سینیٹر طلحہ محمود ۔ شاہراہ قراقرم کے معمار


ہمارا ارادہ ہوا کہ سی پیک روٹ کا خود سے جائزہ لیا جائے کہ یہ کہاں کہاں بن رہا ہے اور وہاں کتنا کام ہو چکا ہے۔ آپ بخوبی واقف ہوں گے کہ ایک بڑا تجزیہ کار خود سے کسی جگہ بن بلائے نہیں جاتا مگر کم و بیش ایک سال انتظار کرنے کے بعد بھی نہ تو چین والوں نے، اور نہ ہی پاکستانی حکومت نے ہمیں اس روٹ کا جائزہ لینے کی دعوت دی۔ مگر قوم خوش قسمت رہی کہ ہمیں یہ دعوت ہوم منسٹری کی طرف سے مل گئی جس نے بتایا کہ بچوں کی چھٹیاں ہو چکی ہیں اور اس مرتبہ ہم خنجراب تک جا رہے ہیں۔

ہم نے ایک ہائی ایس ویگن کا بندوبست کیا جس کے ڈرائیور کا نام ہم رفیق فرض کر لیتے ہیں۔ اس نے لاہور سے چلتے ہوئے مطلع کیا کہ پہاڑوں پر اے سی نہیں چلے گا۔ ہمیں اندازہ تھا کہ ہائی ایس کو اونچی چڑھائیوں میں مشکل ہو گی اس لیے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں۔ گلگت تک گرمی ہو گی لیکن اسلام آباد سے گلگت تک اے سی چل جائے گا، پھر زیادہ چڑھائی ہوئی تو برداشت کر لیں گے۔ بکنگ لاہور سے تھی مگر اس نے پک ہمیں اسلام آباد سے کرنا تھا۔ اسلام آباد میں جب ہم گاڑی میں بیٹھے تو علم ہوا کہ گاڑی میں اے سی کی بیلٹ ہی نہیں تھی اور اگر ہم لاہور سے بیٹھتے تو وہاں سے مانسہرے تک کھڑکی کھول کر ہی بیٹھنا ہوتا۔ رفیق نے مطلع کی کہ سر جی میں نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اے سی پہاڑوں پر نہیں چلے گا۔ رفیق کا کہنا تھا کہ پہاڑ اسلام آباد سے شروع ہو جاتے ہیں اور لاہور سے کیونکہ اس نے ہمیں رات کو لے کر آنا تھا، تو اے سی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ شکر ہے کہ اس کا جغرافیہ کمزور ہے، ورنہ کلرکہار سے پہاڑ شروع کر دیتا تو ہم کیا کرتے۔ خیر اس بیلٹ کو ڈلوانے میں ایک دن لگا اور پھر ہم روانہ ہوئے۔

ٹیکسلا کے قریب سے ہم نے خان پور ڈیم کا راستہ پکڑا تاکہ وہاں سے ایبٹ آباد پہنچ جائیں۔ ادھر پنجاب میں ہم دیواروں پر حکیموں اور چھیاسی سالہ سنیاسی باواؤں کے اشتہار پڑھنے کے عادی ہیں۔ دیوار پر اگر پھر بھی کچھ جگہ بچ جائے تو وہاں کسی سیاسی لیڈر کے قدم بڑھانے وغیرہ کی بات بھِی لکھی نظر آ جاتی ہے یا کسی مولانا کے کسی جلسے کا اعلان رقم کر دیا جاتا ہے۔ غالباً اہل پنجاب ان سیاسی لیڈروں او ر سیاسی مولاناؤں کو بھی حکیموں اور چھیاسی سالہ سنیاسی باواؤں کے ذیل میں ہی لیتے ہیں جن کی پڑیا بہت مشہور مگر اثر سے خالی ہوتی ہے، بلکہ الٹا نقصان دیتی ہے۔

لیکن ہری پور کی دیواروں پر ایسا کچھ نہ لکھا تھا۔ ’سینیٹر طلحہ محمود چیئرمین وزارت داخلہ‘ کے علاوہ حرام ہے جو ان دیواروں پر کچھ لکھا ہو۔ یہ پڑھ کر ہمارے علم میں کافی اضافہ ہوا۔ پہلے ہمیں یہی غلط فہمی تھِی کہ وزارت داخلہ کا سربراہ کوئی وزیر وغیرہ ہوتا ہے جس کا نام شاید چودھری نثار علی خان ہے، اب علم ہوا کہ وزارت داخلہ کا اصل میں چیئرمین ہوا کرتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے یہ چودھری نثار نامی شخص اتنا فارغ دکھائی دیتا ہے کہ اس کی ڈیوٹی بظاہر صرف پریس کانفرنس کرنے کی ہے۔

