شہزادہ محمد بن سلمان کے ٹیچر کے ان کی زندگی کے متعلق چند انکشافات


Saudi artists paint a mural portrait of King Salman bin Abdulaziz (R), and his son Crown Prince Mohammed bin Salman, during the 32nd Janadriyah Culture and Heritage Festival, held on the outskirts of the capital Riyadh on 17 February 2018.

دنیا سعودی عرب کے متنازع ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے بارے میں اقتدار پر عملی گرفت مضبوط ہونے تک کچھ زیادہ نہیں جانتی تھی۔ بی بی سی عربی سروس کے راشد سِکئی، جنھوں نے شہزادہ محمد بن سلمان کو بچپن میں تعلیم دی تھیں، ان کی شاہی زندگی کے بارے میں کچھ انکشافات کیے ہیں۔

’سنہ 1996 میں جب میں جدہ کے ایک انتہائی معتبر ادارے الانجال سکول میں پڑھاتا تھا تو مجپے ایک دن ایک ٹیلی فون آیا۔ ریاض کے گورنر، شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز بحیرہ احمر کے ساحلی شہر جدّہ میں عارضی طور پر منتقل ہوئے تھے اور انھیں اپنے بچو ں کو انگریزی پڑھانے کیلئے ایک ٹیچر کی ضرورت تھی۔

مجھے فوری طور پر اس شخص کے محل پہنچا دیا گیا جس نے بعد میں شعودی عرب کا بادشاہ بننا تھا تاکہ میں اس کی پہلی بیوی سے پیدا ہونے والے بچوں کا ٹیوٹر بن کر انھیں ان کے محل میں انگریزی پڑھاؤں۔ یہ شہزادہ تُرکی، شہزادہ نائف، شہزادہ خالد اور یقیناً شہزادہ محمد تھے۔

میں شہر کے ایک جدید علاقے کے ایک فلیٹ میں رہتا تھا۔ ایک بڑی گاڑی مجھے وہاں سے روزانہ صبح سات بجے الانجال سکول لے جاتی اور پھر وہاں سے فارغ ہونے کے بعد میں دوپہر کو محل جاتا تھا۔ اسی گاڑی کا ڈرائیور مجھے محل لے جاتا تھا۔

Rachid Sekkai

                                                                                              راشد سِکئی کی جدہ کے الانجال سکول کی تصویر

محل کے حفاظتی حصار سے گزر کر جب گاڑی اندر داخل ہوتی تو وہاں عالی شان محلات تھے، وہاں کے باغات کو سفید یونیفارم پہنے ملازمین بہت محنت سے آراستہ کرتے تھے۔ ان عمارتوں کے سامنے ایک کار پارک تھا جہاں دنیا کی منفرد لگژری کاروں کا ایک فلِیٹ کھڑا ہوتا تھا۔ وہاں میں نے پہلی مرتبہ گلابی رنگ کی ایک کیڈیلیک کار دیکھی تھی۔

اس قلعہ نما شاہی محل میں آنے کے بعد ایک ادھیڑ عمر کے منصور الشہری، جو محل کے مہتمم تھے، مجھے محل کے اندر لے جاتے۔ گیارہ برس کا محمد بن سلمان ان سے بہت مانوس تھا۔

محمد اپنی پڑھائی کی بجائے عموماً محل کے محافظوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا تھا۔ اپنے بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے اسے بظاہر اپنی من مانی کرنے کی اجازت تھی۔

اس سے چھوٹے شہزادوں کو میں اسی وقت تک کنٹرول کر پاتا تھا جب تک محمد بن سلمان وہاں نہیں ہوتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ جب ہم پڑھ رہے ہوتے تھے تو وہ اس وقت واکی ٹاکی استعمال کر رہا ہوتا تھا جو وہ اپنے گارڈز سے لے آیا کرتا تھا۔ وہ اس واکی ٹاکی پر میرے بارے میں شوخ اور گستاخ فقرے کہتا تھا اور اپنے بھائیوں اور گارڈز کے بارے میں لطیفے بیان کرتا تھا۔

Saudi Arabia's Prince Salman bin Abdul Aziz, Governor of Riyadh Region, addresses media 05 December 1986 in Paris while he presents an exhibition on the city of Riyadh at Paris Grand Palais

                                                       شہزادہ محمد بن سلمان کے والد شاہ سلمان جدہ کے گورنر ہوا کرتے تھے جب راشد ان کے بیٹوں کے ٹیوٹر تھے

آج تینتیس برس کا شہزادہ سعودی عرب کا وزیر دفاع ہے اور سعودی بادشاہت کا وارث ہے۔ پچھلے برس سعودی عرب کے عملی طور پر مطلق حکمران بننے کے بعد محمد بن سلمان نے نیا سعودی عرب بنانے والے جدت پسند رہنما ہونے کا موقف اختیار کیا۔

قدامت پسند علما کی مخالفت ہوتے ہوئے انھوں نے بادشاہت کیلئے کافی عرصے سے موخّر شدہ اقتصادی اصلاحات نافذ کیں اور انتہائی قدامت پسند معاشرے میں آزادی کے رجحان کو فروغ دیا۔

