صاحبان کشف و کرامات


جب بھی پرانے زمانوں کے بزرگان اور پہنچی ہوئی ہستیوں کے حالات اور کشف و کرامات کے قصے سنتے اور پڑھتے ہیں، تو دل میں یہ قلق ہمیشہ رہتا ہے کہ کاش ہم بھی ان کے ادوار میں زندہ ہوتے تو ان کی صحبت کے فیوض و برکات سے کچھ فائدہ اٹھا پاتے۔ پتا نہی اب دھرتی پر ان جیسے صاحبان جلال و کمال اور کرنی والوں کا نزول کیوں نہی ہوتا۔ ایسے لگتا تھا جیسے اب یہ دھرتی بانجھ ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن جب غور کیا تو اپنی کوتاہ بینی اورکم فہمی کا ادراک ہوا۔

گویا کہ خرابی ہماری فہم و نظر کی تھی۔ ایسا معاملہ ہرگز نہ تھا کہ ایسی پہنچی ہوئی ہستیاں یہاں اس گئے گزرے دور میں ناپید ہوں۔ بلکہ اب تو، ایک ڈھونڈھو ہزار ملتے ہیں۔ والا معاملہ ہے۔ پہلے وقتوں میں ایسے صاحبان نظر کی محافل میں مہینوں اور کبھی برسوں دو زانوں بیٹھنا پڑتا تھا، تب جا کر ان کے کمالات آشکار ہوتے تھے، اب تو معاملہ الٹ ہو چکا ہے۔ اب ہمارے جیسے کوتاہ نظر اور کم فہم بھی سوشل میڈیا کے ذریعے سے ایسی برگزیدہ ہستیوں کے کمالات سے آشنائی حاصل کر لیتے ہیں۔

موجودہ دور کے ان صاحبان کشف و کرامات میں سے سب سے نمایاں اور مثل آفتاب تو قبلہ خادم حسین رضوی صاحب ہیں۔ جن کا کسی بھی اور ہمعصر سے موازنہ کرنے کی جسارت بھی سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو گی۔ کیونکہ آج کل رومن رسم الخط میں اردو لکھنے کا چلن ہو چلا ہے، اور چاہنے والے اختصار کے ساتھ بھی لکھتے ہیں جیسے عمران خان کے لئے ”Ik“ اللہ دتہ کے لئے ”AD“ اور یونائیڈ نیشن کے لئے ”UN“ تو اسی کی دیکھا دیکھی قبلہ رضوی صاحب کے کچھ چاہنے والوں نے بھی ان کو ”KHR“ لکھنا شروع کر دیا ہے۔

کچھ نا عاقبت اندیش اس اسم اختصار کو فارسی والے ”خر“ سے جوڑنے کی کوشش کر سکتے ہیں، جو کہ محض شرارت پسندی کے سوا کچھ نہی ہوگا۔ قبلہ رضوی صاحب کے فرمودات اور ارشادات ان کے عقیدت مندوں تک مسلسل پہنچتے رہتے ہیں۔ پہلے اس طرح کی محترم ہستیوں کے نام کے ساتھ، اعلیٰ حضرت، حضرت، مولانا، مدضلہ العالی اور قدس سرہ کے الفاظ استعمال ہوتے تھے۔ اب مولانا کا خیال آتے ہی قدس سرہ کی بجائے سری کے الفاظ ذہن میں آتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ۔ سری مولانا سے غلط العام کی طرح منسوب ہو گئی ہے، حالانکہ یہ ایجاد ایک اور گمنام اہلحدیث مولوی کی ہے۔ لیکن یہ بحث مولانا کی لسانیات میں مہارت اور ان کے تبحر علمی کا مقام کم کرنے کی ناکام کوشش کے سوا کچھ نہی۔ مولانا کی فصاحت و بلاغت کے آگے کسی اور کو ٹھہرانے کی کوشش کو شر پسندی کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ جتنا نیا ذخیرہ الفاظ اور امثال و تراکیب مولا نا نے اردو اور پنجابی زبان کو عطا کی ہیں، اس پر تو پوری لغت مرتب کی جا سکتی ہے۔

فرہنگ آصفیہ کا چرچا سنتے تھے لیکن فرہنگ رضویہ کے آگے ایسی فرسودہ کتاب ہیچ ہے۔ مولانا کے علمی تبحر کا زمانہ معترف ہے، اس پر تو کتب کی کتب مرتب کی جا سکتی ہیں۔ لیکن فی الحال مولانا کی کرامات کا تذکرہ پر بہار ہے، اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے مولانا اپنے عقیدت مندوں سے خطاب میں اپنے گردوں کے فیل ہونے کا واقعہ بیان کر رہے تھے، کہ میں نے اپنے گردوں کو حکم دیا کہ، او گردے او سیدھے ہو جاو، تے اوہ سیدھے ہو گئے۔

مولانا کی اسی ایک کرامت کا ذکر سن کر کمزوری خاص کے شکار ہزاروں افراد محض اس امید پر مولانا کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے، کہ جانے کب جلال میں آکر مولانا اگلی بار ان کی طرف انگلی اٹھا کر حکم دے دیں کہ ”اوئے۔ سیدھے ہو جاؤ“ اور ان کے بگڑے ہوئے کام سنور جائیں۔ اور تاحیات مولانا کو ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں دیں۔ مولانا ایسا حکم اپنی ٹانگوں کے لئے بھی جاری کر سکتے تھے، لیکن بوجہ مصلحت ایسا نہی کیا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ خادم رضوی بھاگنا چاہتا ہے۔ مولانا نے ایک جگہ کتوں سے ہم کلام ہونے کا بھی ذکر کیا ہے۔ کتوں سے بات کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کتوں کی زبان سمجھتا ہو، یا پھر کتے انسان کی زبان سمجھتے ہوں۔