’سینیٹر طلحہ محمود چیئرمین وزارت داخلہ‘ کے متعلق ہمیں کچھ واجبی سا علم تھا کہ جمعیت علمائے اسلام کے اس بے شمار پیسے والے غیر مولوی عالم کا تعلق ہری پور سے ہے۔ لیکن جوں جوں ہم شاہراہ قراقرم پر آگے بڑھتے گئے، ہم پر اس شخص کی عظمت کا حال کھلتا گیا۔ گلگت تک جہاں جہاں آبادی نظر آئی، وہاں بے شمار دیواروں ہر اہلیان علاقہ کی طرف سے ’سینیٹر طلحہ محمود چیئرمین وزارت داخلہ‘ کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ جہاں دیواروں نے ساتھ چھوڑ دیا، وہاں ان مبینہ اہلیان علاقہ نے کوئی چٹان تک نہیں چھوڑی ہے اور شکریے کا حق ادا کیا ہے۔ ہری پور، حویلیاں، ایبٹ آباد، قلندر آباد، ڈھوڈیال، شنکیاری، بٹل، بٹاگرام، تھاکوٹ، بشام، کوہستان، پٹن، کومیلا، داسو، سازین، چلاس، رائے کوٹ، جگلوٹ، اور گلگت تک، ہر تیسری چوتھی چٹان آپ کو ’سینیٹر طلحہ محمود چیئرمین وزارت داخلہ‘ کا شکریہ ادا کرتی دکھائی دے گی۔ واللہ یہ وہ عزت ہے جو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔

پہلے تو ہم حیران ہوئے کہ ایک بظاہر عام سے سینیٹر نے ایسا کیا کر دیا ہے کہ دو تہائی شاہراہ قراقرم پر اس نام کی شکر گزاری کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا ہے۔ پھر ہمیں اندازہ ہوا کہ اس مخیر اور باحوصلہ شخص نے کس درجے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ آپ نے قدیم داستانوں میں فرہاد کا ذکر سنا ہو گا کہ اس نے چند سال لگا کر ایک دو کلومیٹر لمبی نہر شیریں کے لیے کھود دی تھی۔ یا پھر آپ نے اس ہندوستانی دیہاتی دسراتھ مانجھی کا قصہ سنا ہو گا جس کی بیوی بروقت ہسپتال نہ پہنچنے پر مر گئی تھی تو اس نے اس پہاڑ کو تن تنہا کھود کر سڑک تک رسائی کو آسان بنا دیا تھا جس کی وجہ سے یہ دیر لگی تھی۔ اس نے بائیس برس کی محنت کے بعد محض اپنے ہتھوڑے اور تیشے سے ایک کلومیٹر لمبا راستہ بنا دیا تھا جس سے گاؤں سے شہر کا راستہ گھٹ کر پچپن کلومیٹر سے پندرہ کلومیٹر رہ گیا تھا۔ لیکن صاحبو، کہاں ایک کلومیٹر، اور کہاں چھے سو کلومیٹر؟ اور وہ بھی دنیا کے بلند ترین پہاڑوں میں بنائی جانے والی دشوار ترین سڑک جو کہ 1958 سے 1978 تک بیس برس میں بنی۔

آپ کو ابھِی ’سینیٹر طلحہ محمود چیئرمین وزارت داخلہ‘ کے اس کارنامے کی دشواری کا اصل اندازہ نہیں ہو گا جب تک کہ ہم آپ کو شاہراہ قراقرم کے بارے میں نہ بتائیں۔

شاہراہ قراقرم کے پاکستانی حصے کی لمبائی کم و بیش نو سو کلومیٹر ہے۔ اس میں سے حسن ابدال سے لے کر گلگت تک کا فاصلہ تقریباً ساڑھے پانچ چھے سو کلومیٹر بنتا ہے۔ یہ دنیا کے دشوار گزار ترین علاقے سے گزرتی ہے اور درمیان میں ایک ایسا مقام بھی آتا ہے جہاں عظیم سلسلہ کوہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش آپس میں ملتے ہیں۔ اس پر سے گزرتے ہوئے ہمیں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں نانگا پربت، راکاپوشی، دیران، شیشپر، التر، اور تپودان کی برفانی چوٹیاں دکھائی دیتی ہیں۔ راہ میں ہی مناپن، پسو، گلکن اور خنجراب گلیشئیر ملتے ہیں۔ سڑک دریائے سندھ، دریائے گلگت اور دریائے ہنزہ کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی چین میں داخل ہو جاتی ہے۔ راستے میں کئی جگہ یہ سڑک قدیم شاہراہ ریشم کے اوپر بنائی گئی ہے اور کئی جگہ اس سے ہٹ جاتی ہے۔

ایک طرف بلند ترین پہاڑ ہیں جن کو کھود کر یہ راستہ بنایا گیا ہے تو دوسری طرف سینکڑوں میٹر نیچے بپھرے ہوئے دریا کا سامنا ہے۔ اسی پہاڑ اور دریا نے مل کر آٹھ سو سے زیادہ سڑک بنانے والے پاکستانی اور دو سو سے زیادہ چینی ماہرین کی جان لی ہے۔

اس سڑک پر پچاس ہزار سے زیادہ ایسے آثار ہیں جہاں آٹھ ہزار سال سے گزرنے والے لوگ بوریت کا شکار ہو کر چٹانوں پر ویسے ہی نقش آرائی کرتے رہتے ہیں جیسے کہ آج کہ دور میں بھی آپ کو ہر مشہور مقام پر پاکستانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں جانور بنے ہوئے ہیں، کہیں تکونے تکونے سے آدمی جو شکار کھیل رہے ہیں۔ اب ہمیں مقبرہ جہانگیر اور شاہی قلعے میں لوگوں کے نام اور فون نمبر دیکھ کر دکھ نہیں ہوتا ہے۔ ہمیں علم ہو گیا ہے کہ آٹھ ہزار سال بعد یہ بھی شاہکار اور انسانی ورثہ تصور کیے جائیں گے۔ کیا آپ کو ذرا بھی اندازہ ہے کہ آٹھ ہزار سال پہلے کی تصویر کو پڑھنا کتنا مشکل کام ہے؟ اور اسی پر بس نہیں، بلکہ دو چار ہزار سال سے لوگ ادھر کچھ لکھ بھی رہے ہیں جسے بسا اوقات اپنے تمام تر علم و فضل کے باوجود ہمارے جیسا عالم بھی پڑھنے سے قاصر رہتا ہے۔ جو زبان بھِی ہے، مگر اردو یا انگریزی نہیں ہے۔ پتہ نہیں یہ لوگ کوئی عام فہم زبان بھی جانتے تھے یا بچوں کی طرح لایعنی لائنیں گھسٹینے کے ہی عادی تھے۔

بہرحال اب جب کہ آپ کو عظیم شاہراہ قراقرم کی دشواری کا کچھ کچھ اندازہ ہو گیا ہے، تو ہم بات آگے بڑھاتے ہیں۔ جب 1958 میں یہ عظیم شاہراہ بننا شروع ہوئی، تو اس وقت ’سینیٹر طلحہ محمود چیئرمین وزارت داخلہ‘ کی پیدائش میں چار برس باقی تھے۔ ہمارا گمان ہے کہ 1962 میں پیدا ہوتے ہی وہ اس کی تعمیر میں جت گئے ہوں گے۔ گھٹنوں گھٹنوں چلتے کوئی اینٹ پتھر ان کے ہاتھ آتا ہو گا تو اس سے چٹان توڑ ڈالتے ہوں گے اور راہ بناتے ہوں گے۔ ہماری رائے میں تو سیاستدان ایسی سنگ پاشی کے ماہر ہوتے ہیں۔

بہرحال، جس وقت 1978 میں یہ شاہراہ مکمل ہوئی، اس وقت ’سینیٹر طلحہ محمود چیئرمین وزارت داخلہ‘ کی عمر تقریباً سولہ سال ہو گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہری پور، حویلیاں، ایبٹ آباد، قلندر آباد، ڈھوڈیال، شنکیاری، بٹل، بٹاگرام، تھاکوٹ، بشام، کوہستان، پٹن، کومیلا، داسو، سازین، چلاس، رائے کوٹ، جگلوٹ، اور گلگت تک، ہر تیسری چٹان پر مقامی افراد نے صرف انہی کا شکریہ ادا کیا ہوا ہے اور خوبصورت قراقرم کا بھی وہی حال ہو چکا ہے جو کہ حکیمی نسخے لکھے جانے کے بعد لاہور کی دیواروں کا ہو چکا ہے۔