ان اقدامات کی وجہ سے ان کی تعریف ہوئی ہے، لیکن سعودی عرب میں انسانی حقوق کی بد ترین حالت، یمن میں نہ ختم ہونے والی جنگ اور حال ہی میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے ترکی میں سعودی قونصل خانے میں قتل کی وجہ سے وہ تنقید کا نشانہ بھی بنے ہیں۔

Protest against Mohammed Bin Salman in Tunis (27/11/18)

                                                محمد بن سلمان کو سعودی عرب میں اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے

سعودی عرب نے گیارہ افراد پر جمال خاشقجی کے قتل کی فردِ جُرم عائد کی ہے لیکن کہا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان اس قتل میں ملوث نہیں تھے۔

ایک موقع پر میں گھبرا گیا تھا جب شہزادہ محمد نے مجھے بتایا کہ اس کی ماں، شہزادی، کہتی ہیں کہ میں ایک سچا شریف آدمی لگتا ہوں۔ مجھے نہیں یاد پڑتا میں اُن سے کبھی ملا بھی تھا۔ سعودی عرب کے شاہی خاندان کی خواتین اجنبی مردوں سے ملاقات نہیں کرتیں۔ اور محل میں جس خاتون سے اگر میں ملا تھا تو وہ شہزادوں کی ایک فلپائینی آیا تھیں۔

مستقبل کے ولی عہد کے بتانے تک کہ یہاں دیواروں پر سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں میں اس بات سے بے خبر تھا کہ کوئی مجھ پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اس کے بعد میں پڑھاتے ہوئے بہت محتاط رہتا تھا۔

کچھ ہی عرصہ کے بعد میں محمد اور اس کے چھوٹے بھائیوں کو پسند کرنے لگ گیا۔ اگرچہ میں ان شہزادوں کو ایک بہترین ماحول میں پڑھاتا تھا اور میرے شاگرد میرے دوسرے شاگردوں کی طرح ہی پڑھنے کی جستجو رکھتے تھے لیکن انھوں کھیل کود کا شوق ذرا زیادہ تھا۔

ایک دن محل کے مہتمم منصور الشہری نے مجھے بتایا کے مستقبل کے بادشاہ اپنے بچوں کی تعلیمی پراگریس کے بارے میں جاننے کیلئے مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال تھا یہ ملاقات شہزادہ محمد کی نامناسب حرکتوں کے بارے میں بات کرنے کا اچھا موقع ہے۔

میں ملاقات کیلئے شہزادہ سلمان کے کمرے کے باہر دوسرے اساتذہ کے ہمراہ انتظار کر رہا تھا۔ یہ اساتذہ شاہی آداب سے بہتر طور پر آگاہ تھے۔

جب شہزادہ سلمان تشریف لائے تو تمام اساتذہ ایک دم سے ریاض کے گورنر کے دبدبے سے متاثر ہو کر کھڑے ہوگئے۔ اور پھر وہ ان کی جانب باری باری بڑھے تو وہ ان کے ہاتھ کا بوسہ لینے لگ گئے۔ شہزاد سلمان نے جلدی جلدی اپنے بیٹوں کی پراگریس کے بارے میں دریافت کیا اور آگے بڑھتے گئے۔

President Donald Trump (L) greets The Saudi Ambassador to the United States Prince Khalid bin Salman bin Abdulaziz during an Iftar dinner in the State Dining Room at the White House 6 June 2018 in Washington DC

                                                           راشد نے شہزادہ خالد بن سلمان کو بھی پڑھایا ہے جو اس وقت سعودی عرب کے امریکہ میں سفیر ہیں

جب میری باری آئی تو میں دوسرے اساتذہ کی طرح ان کے سامنے جُھکا نہیں۔ میں اس سے پہلے بھی کبھی کسی کے لیے اس طرح نہیں جُھکا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں خوف سے یخ بستہ ہوجاتا میں نے آگے بڑھ کر مستقبل کے بادشاہ سے مضبوطی کے ساتھ مصافحہ کیا۔

میں نے ان کے چہرے پر ایک ہلکی سے کھسیانی سی حیران کن مسکراہٹ دیکھی، تاہم انھوں نے میرے نامناسب رویے پر ناراصی کا اظہار نہیں کیا۔

میں نے ان سے شہزادہ محمد کی پڑھائی کے دوران حرکتوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی کیونکہ اس وقت تک میں نے سب کچھ چھوڑ کر برطانیہ واپس آنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

اس کے کچھ دیر بعد، محل کہ مہتمم الشہری نے شاہی آداب کو بجا نہ لانے پر مجھ پر لعن طعن کی۔

شہزادہ خالد کے علاوہ جو کہ امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر بنے، باقی تمام بھائیوں نے کوئی سرکاری عہدہ نہیں لیا اور اپنی اپنی نجی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

اب جب میں اپنی زندگی کے اس مختصر سے وقت کو مڑ کر دیکھتا ہوں تو میں اپنے نوجوانوں کو عالمی شہسواری میں ایڑھ لگاتے دیکھ رہا ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp