کراچی: سپر ہائی وے پر ہائوسنگ سوسائٹی کے باہر احتجاج کس نے کروایا؟



کراچی میں ہائوسنگ سوسائٹی کے مین گیٹ کے سامنے ملازمین، الاٹیز اور ٹھیکیداروں کےاحتجاج نے نہ صرف لگ بھگ چھے گھنٹوں تک کراچی سے سندھ کے دیگر علاقوں تک ٹریفک کی آمدو رفت کو متاثر کیئے رکھا بلکہ ایک ایمبولینس میں مبینہ طور پر ایک بچہ بروقت علاج کی مطلوبہ سہولت نہ ملنے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گیا۔ نہ کوئی سرکاری عملدار مظاہرین سے مذاکرات کے لئے پہنچا نہ ہی ہائوسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ نے احتجاج ختم کروانے کی کوئی کوشش کی۔ سڑک کی دونوں اطراف بلامبالغہ ہزاروں گاڑیاں پھنسی رہیں، بالاخر مقامی پولیس اور رینجرز کے حکام نے مظاہریں سے بات کی اور احتجاج ختم ہوگیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق احتجاج کرنے والے ملازمین کا موقف تھا کہ ہائوسنگ سوسائٹی کے اکائونٹس بند ہونے کی وجہ سے ان کو تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہیں، ٹھیکداروں کا کہنا تھا کہ انہوں نے سوسائٹی کے تعمیراتی کام میں ٹھیکے لے رکھے ہیں، جن کی ادائیگیاں رکی ہوئی ہیں، جبکہ الاٹیز کا کہنا تھا کہ انہوں نے کروڑوں روپے دے کر گھر خریدے ہیں، اگر اسکیم پر کام بند ہوجاتا ہے تو ان کی رقمیں ڈوب جائیں گی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ احتجاج کس کے خلاف تھا؟ وفاقی یا سندہ حکومت کے خلاف؟ جی نہیں، انہوں نے تو کسی کے اکائونٹس بند نہیں کئے، نہ ہی اسکیم کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی ہے، بلکہ سندہ حکومت نے تو ضرورت سے زیادہ مراعات دے رکھی ہیں۔ اکائونٹس کس نے بند کئے، اور کس کی وجہ سے اسکیم پر کام رک جانے کا خدشہ ہے، ظاہر ہے، سپریم کورٹ سے، تو اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ احتجاج ملک کی اعلیٰ عدالت اور خاص طور پر عدالت میں زیرالتوا کیس اور اس کی کارروائی کے خلاف ہے۔
مجھے قانون کا تو علم نہیں کہ اس پر عدالت کوئی ایکشن لے سکتی ہے یا نہیں، مگر جو کچھ میڈیا کی آنکھ سے دکھایا جاتا رہا وہ کوئی عام رواجی احتجاج نہیں تھا، نہ کوئی پلے کارڈ تھا، نہ ہی جھنڈا، نہ قائدین کی تقاریر اور نہ ہی زندہ باد مردہ باد کی نعرے بازی۔
اب ذرا مطالبات کا جائزہ لیں، ملازمین کو تنخواہیں نہیں ملیں تو یہ سراسر غلط ہے، اگر ٹھیکیداروں کی ادائگیاں روک دی گئی ہیں تو ان کا مطالبہ بھی جائز ہے مگر کیا ان ملازمین یا ٹھیکیداروں نے ہائوسنگ سوسائٹی کے اندر یا ان کے آفیس کے باہر کوئی احتجاج کیا؟ جی نہیں، ایسی کوئی خبر کم از کم میری نظر سے تو نہیں گذری۔
الاٹیز کی بات بھی درست ہے کہ انہوں نے اربوں روپوں کی ادائگیاں کی ہوئی ہیں، اس امید پر کہ ایک نا ایک دن ان کو گھر ملیں گے اور وہ باقی ماندہ زندگی سکون سے گذار سکیں گے، ان کو معاہدے کے مطابق گھر ملنے چاہیں، مگر پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کو کس نے بتایا کہ آج ملازمین اور ٹھیکیداراحتجاج کر رہے ہیں کہ وہ پہنچ گئے، ساتھ ہی ساتھ اس بات کو کون کنفرم کرے گا کہ احتجاج میں شامل الاٹیز کی کل تعداد کتنی تھی۔


اس بات پر سوچتے ہوئے یاد آیا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق احتجاج میں بروکرز/اسٹیٹ ایجنٹس بھی شامل تھے، بھئی ان کو کیا ہوا؟ کیا ان کو تنخواہ رکی ہوئی ہے؟ جی نہیں، کیا ان کی ٹھیکوں کی رقمیں ڈوب گئی ہیں؟ جی نہیں، کیا ان کی املاک ہیں جن کی ادائگیاں کرکے بیٹھے ہیں؟ کم ازکم مجھے تو ایسا نہیں لگتا۔ پھر وہ احتجاج میں کیا کر رہے تھے؟ اب یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ الاٹیز میں سے جتنے احتجاج میں شریک ہو سکے ان کو یکجا کرنے میں بھی انہی حضرات کا کردار ہو سکتا ہے۔
اب آئیے اصل مسئلے کی طرف، ہائوسنگ سوسائٹی کا مسئلہ ہے کیا؟ سپریم کورٹ میں جو مقدمہ زیر سماعت ہے اس کے مطابق اس پروجیکٹ کی ساری زمین ہائوسنگ سوسائٹی کی نہیں، کچھ ایسی ہے کہ جو خریدی گئی ہے، کچھ ایسی ہی جس کے انتقال کا کوئی رکارڈ نہیں مل رہا۔ علاقہ مکین ایک عرصے سے یہ الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ ان کے آباؤاجداد کی زمینیں بزور، طاقت ہتھیا لی گئی ہیں یا زبردستی خریدی گئی ہیں۔ اس پروجیکٹ کو فراہم ہونے والے پانی اور بجلی پر بھی کئی اعتراضات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ اس احتجاج کو جس طرح سے کوریج ملی، پہلے نجی ہائوسنگ سوسائٹی کے نام سے خبریں چلنی شروع ہوئیں اور پھر اچانک سے ادارے کا نام آگیا۔ جو بھی ماجرا ہے، معاملے کو سمجھنا اتنا دشوار بھی نہیں ہے۔
چونکہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے زیر سماعت ہے مگر اس بات سے انکار نہیں کہ ملازمین کو تنخواہیں ملنی چاہیئیں، تھیکیداروں کو بھی ادائگیاں ہونی چاہیئیں اور الاٹیز کے ساتھ بھی انصاف کیا جائے، یا تو ان کو معاہدے کے مطابق گھر یا پھر مناسب معاوضہ ملنا چاہئے، مگر احتجاج میں پھنس کر جو بچہ جان کی بازی ہار گیا، اس کا کیا قصور تھا؟
میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے احتجاج کی آڑ میں کسی سے نہ کوئی سمجھوتہ کیا جانا چاہئے، نہ ہی کسی کو خلافِ قانون رعایت ملنی چاہیئے۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ نہ تو سندہ حکومت کی زمین کوڑیوں کے دام الاٹ ہو نہ ہی کوئی طاقتور کسی کمزور کی زمین ہتھیانے پائے۔ باقی رہ گئے اس احتجاج کے منتظمین، تو ان کو چاہئے کہ آئندہ کسی سرمایہ کار کو جان بوجھ کر ایسی اسکیموں میں نہ پھنسائیں جن کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).