ادھر شمال میں آپ نے مارخور نامی جانور کا بہت تذکرہ سنا ہو گا۔ اتنا شریر جانور ہوتا ہے کہ سانپ کو مار کر کھا جاتا ہے اور پھر اس کی جگالی کرتا رہتا ہے۔ روایت ہے کہ اسی جگالی سے جو تھوک نکلتا ہے، اس سے سانپ مہرہ بنتا ہے جو کہ سپیرے اپنے پاس رکھتے ہیں اور سانپ کے کاٹے کا اس سے علاج کرتے ہیں۔ کبھی یہ مارخور اس علاقے میں عام نظر آتا تھا مگر جب سے علاقے کے عوام نے ’سینیٹر طلحہ محمود چیئرمین وزارت داخلہ‘ کا نام ہر پہاڑی پر کندہ کیا ہے، یہ خال خال ہی نظر آتا ہے۔ مگر قربان جائیے ہمارے لیڈر کے، علاقے کے سانپوں نے شکایت کی کہ یہ جانور ہمیں جینے نہیں دیتا ہے، تو ان کی  نظر سے یہ موذی جانور بھی نہ بچ سکا اور اکٹھے تین تین مار خوروں کو ’سینیٹر طلحہ محمود چیئرمین وزارت داخلہ‘ نے ڈھیر کر دیا۔ یہ بھی روایت سننے میں آئی ہے کہ کیونکہ پاکستان کا قومی جانور مار خور ہے، تو اسی وجہ سے قومی لیڈر نے اپنا استحقاق سمجھتے ہوئے اسے قومی اثاثہ قرار دے کر ڈھیر کر دیا ہے۔ یہ قومی اثاثہ روئے زمین سے ختم ہو گیا تو ہم پاکستان کا قومی جانور گدھے کو قرار دلوائیں گے۔

ہر کامیاب شخص سے جلنے والے بہت لوگ ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص ہمیں بھی ملے۔ کہنے لگے کہ ’سینیٹر طلحہ محمود چیئرمین وزارت داخلہ‘ کا اس شاہراہ کے بنانے میں تو کوئی ہاتھ نہیں ہے، مگر اپنی بے شمار دولت کے سہارے انہوں نے کوئی سائن بورڈ پینٹر پکڑا ہے اور اس سے ہری پور سے لے کر گلگت تک سارے منظر کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ جمعیت علمائے اسلام کا یہی وتیرہ ہے، کام کسی کا ہوتا ہے، نام اپنے کر لیتے ہیں۔ ہم نے انہیں تو کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا، مگر دل ہی دل میں خوب ہنسے۔ بھلا جس جماعت کے لوگ اتنی زیادہ سادہ زندگی گزارتے ہوں، ان کو ایسے نام و نمود کے لیے پیسہ پھینکنے میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ وہ تو بس علما کو پارلیمان میں نمائندگی دینے کے قائل ہیں، جیسا کہ ہم ’سینیٹر طلحہ محمود چیئرمین وزارت داخلہ‘ کے کیس میں دیکھ ہی رہے ہیں۔

ویسے بھی جمعیت علمائے اسلام کی عوامی مقبولیت تو سب پر عیاں ہے۔ خیبر پختونخواہ کی اسمبلی کی 123 سیٹوں میں سے پوری 17 سیٹیں جمعیت علمائے اسلام نے جیتی ہیں اور وہ چاہتی تو 60 سیٹوں والی تحریک انصاف کو ڈھا کر وہاں حکومت بھی بنا سکتی تھی۔ ادھر گلگت بلتستان میں بھی اس کی عوامی مقبولیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ گلگت بلتستان کی 33 رکنی اسمبلی میں پوری ایک سیٹ جمعیت علمائے اسلام کے پاس ہے۔ لیکن دیامیر کی وہ ایک سیٹ بھی ایسی بھاری ہے کہ اسی کے بل پر گیارہ رکنی اپوزیشن نے جمعیت علمائے اسلام کے حاجی شاہ بیگ صاحب کو ہی اپوزیشن لیڈر چننے میں عافیت جانی ہے۔

چاہے حاسدین اسے جوڑ توڑ کہیں یا خرید و فروخت، ہم حق کا ساتھ دینے والے تو بس یہی جانتے ہیں کہ ہر سنگ پر یہ جو جمعیت علمائے اسلام کے ’سینیٹر طلحہ محمود چیئرمین وزارت داخلہ‘ کا نام لکھا نظر آ رہا ہے، وہ بلاوجہ نہیں ہے۔


اس سیریز کی  اقساط

مہمان، ہنزہ پولیس اور پنجابی افسر

سینیٹر طلحہ محمود ۔ شاہراہ قراقرم کے معمار

مانسہرہ: شہنشاہ اشوک کی عظیم سلطنت کے ستون

ملک الجبال کے سائے میں بشام تک

سفر خنجراب: بشام سے کوہستان تک

سفر خنجراب: کوہستان سے چلاس تک

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments