سیاسی جمود اور طلبا تحریک کی خوشگوار لہر


پاکستان اس وقت سیاسی جمود کا شکار ہے۔ ایک نئی جماعت کے حکومت میں آنے کی بدولت اس پر تنقید الٹا تنقید کا باعث بن رہی ہے۔ 6 ماہ تک مثبت خبریں چلانے کی تنبہیہ کی جارہی ہے اور حالات کا سارا ملبہ پرانی حکومتوں پر ڈالا جارہا ہے۔ سیاسی جماعتیں، جن کا کام حزب اختلاف میں بیٹھ کر تنقید کرنا ہے وہ اپنی ذاتی فکر میں مبتلا ہیں۔ وہ جماعتیں روزانہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور نیب کورٹ کے چکر لگاتے اپنے کیسز میں الجھی ہوئی ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، صحت، تعلیم، و دیگر ایشوز پر اختلاف کرنے والے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ صرف ایک نقطہ نظر لوگوں تک پہنچایا جارہا ہے۔ سنسرشپ کی انتہا ہے کہ سوال کرنے والوں کو نا صرف دبایا بلکہ اٹھایا جارہا ہے۔ اس ساری صورت حال کو سیاسی جمود کا نام دیا جاسکتا ہے۔

اس جمود کا احساس ماضی کی طرح اس دفعہ بھی طلبا کو ہوا اور 1984 کے بہت بڑے وقفے کے بعد معاشرے کا یہ ایک بڑا ستون ازلوں سے چلی نا انصافیوں کے خلاف میدان عمل میں آیا اور اس جمود کو توڑنے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا۔

لاہور میں موجود ایک متحرک طلبہ تنظیم پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو نے ایک بہت بڑا طلبہ یکجہتی مارچ کیا۔ جس میں طلبہ کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے 16 نکاتی مطالبات کو شامل کیا گیا۔ اس مارچ کی ایک بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ بہت عرصہ بعد بائیں بازو کی کوئی تنظیم اتنا بڑا شو کرنے میں کامیاب رہی۔ پہلی دفعہ بایئں بازو کے روایتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام طلبا تنظیموں جن میں این ایس ایف، پی ایس ایف، پی آر ایس ایف، ڈی ایس ایف، اور دیگر طلبا تنظیموں کے ساتھ ساتھ پشتون کونسل، بلوچ کونسل، سرائیکی کونسل، گلگت اور ہزارہ کے طلبا و طالبات نے بھر پور شرکت کی۔

یہ مارچ استنبول چوک سے شروع ہو کر چئیرنگ کراس جا کر اختتام پذیر ہوا۔ طلبا کا وہ جوش اور ولولہ جو ہم صرف اپنے بڑوں سے سنتے تھے، اس مارچ میں اس کا بھرپور مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ مارچ کے اختتام پر آزاد فنکار کی جانب سے ایک تھیٹر پیش کیا گیا جس میں طلبا کے مسائل کو نہایت خوبصورتی سے اجاگر کیا گیا۔

بے شک یہ مارچ انتظامیہ اور حکومتی عہدیداران کی بے حسی کی تصویر بنا رہا اور طلبا اپنے وعدے کے مطابق بغیر سڑک بلاک کیے اپنا پر امن احتجاج ریکارڈ کروانے میں کامیاب رہے۔ مگر اس مارچ نے دہایؤں سے خاموش طلبا سیاست کو نئی آواز دی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مارچ لاہور سے ہوتا ہوا پاکستان کے 17 شہروں تک پھیل گیا جن میں اسلام آباد، کراچی، پشاور اور کوئٹہ سمیت تمام بڑے شہر شامل ہیں۔ میرے آبائی شہر پاکپتن میں بھی طلبا خاموش نا رہے اور پاکپتن میں یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ لے کر شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا طلبا مارچ منعقد کیا۔ طلبا کی یہ آواز میڈیا تک پہنچی اور بہت سے لکھاری طلبا سیاست کی اس نئی لہر پر قلم اٹھانے پر مجبور ہوگئے۔

اس لہر کا احساس مجھے سب سے زیادہ اس وقت ہوا جب پنجاب یونیورسٹی لاہور کے پہلے ایلومینائی فنکشن میں تمام پرانے طلبا اپنے ماضی کے طلبا یونین کے الیکشن کا تزکرہ کرتے رہے اور اسے آج کے طلبہ کی خاموشی سے جوڑتے رہے۔ قمر زمان کائرہ نے نہایت خوبصورت انداز سے فیصل آڈیٹوریم میں موجود تمام مہمانوں ( جن میں بہت سے سیاستدان، صحافی، بیوروکریٹس، بزنس مین، اساتذہ اور طلبا شامل تھے ) کی موجودگی میں طلبا سیاست کی اہمیت پر زور دیا اور تمام سیاستدانوں کی کامیابی کا کریڈٹ طلبا سیاست کو دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ طلبا سیاست، سیاست کی ابتدائی درسگاہ ہے جس نے بہت سے سینئر سیاستدان پیدا کیے ۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست کوئی برا فعل نہیں، ملک کا ہر شعبہ سیاست سے جڑا ہے اور ملکی ترقی حقیقی جمہوری اقدار سے جڑی ہے جس کی بنیاد طلبہ سیاست ہے۔ اس موقع پر مجھے افلاطون کا ایک جملہ یاد آگیا کہ ”صرف جانور غیر سیاسی ہوتے ہیں“۔

انہوں نے تمام سٹیک ہولڈرز سے مطالبہ کیا کہ کسی بھی طرح اس عمل کو دوبارہ شروع کیا جانا چاہیے۔ میں اور دیگر سیاستدان اس مد میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی موقع پر انہوں نے بیوروکریٹس، اساتذہ اور طلبا کو بھی تعاون کی درخواست کی جس پر دیگر مقررین نے بھی ان کی بات کی تائید کی۔

یقینا طلبا سیاست ہی ہے جوملک میں حقیقی لیڈر شپ پیدا کر سکتی ہے۔ اگر سیاست اتنا ہی برا کھیل ہے جیسا طلبا کو بتایا جاتا ہے تو برسراقتدار طبقہ کیونکر اپنے بچوں اور عزیزواقارب کو اس کھیل کا حصہ بناتا ہے؟ یہ کہنا بے جا نا ہوگا کہ اگر طلبا سیاست کو مثبت نا سمجھا گیا، طلبا یونین پر پابندی برقرار رہی اور چند ایک من پسند پر تشدد طلبا تنظیموں کی شکل دکھا کر اس کے منفی پہلووں کو اجاگر کیا گیا تو وڈیروں اور جاگیرداروں کی ہر نئی لاٹ ہم پر مسلط رہے گی اور حقیقی جمہوری لیڈرشپ کا بحران مزید بڑھتا چلا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).