کتوں سے ایسی عقلمندی اور قابلیت کی توقع نہی کی جا سکتی، البتہ مولانا کی قابلیت پر کسی کو شک نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ مولانا کے دہن مبارک سے کبھی کبھی تو اب بھی ایسے ایسے پھول جھڑتے ہیں جو صرف کتوں کو ملتفت کر سکتے ہیں، انسان تو صرف منہہ میں انگلیاں داب لیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک بار حضرت آدم سے فون پر بات کرنے کا دعویٰ کیا تھا، مولانا اگر سامنے نہ ہوں تو ان کی بات پر شک کیا جا سکتا ہے، لیکن علامہ خادم رضوی صاحب جب جنات سے بات کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، تو اس پر شک نہی کیا جا سکتا۔

بلکہ کبھی کبھی تو مولانا صاحب کے منہہ سے نکلنے والی پھلجھڑیاں شریر جنات کی کارستانی ہی معلوم ہوتی ہیں۔ مولانا کے میدان عمل میں آنے سے پہلے انگریزی زبان میں یہ قاعدہ تھا کہ ہر اسم خاص سے پہلے ”The“ لگایا جاتا تھا۔ مولانا نے یہ ترتیب الٹ دی، بلکہ سیدھی کردی۔ اب مولانا اسم خاص کے بعد ”دی“ لگاتے ہیں۔ کیونکہ انگریزی زبان لکھی ہی الٹی جاتی ہے۔ تو اس میں مستعمل تراکیب بھلا کیونکر سیدھی ہو سکتی ہیں۔ جو لوگ اب بھی پرانی تراکیب کو ہی درست جانتے ہیں، یہ ان کی کم عقلی اور لاعلمی کی دلیل ہے۔

ایک ویڈیو میں مولانا کو سلام کے بہانے نذرانہ وصول کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ بدخواہ اس بارے کچھ بھی کہیں، مولانا انکار کر کے کفران نعمت کے گناہ کبیرہ کے ہرگز مرتکب نہیں ہو سکتے تھے، اور اگر اس میں کچھ غلط بھی ہے تو وہ ذات ستارالعیوب ہے۔ ہمیں بھی ان کے بارے بدگمان نہیں ہونا چاہیے۔ مولانا کی آمد سے پہلے دینی اور مذہبی جلسے روکھے پھیکے اور بے رونق ہوا کرتے تھے۔ سامعین آتے نہیں تھے، اکثر لائے جاتے تھے۔ اور مولوی حضرات سارے گر آزما لیتے تھے، لیکن اکثر سامعین اونگھتے ہوئے پائے جاتے تھے۔

مولانا کا ہی یہ اعجاز ہے کہ مولانا کی ایجاد کردہ نا قابل اشاعت تراکیب و القابات پر سامعین جھوم جھوم کرسبحان اللہ، اللہ اکبر اور دل گرما دینے والے دیگر نعرے لگا لگا کر پنڈال کی چھت اڑا دیتے ہیں۔ مولانا حقیقی معنوں میں اپنی خطابت سے مجمعے میں آگ لگا دیتے ہیں۔ مولانا کے پکے عقیدت مند تو عقل و دلیل کی خرافات کو پیچھے چھوڑ کر پکے عاشقان اور جان نثار بن چکے ہیں۔ اگر ان جاں نثاروں کو پیٹرول کی ایک ایک بوتل دے کر عالم کفر کی طرف روانہ کر دیا جائے تو یہ کشتوں کے پشتے لگا سکتے ہیں، جس کی فل ڈریس ریہرسل یہ پہلے ہی کئی بار یہاں پر ہی کر چکے ہیں۔

مولانا عالم بے بدل، حکیم حاذق اورخطیب عصر ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ ماہر معاشیات بھی ہیں۔ سرکاری مہمان بننے سے کچھ دن پہلے ہی پاکستان پر واجب الادا قرضوں کو اتارنے کا مکمل پلان پیش کر چکے تھے، اگر اس پر عمل درآمد ہو جاتا تو پاکستان کب کا غیروں کے قرضوں کے انبار سے خلاصی پا چکا ہوتا۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض دینے کے لئے دیگر کئی شرائط کے علاوہ قبلہ مولانا کو اندر کرنے کی شرط بھی رکھی تھی۔

کیونکہ ان کے باہر رہنے کی صورت میں آئی ایم ایف والوں کو اپنا پیسہ ڈوبنے کا اندیشہ لاحق تھا۔ اگرچہ وطن عزیز کے آسمان پر نیپال کے جنگلوں میں مردے زندہ کرنے والے ذاکر صاحب، مولوی ٹوکہ صاحب، مولانا فضل الرحٰمن اور پین دی سری کے جملہ حقوق کے مالک اہلحدیث مولانا صاحب جیسے کئی ماہتاب دمک رہے ہیں، لیکن مثل آفتاب قبلہ مولانا صاحب کے جلال وجمال کے آگے سب ماند ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).