ہوئی لیکن ان کی ہمت پر آفرین ہے کہ وہ ڈیلاسز کی نلکیون کے ساتھ افس میں کام کرتے تھے۔ ایسے نابغہ روزگار افسر ڈھونڈے سے نہیں ملتے لیکن ان کی قابلیت کو استعمال نہیں کیا جا رہا۔ ہماری قومی جہالت کی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ عمران خان نے قوم کو فلاحی ریاست کا خواب دکھایا ہے۔ متعدد شعبوں میں اصلاحات کے لئے ٹاسک فورسز بنائی ہیں۔ دیکھتے ہیں وہ جہالت کے خلاف ٹاسک فورس کب بنائیں گے ورنہ ہمارے لئے لفظ ”جاہل“ کہنا ہی کافی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).